قانون بن گیا، اسے مانتا کوئی نہیں: وراثتی جائیداد میں حصہ لینے کے خواہش مند ٹرانس جینڈر افراد کی مشکلات ختم نہ ہو سکیں

postImg

جانی خاصخیلی

postImg

قانون بن گیا، اسے مانتا کوئی نہیں: وراثتی جائیداد میں حصہ لینے کے خواہش مند ٹرانس جینڈر افراد کی مشکلات ختم نہ ہو سکیں

جانی خاصخیلی

سندھ کے ضلع لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والی ٹرانس جینڈر فرح گذشتہ 10 سال سے حیدر آباد شہر میں مقیم ہیں۔ وہ بھیک مانگ کر گزارا کرتی ہیں۔

سبز لباس، گول بندیا اور کالے موتیوں کا ہار پہنے 38 سالہ فرح نے بتایا کہ ان کے والد کا 25 لاکھ کی مالیت کا 120 گز پر چھ کمروں کا دو منزلہ مکان اور 20 لاکھ مالیت کی ایک دکان ہے۔

"میری تین بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ ابھی جائیداد کی تقسیم نہیں ہوئی، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ جائیداد میں سے مجھے اور میری بہنوں کو حصہ ملے گا کیوں کہ ہمارے معاشرے میں جائیداد پر صرف اولاد نرینہ کا حق تسلیم کیا جاتا ہے اور تو کچھ بھی نہیں"۔  

فرح بتاتی ہیں کہ انہوں نے عمر کے 28 سال جیسے تیسے گزارے۔ اس دوران انہیں معاشرے میں بدترین امتیازی سلوک اور تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر ماں باپ بھی بے بس ہو گئے تو انہیں گھر چھوڑنا پڑا۔

وہ اب اپنے گرو کے پاس رہتی ہیں۔ ان کے بقول وہی ان کا سب کچھ ہے۔

اٹھائیس برس کی ٹرانس جینڈر بوبی علی بھی پچھلے پانچ سال سے اپنے آبائی شہر لاڑکانہ کو الوداع کہہ کر حیدر آباد میں رہتی ہیں۔ ست رنگے دوپٹے کے ساتھ لہنگے میں ملبوس انٹر پاس بوبی علی نے بتایا کہ ان کی پانچ بہنیں اور چار بھائی ہیں۔

"میرے والدین کے 30 لاکھ مالیت کے 80، 80 گز کے دو پلاٹ اور 160 گز کا پانچ کمروں پر مشتمل مکان ہے۔ اس جائیداد میں سے مجھے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی جبکہ باقی سب بھائی بہنوں کو اراضی اور مکان میں وراثتی حق دیا گیا"۔ 

2017ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد 22 ہزار کے لگ بھگ ہے تاہم ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کی تنظیمیں ان اعدادو شمار پر متفق نہیں۔ ان کے مطابق اصل تعداد سرکاری سطح پر بتائی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر ٹرانس جینڈر افراد کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں۔ شناختی کارڈ سے محروم ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد کتنی ہے اس بارے میں بھی کوئی مصدقہ اعدادو شمار میسر نہیں۔ 

سندھ پولیس کے ہیومن رائٹس سیل کی افسر ماریہ نوید کا کہنا ہے کہ سندھ میں 22 لاکھ کی آبادی والے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ایک اندازے کے مطابق 13 ہزار ٹرانس جینڈر رہتے ہیں۔ مگر یہ اعدادو شمار بھی مصدقہ نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ حیدرآباد پولیس کا ہیومن رائیٹس سیل ٹرانس جینڈر افراد کا مکمل ڈیٹا اکھٹا کرنے پر کام کر رہا ہے۔

نادرا ریکارڈ کہ مطابق حیدر آباد میں سے صرف 250 ٹرانس جینڈر افراد کے پاس شناختی کارڈ ہے جبکہ وراثت کا حق صرف ایک ہی ٹرانس جینڈر کو مل سکا ہے۔

