پسرور شوگر مل: کچی رسیدوں پر گنا بیچنے والے کسان کئی ماہ سے کروڑوں روپے کی ادائیگی کے منتظر۔

postImg

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پسرور شوگر مل: کچی رسیدوں پر گنا بیچنے والے کسان کئی ماہ سے کروڑوں روپے کی ادائیگی کے منتظر۔

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

ظفر اقبال کو گنے کی پچھلی فصل پر آنے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی بیوی کے زیور گروی رکھنا پڑے ہیں جبکہ پانچ افراد پر مشتمل اپنے کنبے کی گزر بسر کے لیے انہیں اپنی تین بھینسیں بھی فروخت کرنا پڑی ہیں۔

وہ چھ ایکڑ اراضی کے مالک ہیں لیکن اتنی ہی زمین انہوں نے ٹھیکے پر لے رکھی ہے اور اپنے تین بیٹوں کی مدد سے اس پر گنے، چاول اور گندم کی فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے تین ایکڑ رقبے پر گنا لگایا جو انہوں نے تین قسطوں میں ضلع سیالکوٹ کے علاقے پسرور میں قائم چینی بنانے والی فیکٹری، پسرور شوگر مل، کو فروخت کیا۔ اس میں سے پہلی دو قسطوں کی قیمت، جو دو لاکھ 80 ہزار روپے بنی، انہیں فوراً مل گئی لیکن آخری قسط کے دو لاکھ 14 ہزار روپے انہیں ابھی تک نہیں ملے۔

پچاس سالہ ظفر اقبال کا تعلق وسطی پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ کے لک نامی گاؤں سے ہے۔ انہوں نے کھاد، سپرے اور بیج وغیرہ خریدنے کے لیے پھالیہ ہی کے ایک تاجر محمد ندیم انجم سے قرض لے رکھا تھا لیکن مِل سے پیسے نہ ملنے کی وجہ سے وہ اس  کی ادائیگی نہ کر سکے۔ چنانچہ اس کے بدلے میں انہوں نے ڈھائی تولے طلائی زیور ندیم انجم کے پاس گروی رکھوا دیا ہے۔

ندیم انجم خود بھی گنے کے کاشت کار ہیں۔ پسرور شوگر مل نے انہیں بھی 12 لاکھ 80 ہزار روپے مالیت کے گنے کی ادائیگی نہیں کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مِل کی جانب سے عدم ادائیگی کی وجہ سے سینکڑوں کسان خاندان شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔

ان میں ضلع شیخوپورہ کے گاؤں اجنیاں والا کے 41 سالہ اشفاق احمد گجر کا خاندان بھی شامل ہے۔ انہوں نے پسرور شوگر مل سے لگ بھگ 20 لاکھ روپے وصول کرنے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں کے سات اور کسانوں نے بھی مجموعی طور پر اس مِل سے 34 لاکھ روپے لینے ہیں۔

ضلع شیخوپورہ ہی کے ایک اور گاؤں چک 24 آر بی کے رہائشی امتیاز احمد واہلہ اور نوید حسین واہلہ کے خاندان نے بھی ایک کروڑ 34 لاکھ روپے مالیت کا گنا پسرور شوگر مِل کو فروخت کیا جس کی ادائیگی کے وہ ابھی تک منتظر ہیں۔

گنے کی خرید و فروخت کی نگرانی کرنے والے سینئر صوبائی اہل کار، کین کمشنر پنجاب، کے دفتر سے ملنے والی معلومات کے مطابق اس مِل کے ذمے کل واجب الادا رقم چار کروڑ 45 لاکھ نو ہزار آٹھ سو 66 روپے ہے جس کے دعوے دار کسانوں کا تعلق منڈی بہاؤالدین، حافظ آباد، سیالکوٹ، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور سرگودھا کے اضلاع سے ہے۔

لیکن مل میں 2020 اور 2021 میں کین مینجر کے طور پر کام کرنے والے بنیامین احمد کا کہنا ہے کہ کین کمشنر کے دفتر کو صرف انہی کسانوں کی واجب الادا رقوم کے بارے میں معلوم ہے جنہوں نے اسے ان رقوم کی واپسی کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ ان کے مطابق بہت سے ایسے کسانوں نے بھی مِل سے پیسے لینا ہیں جنہوں نے ایسی کوئی درخواست نہیں دی۔ ان کے خیال میں مِل نے 2020 اور 2021 میں خریدے گئے تقریباً 12 کروڑ سے 15 کروڑ روپے مالیت کے گنے کی ابھی تک ادائیگی نہیں کی۔

