گوجرانوالا میں شیرانوالا باغ کے قریب ایک سرکاری سکول میں صبح کے اوقات میں معمول کی کلاسیں لگتی ہیں اور سہ پہر کو ٹرانس جینڈر افراد پڑھنے آتے ہیں۔ یہ شہر میں ان لوگوں کے لئے حال ہی میں قائم کیا جانے والا مخصوص سکول ہے۔ یہاں ٹرانس جینڈر افراد کو ہفتے میں تین دن بنیادی تعلیم دی جاتی ہے۔
اس سکول میں پہلے روز پانچ ٹرانس جینڈر طالب علموں نے داخلہ لیا۔ اس سے پہلے لاہور اور ملتان میں بھی ایسے ہی سکول قائم کئے جا چکے ہیں۔ ان سکولوں میں پڑھنے کے لئے ٹرانس جینڈر افراد پر عمر کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی جبکہ یہاں انہیں پڑھانے کے لئے بھی ٹرانس جینڈر اساتذہ کو ہی بھرتی کیا گیا ہے۔
گوجرانوالا کے سکول میں پڑھانے والی ٹرانس جینڈر استاد نیہا چودھری کہتی ہی کہ الگ سکول کھولے جانے سے ٹرانس جینڈر ہراسانی سے بچ کر پرسکون ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔
"ٹرانس جیںڈر افراد کے لئے یہ سکول کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ اقدام انہیں معاشرے کا ذمہ دار شہری تسلیم کرنے کی جانب اہم قدم ثابت ہو گا"۔
فی الوقت نیہا چودھری اس سکول کی واحد استاد ہیں تاہم جلد ہی یہاں ایک اور ٹرانس جینڈر استاد کو تعینات کیا جائے گا جس کے لئے تعلیمی قابلیت کم از کم گریجوایشن اور عمر کی حد 25 سے 45 سال رکھی گئی ہے۔ ٹرانس جینڈر سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو 30 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ دیا جاتا ہے۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق گوجرانوالہ ڈویژن میں ٹرانس جینڈر افراد کل تعداد 939 ہے لیکن غیرسرکاری اندازوں کے مطابق اصل تعداد اس سےکہیں زیادہ ہے جو شناختی کارڈ نہ ہونے، ناخواندگی، سماجی رکاوٹوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر رجسٹر نہیں ہو سکی۔
گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر فیاض موہل بتاتے ہیں کہ حکومت نے ہر ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں ٹرانس جینڈر افراد کے لئے مخصوص سکول کھولنےکی پالیسی بنائی ہے۔ ان سکولوں کے لئے خصوصی نصاب تیار کیا گیا ہے اور یہاں پڑھنے والوں کو مفت کتابیں اور یونیفارم اور 75 فیصد حاضری مکمل کرنے والے کو ماہانہ 5 ہزار روپے وظیفہ اور پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دی جائے گی۔ ہر کلاس میں 15 طلبہ کو بٹھایا جائے گا۔
گوجرانوالا کے ٹرانس جینڈر سکول میں پہلے روز پڑھنے کے لئے آنے والے طلبہ کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ شمع نامی طالب علم کا کہنا تھا کہ اب ٹرانس جینڈر بھیک کی بجائے تعلیم اور روزگار کے طلب گار ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے اور پڑھ لکھ کر ملک کا نام روشن کریں گے۔
ایک اور طالب علم بابل نے بتایا کہ ان کے گرو نے انہیں اس سکول میں داخلہ دلوایا ہے اور پڑھنے کے لئے کتابیں حکومت نے مفت فراہم کی ہیں۔ وہ حصول تعلیم کا اپنا خواب پورا ہونے پر حکومت اور انتظامیہ کے شکرگزار ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالا کیمپس کے ڈپٹی رجسٹرار اور سوشیالوجی کے استاد ڈاکٹر ساجد اختر کہتے ہی کہ ٹرانس جینڈر افراد کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا۔
"مجھے پڑھاتے ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں لیکن تاحال کسی طالب علم نے مجھے اپنی زبانی یہ نہیں بتایا کہ وہ ٹرانس جینڈر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سماجی خوف کے باعث ایسے لوگ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔"
ڈاکٹر ساجد کا کہنا ہے کہ عام لوگوں کو آگاہی دینی چاہیے کہ ٹرانسجینڈر افراد بھی انہی جیسے انسان ہیں اور ان کے ساتھ کوئی تفریق نہیں برتی جانی چاہئیے۔
یہ بھی پڑھیں
خبردار! یہ مردہ ٹرانس جینڈر ہے، اسے اس قبرستان میں دفن نہیں کیا جا سکتا!
وہ تجویز دیتے ہیں کہ ٹرانس جینڈر افراد کے لئے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیٹیں مختص ہونی چاہئیں۔ انہیں باعزت روزگار شروع کرنے کے لئے قرضے ملنے چاہئیں اور ٹرانسجینڈر افراد سے نفرت کرنے کے بجائے انہیں معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لئے کوششیں کی جائیں تو اس سے بہت اچھے نتائج نکلیں گے۔
گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں ڈین آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز اور نفسیات کے استاد ڈاکٹر آسر اجمل سمجھتے ہیں کہ ٹرانسجینڈر افراد کو نوکریاں تلاش کرنے کے بجائے تجارت اور ہنر پر مبنی ذاتی کام کو ترجیح دینی چاہئیے۔مثال کے طور پر ایسے لوگ پلمبنگ یا الیکٹریشن کا ہنر سیکھ کر اپنا کام شروع کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر آسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ صنفی تعصب کو ٹرانس جینڈر افراد کی تعلیم کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہئیے اور حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن کی بدولت لوگوں کو ذات اور صنف کی تفریق کے بغیر یکساں مواقع حاصل ہو سکیں۔
تاریخ اشاعت 8 جون 2023