شناختی کارڈ نہیں تو وراثت کا دعویٰ بھی نہیں

حیدرآباد میں نادرا کے افسر عبدالباسط نے بتایا کہ اب تک ملک بھر میں صرف دو ہزار 943 ٹرانس جینڈر اپنی شناخت کا بنیادی حق حاصل کر سکے ہیں جس میں سندھ بھر سے 491 اور حیدرآباد کے 250 ٹرانس جینڈر بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ حیدرآباد ڈویژن میں رجسٹرڈ ٹرانس جینڈر افراد کی مجموعی تعداد 413 ہے، جس میں سے 338 ٹرانسجینڈر شہری اور 75 دیہی آبادی سے تعلق رکھتے ہیں۔

شناختی کارڈ کے لیے ٹرانس جینڈر افراد کو اپنی جنس لکھوانے کے لیے بہت سے ثبوت دینا ہوتے ہیں اور انہیں مختلف قسم کی دستاویزات پیش کرنا ہوتی ہیں جس کے باعث وہ شناختی کارڈ بنواتے ہی نہیں ہیں۔

ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی 40 برس کی ثنا خان کو اپنے والدیں سے وراثتی حق ملا ہے۔

ثنا خان کا آبائی علاقہ ضلع شکارپور ہے تاہم گذشتہ 12 سال سے حیدرآباد ان کا گھر ہے۔ شاید اسی وجہ سے وہ اپنے ساتھیوں کی نسبت زیادہ خوش مزاج نظر آتی ہیں۔ 

"میرا ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ میرے ماں باپ نے باقی اولاد کی طرح مجھے بھی بلا کر اپنی جائیداد میں سے 120 گز پر بنا مکان وراثت میں دیا ہے۔ میں چاہتی ہوں کے تمام ٹرانس جینڈر افراد کو میری طرح وراثت اور شناخت کے حقوق ملیں اور جن کو نہیں ملتے وہ ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 سے مدد لیں کیونکہ ان کو اب قانون یہ حق دلائے گا"۔ 

سفید دوپٹے اور ہلکے زرد لباس میں ملبوس 34 برس کی عمر کی ٹرانس جینڈر مہک ضلع سکھر کی رہنے والی ہیں۔

"وہ کہتی ہیں ''میری دو بہنیں اور تیں بھائی ہیں، میرے والد کی ملکیت 240 گز کا صرف ایک ہی مکان ہے جس میں والدین، دو شادی شدہ اور دو کنوارے بھائی رہتے ہیں، مجھے امید ہے کہ جب بھی والدین جائیداد تقسیم کریں گے تو مکان میں مجھے میرا حصہ ضرور دیں گے۔ اگر میرا حصہ نہیں دیا گیا تو میں اپنا قانونی حق استعمال کروں گی۔ 

مہک کہتی ہیں کہ وہ گرو کلچر سے تنگ آچکی ہیں اور اپنا کاروبار کرنا چاہتی ہیں۔

سادہ گھریلو عورت کی طرح نظر آنے والی 37 برس کی ٹرانس جینڈر ایلش ویسے تو لاڑکانہ کی رہائشی ہیں مگر  پچھلے سات سال سے حیدرآباد میں رہتی ہیں۔

ان کے تین بھائی اور ایک بہن ہے۔ ایلش نے بتایا کہ ان کے والدین کی کل ملکیت 140 گز کے پلاٹ پر پانچ کمروں کا ایک مکان ہے۔ بہن بھائی شادی شدہ ہیں تاہم بھائی والدین کے ساتھ رہتے ہیں۔ "ماں مجھے جائیداد میں سے حصہ دینا چاہتی ہیں لیکن والد اور بھائی انکار کر رہے ہیں۔ یہ تنازع ابھی تک گھر کے اندر ہی چل رہا ہے اور دیکھیں کہاں تک چلتا ہے"۔

ایلش کہتی ہیں کہ وہ اپنا حق کسی صورت نہیں چھوڑیں گی۔ 

حقوق جن سے کوئی واقف نہیں

غیر سرکاری تنظیم سندھ کمیونٹی فاؤنڈیشن کے رہنما جاوید سوز ھالائی نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی نصف آبادی ناچ گانے سے منسلک ہے تاہم ان میں ایک بڑی تعداد سیکس ورکرز کی ہے۔ کچھ ٹرانس جینڈر سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں۔  

