گوجرانوالہ کا ٹرانس جینڈر سکول: 'ہمارے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں'

postImg

احتشام احمد شامی

postImg

گوجرانوالہ کا ٹرانس جینڈر سکول: 'ہمارے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں'

احتشام احمد شامی

گوجرانوالا میں شیرانوالا باغ کے قریب ایک سرکاری سکول میں صبح کے اوقات میں معمول کی کلاسیں لگتی ہیں اور سہ پہر کو ٹرانس جینڈر افراد پڑھنے آتے ہیں۔ یہ شہر میں ان لوگوں کے لئے حال ہی میں قائم کیا جانے والا مخصوص سکول ہے۔ یہاں ٹرانس جینڈر افراد کو ہفتے میں تین دن بنیادی تعلیم دی جاتی ہے۔

اس سکول میں پہلے روز پانچ ٹرانس جینڈر طالب علموں نے داخلہ لیا۔ اس سے پہلے لاہور اور ملتان میں بھی ایسے ہی سکول قائم کئے جا چکے ہیں۔ ان سکولوں میں پڑھنے کے لئے ٹرانس جینڈر افراد پر عمر کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی جبکہ یہاں انہیں پڑھانے کے لئے بھی ٹرانس جینڈر اساتذہ کو ہی بھرتی کیا گیا ہے۔

گوجرانوالا کے سکول میں پڑھانے والی ٹرانس جینڈر استاد نیہا چودھری کہتی ہی کہ الگ سکول کھولے جانے سے ٹرانس جینڈر ہراسانی سے بچ کر پرسکون ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔

"ٹرانس جیںڈر افراد کے لئے یہ سکول کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ اقدام انہیں معاشرے کا ذمہ دار شہری تسلیم کرنے کی جانب اہم قدم ثابت ہو گا"۔

فی الوقت نیہا چودھری اس سکول کی واحد استاد ہیں تاہم جلد ہی یہاں ایک اور ٹرانس جینڈر استاد کو تعینات کیا جائے گا جس کے لئے تعلیمی قابلیت کم از کم گریجوایشن اور عمر کی حد 25 سے 45 سال رکھی گئی ہے۔ ٹرانس جینڈر سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو 30 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ دیا جاتا ہے۔

2017ء کی مردم شماری کے مطابق گوجرانوالہ ڈویژن میں ٹرانس جینڈر افراد کل تعداد 939 ہے لیکن غیرسرکاری اندازوں کے مطابق اصل تعداد اس سےکہیں زیادہ ہے جو شناختی کارڈ نہ ہونے، ناخواندگی، سماجی رکاوٹوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر رجسٹر نہیں ہو سکی۔

گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر فیاض موہل بتاتے ہیں کہ حکومت نے ہر ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں ٹرانس جینڈر افراد کے لئے مخصوص سکول کھولنےکی پالیسی بنائی ہے۔ ان سکولوں کے لئے خصوصی نصاب تیار کیا گیا ہے اور یہاں پڑھنے والوں کو مفت کتابیں اور یونیفارم اور 75 فیصد حاضری مکمل کرنے والے کو ماہانہ 5 ہزار روپے وظیفہ اور پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دی جائے گی۔ ہر کلاس میں 15 طلبہ کو بٹھایا جائے گا۔

گوجرانوالا کے ٹرانس جینڈر سکول میں پہلے روز پڑھنے کے لئے آنے والے طلبہ کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ شمع نامی طالب علم کا کہنا تھا کہ اب ٹرانس جینڈر بھیک کی بجائے تعلیم اور روزگار کے طلب گار ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے اور پڑھ لکھ کر ملک کا نام روشن کریں گے۔

ایک اور طالب علم بابل نے بتایا کہ ان کے گرو نے انہیں اس سکول میں داخلہ دلوایا ہے اور پڑھنے کے لئے کتابیں حکومت نے مفت فراہم کی ہیں۔ وہ حصول تعلیم کا اپنا خواب پورا ہونے پر حکومت اور انتظامیہ کے شکرگزار ہیں۔ 

پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالا کیمپس کے ڈپٹی رجسٹرار اور سوشیالوجی کے استاد ڈاکٹر ساجد اختر کہتے ہی کہ ٹرانس جینڈر افراد کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا۔

"مجھے پڑھاتے ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں لیکن تاحال کسی طالب علم نے مجھے اپنی زبانی یہ  نہیں بتایا کہ وہ ٹرانس جینڈر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سماجی خوف کے باعث ایسے لوگ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔"

ڈاکٹر ساجد کا کہنا ہے کہ عام لوگوں کو آگاہی دینی چاہیے کہ ٹرانسجینڈر افراد بھی انہی جیسے انسان ہیں اور ان کے ساتھ کوئی تفریق نہیں برتی جانی چاہئیے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

خبردار! یہ مردہ ٹرانس جینڈر ہے، اسے اس قبرستان میں دفن نہیں کیا جا سکتا!

وہ تجویز دیتے ہیں کہ ٹرانس جینڈر افراد کے لئے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیٹیں مختص ہونی چاہئیں۔ انہیں باعزت روزگار شروع کرنے کے لئے قرضے ملنے چاہئیں اور  ٹرانسجینڈر افراد سے نفرت کرنے کے بجائے انہیں معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لئے کوششیں کی جائیں تو اس سے بہت اچھے نتائج نکلیں گے۔

گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں ڈین آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز اور نفسیات کے استاد ڈاکٹر آسر اجمل سمجھتے ہیں کہ ٹرانسجینڈر افراد کو نوکریاں تلاش کرنے کے بجائے تجارت اور ہنر پر مبنی ذاتی کام کو ترجیح دینی چاہئیے۔مثال کے طور پر ایسے لوگ پلمبنگ یا الیکٹریشن کا ہنر سیکھ کر اپنا کام شروع کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر آسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ صنفی تعصب کو ٹرانس جینڈر افراد کی تعلیم کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہئیے اور حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن کی بدولت لوگوں کو ذات اور صنف کی تفریق کے بغیر یکساں مواقع حاصل ہو سکیں۔

تاریخ اشاعت 8 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.