آفتاب احمد لاہور کے علاقہ مناواں کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے دو ماہ قبل اپنے گھر میں سولر سسٹم لگوایا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ کافی دنوں سے خبریں آ رہی تھیں کہ سولر پینل کی قیمتیں گر گئی ہیں جس پر انہوں نے بھی پانچ کلو واٹ کا سسٹم اور پینلز نصب کرا لیے۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سولر سسٹم لگوانے پر ان کے تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ روپے خرچ ہوئے جبکہ اس سے پہلے پانچ کلو واٹ کا سسٹم لگانے کے لیے کمپنی والوں نے سات لاکھ روپے بتائے تھے۔
"مجھے ڈیڑھ لاکھ روپے کی بچت ضرور ہوئی لیکن دو ماہ میں ہی سولر پینلز کی کارکردگی مایوس کن حد تک کم ہونا شروع ہو گئی۔"
"جب انہوں نے سسٹم لگانے والی کمپنی کو شکایت کی تو ان کا کہنا تھا کہ "آپ کو پہلے بتا دیا گیا تھا کہ چینی پینلز کی کوئی گارنٹی نہیں ہے جو چلتے رہیں تو برسوں چلتے ہیں اور خراب ہو جائیں تو چند ماہ میں ہی جواب دے جاتے ہیں۔"
آفتاب بتاتے ہیں کہ اب کمپنی والے پینل تبدیل کرنے کے لیے خطیر رقم مانگ رہے ہیں۔
یہ آفتاب احمد اور ان جیسے کئی دیگر شہریوں کا مسئلہ ہے جن کو سستے مگر غیر معیاری سولر پینل خریدنے کے باعث پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سولر پینلز کی قیمتوں میں واضع کمی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر سولر مارکیٹ کریش ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
مارکیٹ میں سات کلو واٹ کے سسٹم کی قیمت ایک لاکھ روپے کم ہو کر آٹھ لاکھ 25 ہزار جبکہ دس کلو واٹ والے کی 11 لاکھ 50 ہزار روپے پر آ گئی ہے۔ اسی طرح 12 اور 15 کلو واٹ کے سسٹم میں دو سے ڈھائی لاکھ روپے تک کمی ہوئی ہے یعنی 12 کلو واٹ کا سسٹم 14 لاکھ جبکہ 15 کلو واٹ والا سسٹم تقریباً 16 لاکھ روپے میں دستیاب ہے۔
سولر کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ سولر پینلز کی قیمتیں گرنے کی بڑی وجہ طلب اور رسد میں فرق ہے۔ ان کے خیال میں قیمتوں میں یہ کمی عارضی ہے جبکہ سولر سسٹم سے جڑے دیگر آلات یعنی کنورٹر، بیٹریاں، کیبل وغیرہ بدستور مہنگے ہو رہے ہیں۔ اسی طرح معیاری کنورٹر کی مارکیٹ میں قلت دکھائی دے رہی ہے۔
ریسورس مارکیٹنگ سسٹم کے سربراہ قمر مہدی بتاتے ہیں کہ بجلی کی قیمتیں بڑھنے کے باعث چند برسوں سے سولر سسٹم کی طلب میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے سولر کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی تھیں۔
"پاکستان میں طلب کو دیکھتے ہوئے کئی تاجر اس فیلڈ میں آ گئے جنہوں نے چین سمیت مختلف ملکوں سے سولر پینلز کی بڑی تعداد امپورٹ کرکے سٹور کر لی۔ اس صورت حال سے نہ صرف رسد زیادہ آ گئی بلکہ مارکیٹ میں کئی اقسام کے پینلز کی بھی بہتات ہو گئی ہے۔"
"منافع کے لالچ میں بعض امپورٹرز نے اتنے پینل درآمد کیے کہ ان کو رکھنے کے لیے لاہور جیسے شہر میں گودام کم پڑ گئے۔ اب اگر یہاں کوئی گودام ملتا بھی ہے تو اس کا کرایہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے پینلز کے لیے رائےونڈ روڈ، فیروز پور روڈ اور دیگر مضافاتی علاقوں میں گودام کرائے پر لیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چینی کمپنیوں نے یورپ کی مارکیٹ کے لیے پینلز کی ایک بڑی کھیپ تیار کی تھی مگر ان کمپنیوں کے سامان کو جب پابندیوں کے باعث یورپ میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تو وہ مال بھی اب پاکستان کی مارکیٹ میں بیچا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی پینلز کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔
قمر مہدی کا کہنا ہے کہ اس وقت 550 واٹ سے 610 واٹ تک کے پینلز کی قیمتیں 15 فیصد تک کم ہو چکی ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ جو پینل پہلے 15 لاکھ روپےکا تھا وہ اب 12 سے 13 لاکھ روپے میں مل رہا ہے۔ تاہم یہ قیمتیں دوبارہ بڑھنا شروع ہو گئی ہیں لیکن گزشتہ سال کی نسبت اب بھی کم ہیں۔
