ثنا خان، گونمنٹ زبیدہ گرلز کالج حیدر آباد میں ایسوسی ایٹ ڈگری سائنس میں پہلے سال کی طالبہ ہیں۔ وہ جام شورو کی آر بی کالونی سے روزانہ 20 کلو میٹر سفر کر کے کالج جاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ صبح جیسے ہی وہ یہاں پہنچتی ہیں بجلی چلی جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ پیاس کے مارے لڑکیوں کا برا حال ہوتا ہے اور پینے کو ٹھنڈا پانی میسر نہیں ہوتا کیوںکہ الیکٹرک واٹر کولر بھی بند ہو چکا ہوتا ہے۔ مئی کے دنوں میں کلاس روم میں بیٹھنا کسی امتحان سے کم نہیں تھا۔گرمی سے حالت خراب ہوتی ہے کتاب یا نوٹ بک کھولیں تو وہ پسینے سے بھیگ جاتی ہے۔
"مجھے اور میری کزن ملائکہ جو آرٹس میں پڑھتی ہیں، ہم دونوں کو چھٹیوں سے پہلے شدید گرمی کی وجہ سے ہیٹ سٹروک ہو گیا تھا۔جسم میں پانی کم جانے کے باعث ابھی تک وقفے وقفے سے ڈاکٹروں کے چکر لگانا پڑ رہے ہیں۔"
چھٹیوں سے پہلے ثنا کو معلوم ہوا کہ ان کے کالج کی چھت پر شمسی توانائی کے لیے سولر پینلز لگائے جا رہے ہیں تو سب طالبات بہت خوش تھیں کہ انہیں اگست کے گرمی میں لوڈ شیڈنگ کی اذیت برداشت نہیں کرنی پڑے گی۔
لیکن محکمہ توانائی سندھ نے زبیدہ کالج کی طالبات، اساتذہ اور عملے کی تمام خوشیوں اور امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
کالج انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ عمارت پر نصب سولر سسٹم سے پیدا ہونے والی بجلی کالج کو نہیں ملے گی بلکہ نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔
پرنسپل پروفیسر فرح ناز صدیقی کے بقول "اس کو کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا۔ ہم بجلی پیدا کرنے والے ہوں گے اور ہماری بجلی ہمیں نہیں ملے گی۔"
سندھ کے محکمہ توانائی نے سولر انرجی پروجیکٹ کے تحت مختلف صوبائی محکموں کی ملکیت 38 سرکاری عمارتوں کی چھتوں پر سولر پینلز نصب کر کے 24 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا پروگرام بنایا تھا جس پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔
اس پروگرام کے تحت حیدر آباد شہر کے چھ اداروں کی چھتیں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا جن میں زبیدہ گرلز کالج کے علاوہ شہباز بلڈنگ، ڈائریکٹر جنرل صحت کا دفتر، لال بتی (لیاقت میڈیکل یونیورسٹی ہیلتھ سائنسز ہسپتال حیدرآباد)، کوہسار ہسپتال اور سندھ میوزم کی عمارتیں شامل ہیں۔
سندھ کے سابق حکمرانوں (کلہوڑو خاندان) کے مقبروں کے قریب، سنٹرل جیل حیدر آباد کے برابر واقع اس قدیمی گرلز کالج کی بنیاد نو اپریل 1954ء کو گورنر سندھ حبیب ابراہیم رحیم تولا نے رکھی تھی اور اسے اپنی اہلیہ 'زبیدہ رحیم تولا' کے نام سے منسوب کیا تھا۔
گورنمنٹ زبیدہ گرلز کالج میں اس وقت ایک ہزار 824 طالبات زیر تعلیم ہیں جن میں ایسوسی ایٹ ڈگری پروگراموں(سابق بی ای، بی ایس سی) سائنس کی 275، آرٹس کی 202، کامرس کی 56 اور گیارہویں و بارہویں جماعت کی ایک ہزار 291 طالبات شامل ہیں۔
اس بڑے ادارے میں مختلف مضامیں کی تدریس کے لیے 110 خواتین اساتذہ تعینات ہیں جبکہ 80 نان ٹیچنگ سٹاف اور ملازمین سمیت کل 190 لوگ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
زبیدہ کالج کے سب ڈیپارٹمنٹس کی تمام چھتیں جولائی کے آخری ہفتے میں سولر پینلز سے ڈھک دی گئی ہیں جن سے محکمہ توانائی سندھ کے مطابق مجموعی طور پر 512.30 کلو واٹ بجلی پیدا ہوگی۔
پروفیسر مس شازیہ پچھلے 23 سال سے اس کالج میں فزکس پڑھا رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں شدید گرمی میں جہاں درجہ حرارت 45 سے 47 سینٹی گریڈ ہو اور 50 سے زیادہ محسوس رہا ہو، وہاں کلاس میں پڑھانا تو دور، بیٹھنا اور کھڑے رہنا بھی محال ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ گرمی بھی ایسی حبس والی کہ کپڑے پسینے سے شرابور اور سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے موسم میں بہت کم لڑکیاں مستقل کالج آتی ہیں۔
"مئی میں کئی لڑکیاں کلاس روم میں بیہوش ہوئی ہیں۔ چھٹیوں کے بعد اگست میں کالج کھلے گا تو نئے داخلے ہو چکے ہوں گے جس سے کلاسوں میں مزید رش اور مزید مشکلات ہوں گی۔ ایسے میں کیا پڑھائیں گے!"
