ایمان فاطمہ گورنمنٹ کالج باغبانپورہ لاہور میں سیکنڈ ائیر کی طالبہ ہیں۔ وہ کالج سے صرف ساڑھے سات کلومیٹر دور یونین کونسل بھسین کی رہائشی ہیں لیکن انہیں کالج آنے کے لیے روزانہ 23 کلومیٹر سے زائد سفر کرنا پڑتا ہے۔
ایمان فاطمہ کو باغبانپورہ کے لیے براہ راست پبلک ٹرانسپورٹ میسر نہیں ہے۔ اس لیے وہ علی الصبح پہلے اپنے گاؤں سے چنگ چی رکشے پر 10 کلومیٹر دور جلوموڑ جاتی ہیں، وہاں سے دوسرے رکشے پر 13 کلومیٹر فاصلہ طے کر کے کالج پہنچتی ہیں۔ اگر بارش ہو جائے تو نہ رکشہ ملتا ہے اور نہ ہی وہ کالج پہنچ پاتی ہیں۔
ان کے والد چھوٹے سے کاشت کار ہیں۔ تعلیمی اخراجات کے ساتھ روزانہ 200 روپے آمدورفت کا خرچہ ان کے لیے اضافی بوجھ ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایسے اضافی اخراجات کی وجہ سے گاؤں کی دوسری لڑکیوں نے میٹرک کے بعد پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
"میرے والد مجھے بارہا کہہ چکے ہیں کہ میں کالج جانا بند کردوں اور گھر میں پرائیویٹ امتحان کی تیاری کروں۔ لیکن میں تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہوں۔"
لاہور کی 24 یونین کونسلز(یو سییز) پر مشتمل مشرقی علاقوں کو حکومت پنجاب لوکل کمیونٹی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے واہگہ ٹاؤن کا نام دے رکھا ہے۔ اس ٹاؤن کی تقریباً آٹھ یوسیز کے رہائشیوں کو شہر آنے جانے کے لیے شدید مسائل کا سامنا ہے۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق لکھوڈئیر، ہانڈوگجراں، اعوان ڈھائی والہ، اتوکے اعوان، مناواں، بھسین، منہالہ، واہگہ اور ڈوگرائے کلاں سمیت ان آٹھ یوسیز کی آبادی تین لاکھ 66 ہزار 884 بنتی ہے۔ صرف ایمان فاطمہ ہی نہیں ان آبادیوں کے تمام لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے سے مشکلات کا شکار ہیں۔
1965ء میں واہگہ سے لاری اڈا تک ڈبل ڈیکر بسیں ملتی تھیں۔ لاہور ریلوے سٹیشن سے جلو گاؤں تک کسی زمانے میں چند بوگیوں پر مشتمل ٹرین چلا کرتی تھی۔ تقریباَ دس سال پہلے تک اس روڈ پر لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی (ایل ٹی سی) کی بسیں چلتی رہیں۔ لیکن اب یہاں صرف چنگ چی رکشے ہی دستیاب ہیں۔
اس وقت لاہور شہر میں میٹرو بس سروس اور اورنج لائن ٹرین جیسی عالمی معیار کی سہولتیں موجود ہیں۔ 'اورنج ٹرین' ٹھوکر نیاز بیگ سے ڈیرہ گجراں تک 27 کلومیٹر روٹ پر چلتی ہے۔ لیکن ڈیرہ گجراں سے واہگہ بارڈر تک کے علاقے آج بھی پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔
واہگہ گاؤں سے قریب ترین پبلک ٹرانسپورٹ اورنج لائن ٹرین ہے جس کا پہلا سٹیشن ڈیرہ گجراں 13 کلومیٹر دور ہے اور جلوموڑ کا فاصلہ تقریبا آٹھ کلومیٹر بنتا ہے۔ منہالہ سے اورنج ٹرین سٹیشن 19 کلومیٹر دور پڑتا ہے۔
اسی طرح اورنج لائن سے بھسین گاؤں 13 کلومیٹر اور اعوان ڈھائی والہ 11 کلومیٹر دور پڑتا ہے۔ تاہم باٹاپور، مناواں، سوترمل اور اڈاچھبیل کے علاقے جی ٹی روڈ پر ہونے کی وجہ سے اورنج ٹرین سٹیشن سے چند کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔
ایمان فاطمہ اورنج لائن پر بھی سفر نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے بتایا کہ رکشے والے جلوموڑ سے ڈیرہ گجراں تک 40 روپے اور باغبانپورہ کالج سٹاپ تک 50 روپے لیتے ہیں۔
" میں ڈیرہ گجراں سے اورنج ٹرین میں بیٹھوں تو ٹرین سٹیشن پر کالج سٹاپ سے ایک کلومیٹر دور اتارتی ہے۔ یہاں پھر رکشہ لینا پڑے گا اور خرچ مزید بڑھ جائے گا"۔
سرحدی گاؤں نروڑ کے رہائشی محمد سلیم لاہور میں بندروڈ پر ایک سٹیل مل میں کام کرتے تھے۔ لیکن اب تین سال سے بیروزگار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ سٹیل مل اپنے گاؤں کے ایک ساتھی کے ہمراہ موٹرسائیکل پر آتے جاتے تھے۔
"میرے ساتھی نے سٹیل مل میں نوکری چھوڑ دی تو مجھے چنگ چی پر آنا جانا پڑتا تھا۔ گاؤں سے جلوموڑ اور پھر وہاں سے داروغہ والا بند روڈ اور سٹیل مل تک تین رکشے تبدیل کرنا پڑتے تھے۔ یوں دیہاڑی کا ایک تہائی حصہ کرائے پر لگ جاتا تھا"۔
پبلک ٹرانسپورٹ سے محروم یہ علاقے لاہور کے قومی حلقہ 128 اور صوبائی حلقہ پی پی 155 میں آتے ہیں۔ یہاں منتخب ہونے والے مسلم لیگ ن کے سابق رکن قومی اسمبلی سہیل شوکت بٹ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے حلقے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا سنگین مسئلہ ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کی کوشش ہے کہ نگران حکومت ہی واہگہ بارڈر سے اورنج ٹرین سٹیشن تک سپیڈو بس سروس شروع کر دے۔ اس کے بعد طالبات اور خواتین کے لیے صبح اور دوپہر کے اوقات میں الگ سے بسیں چلائی جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں
بے 'بس' لاہوری اور پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کا لاہور شہر تک محدود پنجاب
واہگہ روٹ (جی ٹی روڈ) پر پبلک ٹرانسپورٹ بند کرنے سے متعلق جواب کے لیے سیکرٹری احمد جاوید قاضی سمیت ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے کئی افسران سے متعدد بار رابطہ کیا گیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاہم نگران صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ابراہیم مراد کہتے ہیں وہ نگران وزیر اعلی سمیت دیگر حکام کو اس روٹ پر سپیڈو بس کی شٹل سروس شروع کرنے کی تجویز دیں گے۔
سسٹین ایبل سوشل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نگران وزیر کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اورنج لائن ٹرین کے ساتھ دنیا بھر میں شٹل سروس فراہم کی جا تی ہے۔ لاہور کے دیہی علاقوں کو بھی یہ سہولت دینا ناگزیر ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت نواحی علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ یا پھر اورنج لائن ٹرین سٹیشن تک رسائی کے لئے اسی طرح بس سروس شروع کر سکتی ہے۔ جس طرح لاہور شہر کے مختلف علاقوں میں فراہم کی جا رہی ہے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور رافعہ حیدر کا اس حوالے سے کہنا ہے وہ پنجاب ٹرانسپورٹ اتھارٹی حکام سے اس پر بات کریں گی تاکہ مشرقی دیہات میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ جلد سے جلد حل کیا جا سکے۔
تاریخ اشاعت 4 دسمبر 2023