مگر سولر کا کاروبار کرنے والےکہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پینلز کی قیمتیں کریش کرنے کی افواہوں سے مارکیٹ میں بے چینی پھیلی جس پر بڑے بڑے امپورٹر نے اپنا سٹاک نکالنے کے لیے کم منافع پر زیادہ سے زیادہ مال بیچنا شروع کر دیا ہے کہ کہیں ان کا اصل سرمایہ ہی نہ ڈوب جائے۔
سولر پینل پرائس پاکستان ڈاٹ کام کے مطابق گزشتہ سال ستمبر میں سولر پینل کی فی واٹ قیمت 85 روپے تھی جو جنوری 2024ء میں 20 فیصد کم ہو کر 52 سے 68 روپے پر آ گئی جبکہ اب مزید گر کر اوسطاً 46 سے 47 روپے واٹ پر پہنچ گئی ہے۔
یعنی سولر پینل کی قیمتیں رواں سال کے آغاز سے مئی تک مجموعی طور پر 40 فیصد گر چکی ہیں۔
تاہم قمر مہدی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں بعض کمپنیاں اور سیلز ایجنٹ سستا سولر سسٹم لگانے کے نام پر غیر معیاری پینل دے رہے ہیں، سسٹم میں کیبل بھی ہلکی کوالٹی کی استعمال کی جاتی ہے کیونکہ اچھی کاپر وائر کی قیمت زیادہ ہے۔ بعض لوگ چائنہ کاپر کی کیبل لگا دیتے ہیں جس میں المونیم وائر پر کاپر کی کوٹنگ کی گئی ہے لیکن اس غیر معیاری کیبل سے بجلی ضائع ہوتی ہے۔
سولر ٹیکنالوجی کے ماہر خضر عباس کے خیال میں سولر پینلز کے ساتھ مارکیٹ میں سولر پیپر آنے سے بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے جن کے ٹوٹنے اور خراب ہونے کی شرح روایتی پینل کے مقابلے میں کافی کم ہے۔
"عام سولر پینل لگانے کے لیے سٹینڈ پر اضافی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے مگر یہ آندھی اور ژالہ باری میں ٹوٹ جاتے ہیں جیسا کہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں حالیہ دنوں میں ہوا، جبکہ سولر پیپر کو دیوار، کھڑکی یاچھتوں کہیں بھی لگایا جا سکتا ہےجو موسم کی شدت سے متاثر نہیں ہو گا اور رات کوچاند کی روشنی میں بھی کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔"
بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے ) کا کہنا ہے کہ 2023ء کے آخر تک سولر پینل کی قیمتوں میں تقریباً 50 فیصد کمی آئی ہے کیونکہ عالمی سطح پر پینل کی تیاری کی صلاحیت 2021ء کے مقابلے میں تین گنا زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کی 2024 ء کے اختتام پر سولر پینل کی سپلائی گیارہ ہزار گیگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔
عالمی ایجنسی کے مطابق ان برسوں کے دوران بھارت اور امریکا میں سولر پینلز کی تیاری کے رحجان میں بے مثال اضافہ ہوا ہے تاہم 2028ء تک چین کی سپلائی برقرار رہنے کا امکان ہے جس کا سولرپینلز کی گلوبل سپلائی میں 80 سے 95 فیصد حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بقا سولر انرجی پر منتقل ہونے میں ہی ہے
سولرسسٹم لگانے والی کمپنی 'سولر میٹ' کے چیف ایگزیکٹو خضر عباس تصدیق کرتے ہیں کہ پانچ کلو واٹ کے سولر پینلز کی قیمت میں چند ماہ کے دوران ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے کی کمی ہوئی ہے لیکن اب پینل کی قیمت دوبارہ بڑھ رہی ہے۔
"ہمارے ہاں یورپی ممالک کے پینل نسبتاً مہنگے اور چائنہ کے سستے ہیں جبکہ چینی پینلز کی مختلف کیٹگریز ہیں جن کی چھ ماہ سے لائف ٹائم تک کی ورانٹی دی جاتی ہے۔"
مہران سولر کمپنی کے ترجمان کے خیال میں قیمتوں میں اچانک کمی، سولر پینلز کی تیاری میں چین اور مغرب کے درمیان مسابقت کا نتیجہ ہے کیونکہ پورپ نے مقامی مارکیٹ کے لیے خود پینلز بنانا شروع کر دیے ہیں جہاں پہلے چینی کمپنیوں کا قبضہ تھا۔
مقامی ماہرین کی آراء اپنی جگہ تاہم ملائیشیا کی فوٹو وولٹک (سولر) انڈسٹری ایسوسی ایشن کے صدر ڈیوس چونگ کا ایک انٹرویو کے دوران کہنا ہے کہ سولر پینلز کی گری ہوئی قیمتیں دو سال تک موجودہ سطح پر برقرار رہیں گی جس کی وجہ سے وہ (ملائیشین انڈسٹری) توسیعی منصوبوں(سولر پینل مینوفیکچرنگ) کی رفتار کم کر رہے ہیں۔
تاریخ اشاعت 7 مئی 2024