یہ بھی پڑھیں

postImg

دوہری زنجیروں میں جکڑا ہے مقدر نے مجھے: 'تشدد کا شکار ٹرانس جینڈر افراد تھانوں اور عدالتوں کا رخ کرنے سے گریز کرتے ہیں'۔

34 برس کی فلک بھی لاڑکانہ کی رہنے والی ہیں لیکن آٹھ سال سے ان کا ٹھکانہ حیدرآباد ہے۔ فلک کے تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ ان کے والدین کا لاڑکانہ شہر میں 120 گز کا مکان اور دو دکانیں ہیں اور فلک کے بقول ان کی مجموعی مالیت 75 لاکھ روپے بنتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ''والدین، بھائی اور بہنیں کہتی ہیں کہ تم "خسرا" ہو، تمہارا نہ کوئی آگے نہ پیچھے۔ تم جائیداد لے کر کیا کرو گی؟"

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) حیدرآباد کے ریجنل ڈائریکٹر پروفیسر امداد چانڈیو کہتے ہیں کے ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کے مطابق ہر ٹرانس جینڈر نادرا آرڈیننس 2000 کے تحت 18سال کی عمر ہونے پر شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس بنوا سکتا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ہر بالغ ٹرانس جینڈر کو شناخت اور وراثت کا بنیادی انسانی حق دیا گیا ہے۔

ماریہ نوید بتاتی ہیں کہ ابھی تک ان کے پاس وراثتی حق کے لیے کسی ٹرانس جینڈر کی درخواست نہیں آئی۔ جیسے ہی شکایت آئے گی تو سندھ پولیس ریونیو ڈپارٹمینٹ سمیت متعلقہ تمام اداروں کے ساتھ مل کر قانون کے مطابق عمل کرے گی۔

حیدرآباد میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے حقوق کے لیے کام کرنے والی انسانی حقوق کی کارکن نازش فاطمہ کا کہنا ہے کہ بیشتر ٹرانس جینڈر اپنے حقوق کی ضمانت دینے والے قانون سے لاعلم ہیں اور انہیں اس بارے میں آگاہی دینا ضروری ہے۔

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن حیدرآباد کے صدر و ممتاز قانون دان غلام اللہ چانگ بتاتے ہیں کہ ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018 کے تحت ٹرانس جینڈر افراد کو وراثت سے نہ تو بے دخل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان سے امتیازی سلوک کی اجازت ہے۔

"یہ اپنے شناختی کارڈ میں جو شناخت درج کروائیں گے، اس کے مطابق ہی ان کو وراثت کا حق ملے گا اور جو اپنی مردانہ یا زنانہ شناخت کے بارے میں ابہام کا شکار ہیں تو ان کو مرد اور عورت کے وراثتی حقوق کا اوسط حصہ دیا جائے گا"۔

تاریخ اشاعت 31 دسمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جانی خاصخیلی کا تعلق حیدرآباد سے ہے، وہ سیاست، ماحولیات، زراعت، انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں اور اقلیتوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

شہدادپور کی تین ہندو بہنوں کی گمشدگی اور قبولِ اسلام کی روداد: کب کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

"دنیا میں بچے صبح سکول جاتے ہیں، ہماری لڑکیاں جاگتے ہی پانی کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

فلیٹس اور بلند عمارتوں میں رہنے والوں کی سولر انرجی تک رسائی، ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنور فاطمہ
thumb
سٹوری

تھر کول ریلوے منصوبہ "ایسے ہی زمین چھینی جاتی رہی تو یہاں کے باسی در بدر ہو جائیں گے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو
thumb
سٹوری

گھارو جھمپیر ونڈ کاریڈور، ونڈ کمپنیاں تو منافع کما رہی ہیں لیکن متاثرین کے پاس نہ زمین بچی ہے نہ ہی انہیں معاوضہ ملا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.