پکے سودے، کچی رسیدیں

مِل انتظامیہ نے اس گنے کی خریداری پر جو رسیدیں جاری کی ہیں ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ کاشت کار انہیں 'کچی رسید' کہتے ہیں کیونکہ ان پر گنا فروخت کرنے والے کسان کا نام ، گنے کا وزن، اس کی مالیت اور اس کی خریداری کی تاریخ تو لکھی ہوتی ہے لیکن اس پر کسی کے دستخط یا کوئی مہر موجود نہیں ہوتی۔

ستمبر 2020 اور مارچ 2021 کے درمیان چھ ماہ کے لیے پنجاب میں نافذالعمل رہے شوگر فیکٹریز (کنٹرول) ترمیمی آرڈیننس 2020 کے تحت ایسی کچی رسیدیں جاری کرنا جرم ہے۔ اس قانون کی رو سے چینی بنانے والی ملیں صرف ایسی رسیدیں (جنہیں کین پرچیز رسیٹ یا سی پی آر کہا جاتا ہے) جاری کرنے کی پابند ہیں جنہیں گنا بیچنے والے کسان ایک چیک کی طرح بنک میں جمع کرا کے 15 دن کے اندر پیسے وصول کر سکیں۔ اس قانون میں یہ بھی لکھا ہے کہ سی پی آر جاری نہ کرنے، گنے کی قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کرنے اور اس کے وزن میں بے جا کٹوتی کرنے والے مل مالک کو تین سال قید اور 50 لاکھ جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے۔

<p>شوگر مل کی جانب سے کسانوں کو سی پی آر کی بجائے کچی رسیدیں دی گئیں جن کو اب مل انتظامیہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔<br></p>

شوگر مل کی جانب سے کسانوں کو سی پی آر کی بجائے کچی رسیدیں دی گئیں جن کو اب مل انتظامیہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔

تاہم پسرور شوگر مل کے کین مینجر محمد رفاقت کا دعویٰ ہے کہ ان کی مِل نے سی  پی آر کے علاوہ کوئی رسیدیں جاری ہی نہیں کیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن کچی رسیدوں کی بنیاد پر کسان بھاری رقوم کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ جعلی ہیں۔ ان کے بقول "یہ پرچیاں بنانا کوئی مشکل کام نہیں بلکہ جس شخص کے پاس بھی کمپیوٹر اور پرنٹر موجود ہو وہ جتنی چاہے ایسی پرچیاں بنا لے"۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پسرور شوگر مل نے اس تمام گنے کی قیمت ادا کر دی ہے جو اس نے  2020 اور 2021 میں خریدا تھا۔ لیکن، وہ کہتے ہیں، "اس کے باوجود اگر کسی کسان کے پاس سی پی آر موجود ہے تو وہ سامنے لائے تا کہ اسے فوری طور پر ادائیگی کی جا سکے" ۔

ظفر اقبال جیسے کاشت کار مِل انتظامیہ کے اس موقف کو یکسر غلط بیانی قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گنے کی ابتدائی فروخت پر بھی انہیں کچی رسیدوں کے ذریعے ہی ادائیگیاں کی گئیں۔

تاہم کسان بورڈ پاکستان نامی تنظیم کے تحصیل پھالیہ کے رکن شہباز احمد لک کہتے ہیں کہ کاشت کار مِل انتظامیہ سے مسلسل مطالبہ کرتے رہے کہ انہیں ان کے گنے کے عوض سی پی آر فراہم کی جائیں لیکن انہیں کہا گیا کہ یہ رسیدیں جاری نہیں کی جا سکتیں کیونکہ پسرور شوگر مل دوسری مِلوں کی نسبت زیادہ قیمت پر گنا خرید رہی ہے جسے ریکارڈ پر لانا مناسب نہیں۔

ان کہ یہ بھی کہنا ہے کہ مل انتظامیہ آخری وقت تک کسانوں کو یقین دہانی کراتی رہی کہ ان کی ایک ایک سی پی آر اس کے پاس بطور امانت محفوظ ہے اور ضرورت پڑنے پر انہیں فراہم بھی کردی جائے گی۔

نوید حسین واہلہ بھی ایسی یقین دہانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپریل 2021 میں گنے کی خرید و فروخت ختم ہونے کے بعد مِل کے جنرل مینجر فتح محمد سے ایک ملاقات میں کسانوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ یا تو ان کے بقایاجات فی الفور ادا کیے جائیں یا انہیں سی پی آر فراہم کی جائیں۔ انہیں جواباً کہا گیا کہ ایک دو روز میں تمام ادائیگیاں کر دی جائیں گی اس لیے انہیں سی پی آر کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔

نوید حسین واہلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پسرور شوگر مِل کے کین مینجر بنیامین احمد کو کسانوں کے انہی مطالبات کی حمایت کرنے پر نوکری سے نکال دیا گیا۔ تاہم برطرفی کے بعد بھی انہوں نے کسانوں کے ہمراہ مِل انتظامیہ سے ملاقات کی اور سی پی آر جاری کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ انہوں نے کین کمشنر پنجاب کو بھی ایک تحریری بیان دیا جس میں انہوں نے تصدیق کی کہ مِل نے نہ صرف کسانوں کو کچی رسیدیں دی ہیں  بلکہ ان پر درج کروڑوں روپے بھی ادا نہیں کیے۔

بنامین احمد کہتے ہیں کہ کسانوں نے ان پر اعتبار کرتے ہوئے دور دراز علاقوں سے مِل کو گنا فراہم کیا اس لیے ان کے واجبات کے لیے آواز اٹھانا ان کی ذمہ داری ہے۔ ان کے بقول اگر وہ کسانوں کو گنے کی فروخت پر آمادہ نہ کرتے تو مِل شاید کبھی چل ہی نہ پاتی کیونکہ اس کے ارد گرد کے علاقے میں گنے کی کاشت نہ ہونے کے برابر ہے (جس کی ایک بڑی وجہ اس کا 18 سال سے زیادہ بند رہنا ہے)۔

پنجاب حکومت کے ذیلی ادارے کراپ رپورٹنگ سروس کے اعداد و شمار بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مِل کے چار قریبی اضلاع سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ناروال اور گجرات میں 1991 اور 1992 تک ایک لاکھ 40 ہزار 8 سو ایکڑ رقبے پر گنا کاشت ہوتا تھا لیکن 2019 میں انہی ضلعوں میں اس کے زیرِ کاشت اراضی صرف 16 ہزار ایکڑ رہ گئی۔

حکومتی اور عدالتی اقدامات

مِل انتظامیہ کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد کسانوں نے اپنے مطالبات سیالکوٹ کی ضلعی انتظامیہ کے سامنے پیش کیے لیکن اس کے اہل کاروں نے بھی ان کی ایک نہ سنی حالانکہ شوگر فیکٹریز کنٹرول آرڈیننس 2020 کے تحت ضلعی انتظامیہ کے سربراہ، ڈپٹی کمشنر، کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ گنے کی قیمت وقت پر ادا نہ کرنے پر نہ صرف مِل مالک کو گرفتار کر لے بلکہ اس کی مِل کو بھی بند کر دے۔

نوید حسین واہلہ اور امتیاز احمد واہلہ نے 16 اپریل 2021 کو پسرور سٹی تھانے میں ایک ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ (ایف آئی آر) بھی درج کرائی جس میں انہوں نے کہا کہ مِل انتظامیہ ان کے ایک کروڑ نو لاکھ روپے دبا کر بیٹھی ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ پولیس نے اس ایف آئی آر پر ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا۔

اسی دوران کئی کسانوں نے کین کمشنر پنجاب محمد زمان وٹو کو درخواستیں ارسال کیں جنہوں نے ان کے مسائل کے حل کے لیے مِل انتظامیہ کو متعدد نوٹس بھیجے۔ لیکن ان نوٹسوں کا کوئی جواب نہ ملنے پر انہوں نے 9 جولائی 2021 کو شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950 کی مختلف دفعات کی خلاف ورزی پر مِل انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کردیا اور اسے چینی فروخت کرنے سے روک دیا۔ مِل انتظامیہ نے جواباً اس اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

نوید حسین واہلہ کہتے ہیں 19 جولائی کو ایڈیشنل کین کمشنر پنجاب سید سبطِ حسن شیرازی نے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد ساجد محمود سیٹھی کو بتایا کہ 31 مارچ 2021 اور 10 اپریل 2021 کے درمیان کین کمشنر کے دفتر کو 27 ایسی شکایات موصول ہوئیں جن میں کسانوں کا کہنا تھا کہ مِل ان سے خریدے گئے گنے کی قیمت ادا نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا کہ یہ شکایات درج کرانے والے کسانوں نے مجموعی طور پر مِل سے تین کروڑ 86 لاکھ 76 ہزار نو سو 79 روپے لینا ہیں۔

مِل کے وکلا نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ان کسانوں کے پاس سی پی آر موجود نہیں لہٰذا مِل ان کا مطالبات ماننے کی پابند نہیں۔ لیکن جسٹس سیٹھی نے کین کمشنر کو حکم دیا کہ وہ چار ہفتے کے اندر اس مسئلے کو حل کریں۔ انہوں نے مِل انتظامیہ کو بھی حکم دیا کہ وہ متنازعہ رقم کا چیک بطور زرِ ضمانت کین کمشنر کے پاس جمع کرائے تا کہ اگر فیصلہ اس کے خلاف آئے تو کسانوں کو فوراً ادائیگیاں کی جا سکیں۔

