چالیس سالہ حلیماں ضلع تھر کی تحصیل مٹھی سے 30 کلومیٹر دور ڈابھی گاؤں کی رہائشی ہیں۔ وہ چادروں اور تکیوں وغیرہ پر ہاتھ سے کشیدہ کاری کی ماہر ہیں اور یہی ان کا پیشہ ہے۔
حلیماں کی مشکل یہ ہے کہ انہیں گاؤں میں اس کشیدہ کاری کے خریدار میسر نہیں ہیں اس لیے وہ اپنی تیار کردہ اشیا بیچنے کے لیے مٹھی شہر میں آتی ہیں۔ لیکن یہاں بھی ان کی چیزیں ہاتھوں ہاتھ نہیں بکتیں۔ شہر میں ان کا سامان خریدنے والی صرف چار دکانیں ہیں۔حلیماں کو شکایت ہے کہ یہ دکاندار انہیں بہت کم قیمت دیتے ہیں جس سے منافعے کا حصول تو دور ان کی لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔
حلیماں دو بیٹیوں کی ماں ہیں۔ ان کے شوہر مزدوری اور کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ بارش اچھی ہو جائے تو فصل بھی اچھی ہوتی ہے ورنہ گزارا مشکل ہو جاتا ہے۔
وہ کڑھائی کے لیے بازار سے ایک ہزار روپے میں چادر خریدتی ہیں۔ کڑھائی کرنے پر آٹھ سے نو سو روپے خرچہ آتا ہے۔ کئی دن کڑھائی کے بعد یہ چادر دو ہزار یا 2100 روپے میں بکتی ہے۔ اس طرح انہیں زیادہ سے زیادہ دو سو روپے بچتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی چیزیں بیچنے کے لیے بڑے شہروں میں جانے کی استطاعت نہیں رکھتیں اور نہ یہ جانتی ہیں کہ ان کا سامان کون سے شہر میں بک سکتا ہے۔
"سنا تھا مٹھی میں ہنرمندوں کے لیے کالونی اور مارکیٹ بن گئی ہے۔ ہمیں بھی اس جگہ گھر اور دکان مل جاتی تو اچھی روزی کما لیتے۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔"
تھرپارکر کی کشیدہ کاری اور دستکاری کے نمونے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ یہاں کی روایتی شالیں، رلی، بیڈ سیٹ (تکیہ چادر)، بیڈ شیٹ، خواتین کے رنگا رنگ لباس اور چادریں ملک بھر میں پسند کی جاتی ہیں۔
لوہے کے اوزار اور مٹی کے برتن ،گھڑے، پٹولے، اور مٹکے وغیرہ بھی تھرپارکر کی پہچان ہیں جنہیں سیاح ذوق وشوق سے خریدتے ہیں۔
اسی طرح مقامی درختوں کی لکڑی سے بنا مخصوص تھری فرنیچر اور دیگر ثقافتی اشیا بھی لوگ شوق سے گھروں میں رکھتے ہیں۔
مقامی سماجی کارکن عاشق پجیر یہاں مختلف این جی اوز کے ساتھ کام کرتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ تھر میں کشیدہ کاری اور ہینڈی کرافٹس کا 95 فیصد کام دیہات میں کیا جاتا ہے۔ وہاں سے شہر میں آنا مشکل اور بہت مہنگا پڑتا ہے۔ اس لیے اگر ہنر مند کاری گروں کو شہر میں سہولتیں ملیں تو انہیں بڑی مارکیٹ میسر آ جائے گی۔
اسی کے پیش نظر سندھ سمال انڈسٹریز کارپوریشن نے 2006 میں تھرپارکر میں ہنرمندوں کے لیے ایک کالونی بنانے کا منصوبہ شروع کیا تھا جس کے تحت ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر مٹھی میں مرکزی شہر سے صرف دو کلومیٹر دور نوکوٹ روڈ پر 'ہنر مندکالونی 'کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
سندھ حکومت نے اس منصوبے کے لیے 23 ایکڑ رقبہ دیا۔ منصوبے پر 23کروڑ روپے لاگت آئی اور یہ 2011ء میں مکمل ہو گیا۔
'شاہ عبدالطیف بھٹائی ہنرمند کالونی' کے نام سے قائم اس کمپلیکس میں 100 رہائشی کوارٹر، 100 ورکشاپس اور 25 دکانیں ہیں۔کاری گروں کی مصنوعات کے لیے ڈسپلے سنٹر ، ایک ڈسپنسری اور بچوں کے لیے پرائمری سکول بھی قائم کیا گیا ہے۔
28 مئی 2011ء کو اس وقت کے صوبائی وزیر رؤف صدیقی نے ہنرمند کالونی کا افتتاح کر دیا تھا۔ مگر 12 سال سے یہ کالونی ہنرمندوں کے حوالے نہیں کی جا سکی۔