پروفیسر فرح ناز صدیقی پتاتی ہیں کہ ٹھیکیدار تقریباً چار ماہ سے ان کے کالج کی عمارت پر شمسی توانائی منصوبے کا کام رہے ہیں۔
"جب ہم ٹھیکیدار سے معلوم کرتے ہیں کہ یہاں کام کب مکمل ہوگا؟ تو وہ جواب دیتے کہ پہلے شھباز بلڈنگ کا کام ختم کیا جائے گا جس کے بعد یہاں کا منصوبہ مکمل کریں گے۔"
فرح ناز کہتی ہیں کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کے کالج کی چھتوں پر لگائے جانے والے پینلز کی بجلی سے وہی محروم رہیں گے۔
انہوں نے بتایا یہ عقدہ اس وقت کھلا جب انہوں نے دریافت کیا کہ منصوبے میں بیٹریاں شامل کیوں نہیں کی گئیں۔
"ہم نے پوچھا کہ آن گرڈ ہونے کی صورت میں لوڈشیڈنگ کے دوران تو بجلی نہیں ہو گی؟ تب محکمہ توانائی والوں نے بتایا کہ یہاں سے کالج کو بجلی نہیں ملے گی۔"
وہ کہتی ہیں کہ ان کے کالج کے کئی شعبوں کی عمارتیں بہت ہی پرانی ہیں جہاں کسی زمانے میں ہاسٹلز ہوا کرتے تھے اب وہاں بھی سولر پینلز لگا دیے گئے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ جب ان پلیٹوں کی دھلائی اور صفائی ہوگی تو چھتیں گر جائیں گی۔
"اس منصوبے کو ڈیزائن کرنے والوں نے پرانی کمزور چھتوں اور پینلز کی مرمت و صفائی کے متعلق کچھ سوچا ہی نہیں ہے۔ ایک سال تو یہ کام ٹھیکدار کی ذمہ داری ہوگی مگر اس کے بعد مرمت کیسے ہوگی ؟ کچھ معلوم نہیں۔"
تاہم سندھ سولر انرجی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سرکاری عمارتوں کی چھتوں پر لگائے جانے والے پینلز کی عمر 25 سال تک ہوگی اور ان کی صفائی و مرمت کا کام محکمہ توانائی ہی کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں
ملتان: سرکاری سکولوں کی سولر توانائی پر منتقلی کا منصوبہ کس نے ناکام بنایا؟
پرنسپل فرح ناز کا کہنا تھا کہ سولر پراجکیٹ کے منصوبہ سازوں نے کالج کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی۔ یہاں مختلف سرکاری اداروں میں خالی اسامیوں پر بھرتیوں کے لیے تحریری امتحانات لیے جاتے ہیں۔
"فیڈرل پبلک سروس کمیشن، سندھ پبلک سروس کمیشن، سندھ ٹیسٹنگ سروس، آئی بی ای یونیورسٹی سکھر، ایل ایل بی کے امتحانات وغیرہ کا امتحانی مرکز یہی کالج ہوتا ہے۔ لیکن لوڈشیڈنگ میں یہاں پینے کا پانی تک نہیں ہوتا۔ مگر سولر منصوبے میں ان سب باتوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔"
انجنیئر محفوظ احمد قاضی سندھ سولر انرجی منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔انہوں نے انکشاف کیا کہ سرکاری عمارتوں پر سولر کی تنصیب سے بجلی نہ ملنے پر صرف زبیدہ گرلز کالج کی انتظامیہ کو ہی تحفظات نہیں بلکہ لال بتی سمیت دیگر پانچ ادارے بھی سوال کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ سندھ حکومت اور نیپرا کے درمیان نیٹ میٹرنگ پالیسی کے تحت معاہدہ طے پایا ہے جس کے مطابق اس منصوبے سے پید ہونے والی بجلی نیشنل گرڈ میں جائے گی۔ اس کے بدلے میں صوبائی سرکاری اداروں کے بجلی کے بل ادا ہوں گے یا ان کے یونٹ معاف کیے جائیں گے۔
"نیشنل گرڈ سے جڑے ہوئے شمسی توانائی کے منصوبوں سے کسی اور کو کوئی کنکشن نہیں دیا جا سکتا۔ ہم نیپرا کے پابند ہیں اس لیے نہ صرف زبیدہ گرلز کالج بلکہ باقی اداروں کو بھی وہ بجلی نہیں ملے گی جو ان کی چھتوں پر پیدا کی جا رہی ہے۔"
تاریخ اشاعت 27 جولائی 2024