اس پر مِل کے وکلا نے کہا کہ وہ زرِ ضمانت کا چیک کین کمشنر کو نہیں دینا چاہتے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں وہ فیصلے پر پہنچنے سے پہلے ہی کسانوں کو ادائیگیاں نہ کر دیں۔ چنانچہ عدالت نے کہا کہ چیک ہائی کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار (جوڈیشل) کے نام جمع کرایا جائے۔ ساتھ ہی اس نے کین کمشنر کو حکم دیا کہ وہ  چینی کی فروخت پر لگائی گئی پابندی ختم کر دیں۔

اس فیصلے کو تین ماہ سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن کسان ابھی تک اس پر عمل درآمد کے منتظر ہیں۔

منافعے کی ہوس؟

پسرور شوگر مل ایک سرکاری ادارے، پاکستان انڈسٹریل ڈویلمپنٹ کارپوریشن، نے 1976 میں قائم کی لیکن 1985 میں اسے نجی ملکیت میں دے دیا گیا۔ چینی کی صنعت میں 30 سال بطور ایڈمنسٹریٹر کام کرنے والے اکرام الحق ساجد (جو 2019 اور 2020 میں پسرور شوگر مل کے جنرل مینجر بھی رہ  چکے ہیں) کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ مِل پاکستان کے ایک بڑے کاروباری ادارے یونائیٹڈ گروپ نے خریدی لیکن مالی مسائل کی وجہ سے 1990 کی دہائی کے آخری سالوں میں اس گروپ نے اسے بند کر دیا۔

اس کے بعد اسے چشتیاں شوگر مل کے مالک شکیل محمود بھٹی نے خرید لیا لیکن 24 جولائی 2010 کو اردو اخبار نوائے وقت میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چودھری نے پرویز باجوہ نامی شہری کی درخواست پر حکومت پنجاب سے اس کی فروخت کے حوالے سے ایک رپورٹ طلب کی۔ اس درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ شکیل بھٹی اور ان کے ساتھیوں نے صوبائی محکمہ مال سے ملی بھگت کر کے مِل کی ملکیتی 158 ایکڑ زمین کو زرعی اراضی ظاہر کر کے محض دو کروڑ 13 لاکھ روپے میں اپنی ہی کمپنی کے ڈائریکٹروں کو بذریعہ خفیہ نیلامی فروخت کر دیا تھا حالانکہ اس زمین کی اصل مالیت دو ارب روپے ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کورونا وبا کے اثرات یا کھاد کمپنیوں کی مَن مانی: ڈی اے پی کی قیمت ایک سال میں دگنی ہو گئی۔

اس تنازعےکی وجہ سے شکیل محمود بھٹی مِل کو چلانے میں ناکام رہے۔ 2011 میں انہیں لاہور میں قتل کر دیا گیا جس سے مِل کے چلنے کے امکانات مزید معدوم ہو گئے۔

تاہم بعد ازاں یہ مِل لاہور کے ایک تاجر شیخ احمد لطیف نے خرید لی۔ وہ شیخ احسن لطیف کے بھائی ہیں جن کے سسر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) خالد مقبول جنرل پرویز مشروف کے دورِ حکومت میں پنجاب کے گورنر رہ چکے ہیں۔

کسانوں کا دعویٰ ہے کہ مِل کے موجودہ مالکان اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے انہیں ادائیگیاں کرنے سے انکار کر رہے ہیں ورنہ اس کے اپنے ریکارڈ سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اس نے کتنا گنا خریدا اور اس سے کتنا پیسہ کمایا ہے۔

اس ریکارڈ کے مطابق پسرور شوگر مِل نے 2020 اور 2021 میں کل 50 ہزار آٹھ سو 92 میٹرک ٹن (یعنی پانچ کروڑ آٹھ لاکھ 92 ہزار کلو گرام) گنا خریدا اور اس سے تین ہزار آٹھ سو پانچ میٹرک ٹن (یعنی 38 لاکھ پانچ ہزار کلو گرام) چینی بنائی۔ اگر چینی کی سرکاری قیمت (85 روپے فی کلو گرام) کو پیشِ نظر رکھا جائے تو مِل کی پیدا کردہ چینی کی کل قیمت 32 کروڑ 34 لاکھ پانچ ہزار روپے بنتی ہے۔ اس کے علاوہ مِل نےگنے کے بھوسے، گنے کے رس کی میل اور شیرے کی فروخت سے بھی چند کروڑ روپے کمائے۔

کسانوں کے بقول اس کا مطلب یہ ہے کہ مِل خسارے میں نہیں بلکہ منافع میں چل رہی ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ انہیں ادائیگیاں نہ کیے جانے کی ایک ہی وجہ ہے کہ مِل مالکان زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں مبتلا ہیں۔

تاریخ اشاعت 21 اکتوبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.