کالونی اور اس کا نظام چلانے کے لیے یہاں اسسٹنٹ ڈائریکٹر سمیت 18 ملازمین تعینات کیے جانا تھے تھیں۔ لیکن اس وقت اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی پوسٹ خالی پڑی ہے۔ باقی 17 اسامیوں پر کلرک، چوکیدار اور نائب قاصد وغیرہ کی تعیناتیاں ہو چکی ہیں۔ مگر ملازمین کب آتے ہیں کیا کام کرتے ہیں؟یہ کسی کو معلوم نہیں۔
چالیس سالہ گنیش لوہار مٹھی میں سڑک کنارے ایک جھگی میں بیٹھے اوزار بنا رہے ہیں۔ وہ اسی شہر ہی کے رہائشی ہیں اور فصلوں کی کٹائی بوائی کے دوران کام آنے والی چیزیں درانتی،کھرپا، کلہاڑی، کسی ،کسولے وغیرہ بناتےہیں۔
گنیش بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ پانچ سے آٹھ سو روپے کماتے ہیں۔ چونکہ دکان دس ہزار سے کم پر کرائے میں نہیں ملتی اس لیے وہ جھگی میں ہی اپنا کام کرتے ہیں۔ تاہم جب بھی تجاوزات کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو یہ جھگیاں سب سے پہلے نشانہ بنتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہنرمند کالونی بننا شروع ہوئی تو انہیں بھی دکان ملنےکی امید ہو چلی تھی۔ سوچا تھا کالونی میں گھر بھی مل گیا تو عزت سے اپنا کام کریں گے۔ مگر ان کا یہ خواب ادھورا ہی رہا کیونکہ کالونی اب تک فعال ہی نہیں ہو سکی۔
علی محمد کھوسو سکھر سے سیرو سیاحت کے لیے تھرپارکر آئے ہیں ۔وہ یہاں سے روایتی لباس اور دیگر خوبصورت ثقافتی اشیا خریدنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تھر کے قدرتی حسن کی طرح یہاں کی ثقافت اور دستکاری بھی باکمال ہے۔ بارشوں کے موسم میں سیاح بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ تاہم اگر یہاں کی تمام دستکاری اور روایتی لباس مٹھی میں ایک ہی جگہ میسر ہوں تو ان کی فروخت کئی گنا بڑھ جائے اور اس کے ساتھ تھرپارکر کے لوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو جائےگا۔
عاشق پجیر کا کہنا ہے کہ تھر کے ہر گھر میں ایک ہنرمند خاتون موجود ہے مگر خواتین کو محنت کا صلہ نہیں ملتا۔چند لوگ گاؤں سے چیزیں سستی خرید کر شہروں میں مہنگی بیچتے اور بھاری منافع کماتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
گوادر کی دوچ گر خواتین: 'کبھی کبھی نیند میں خیال آتا ہے کہ انگلی میں سوئی چبھ گئی ہے اور اس میں سے خون نکل رہا ہے'۔
ان کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں کالونی تو بن گئی مگر کوئی کوارٹر یا ورکشاپ کسی ہنرمند کو الاٹ نہیں کیا گیا۔کالونی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہےاور ہنرمند لاوارث ہیں۔
محکمہ سمال انڈسٹریز ایک اہلکارنے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے پورا منصوبہ تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔اب توانفراسٹرکچر بھی ختم ہو رہا ہے۔ کالونی کے گیٹ بھی ٹوٹ چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کالونی کا افتتاح ہوتے ہی کوارٹرز اور دکانیں من پسند لوگوں کو الاٹ کرنے کے مسئلے پر سیاسی جماعتوں میں تنازع شروع ہو گیا تھا۔ پہلے اس کالونی کے انچارج اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے۔ دو سال قبل ان کا تبادلہ ہوا تو یہ چارج حیدرآباد کے ڈائریکٹر کو دے دیا گیا۔ ابھی تک چارج انہی کے پاس ہے۔ملازمین یہاں آتے ہیں اور گپ شپ کرکے چلے جاتے ہیں۔
ڈائریکٹر سندھ سمال انڈسٹریز حیدرآباد کے ڈائریکٹر ظفر جونیجو سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ منصوبےکو فعال کرنے میں محکمے کو کچھ رکاوٹیں درپیش ہیں۔ تاہم انہوں نے رکاوٹوں کی تفصیل بتانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ سرکاری ملازم ہونے کے ناطے انہیں میڈیا کو بیان دینے کی اجازت نہیں ہے۔
تاریخ اشاعت 17 اگست 2023