'عوامی شکایات' پر سندھ میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی باعزت روزگار اور علاج کے ذریعے سے محروم

postImg

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'عوامی شکایات' پر سندھ میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی باعزت روزگار اور علاج کے ذریعے سے محروم

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

حیدرآباد کے قدیمی علاقے ٹنڈو ولی محمد کے رہنے والے 43 سالہ ٹرانس جینڈر مونا کو رواں سال فروری میں اپنی زندگی بدلنے کا موقع میسر آیا۔ انہیں جینڈر انٹر ایکٹو الائنس کے ایچ آئی وی ایڈز پراجیکٹ میں 56 ہزار روپے ماہانہ پر نوکری مل گئی۔ یہ ملازمت ملنے پر وہ بہت خوش تھے کیونکہ اس سے پہلے بیروزگاری کے باعث وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بھیک مانگا کرتے تھے۔ تاہم ان کی خوشی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی کیونکہ گزشتہ مہینے یہ پراجیکٹ بند کر دیا گیا اور وہ بے روزگار ہو گئے۔

اس منصوبے کے تحت ٹرانس جینڈر افراد کو ایچ آئی وی/ایڈز کے بارے میں آگاہی دی جاتی تھی اور اس مرض میں مبتلا ٹرانس جینڈر افراد کو رجسٹرڈ کیا جاتا تھا تاکہ انہیں علاج فراہم کیا جا سکے۔

مونا کا کہنا ہے کہ پراجیکٹ بند ہونے سے ناصرف ٹرانس جینڈر افراد کا روزگار متاثر ہوا ہے بلکہ خدشہ ہے کہ ملک میں ایچ آئی وی/ایڈز کے مریضوں کی تعداد بھی بڑھ جائے گی۔

جینڈر انٹر ایکٹو الائنس (جی آئی ای) پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی بہبود کے لیے کام کرنے والا غیرسرکاری ادارہ ہے۔

رواں سال کے آغاز سے یہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ساتھ صوبہ سندھ میں ٹرانس جینڈر افراد میں ایچ آئی وی/ ایڈز سے متعلق آگاھی مہم چلانے، اس بیماری کے ٹیسٹ کی سہولت مہیا کرنے اور ایچ آئی وی میں مبتلا ٹرانس جینڈر افراد کا سرکاری ہسپتالوں سے علاج کروانے کے پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا جسے یو این ڈی پی نے 18 جولائی کو معطل کر دیا۔

اس منصوبے میں 104 ٹرانس جینڈر افراد کو ملازمت دی گئی تھی جو اب بیروزگار ہو گئے ہیں۔ جی آئی ای کے مطابق پراجیکٹ بند ہو جانے کے باعث ایچ آئی وی/ایڈز میں مبتلا  18 ہزار سے زیادہ ٹرانس جینڈر افراد کا علاج معالجہ بھی متاثر ہوا ہے۔

یو این ڈی پی کی اس منصوبے سے متعلق جائزہ کمیٹی کے چیئرپرسن تھامس جیکب نے جی آئی ای کی پروگرام مینیجر زہرش خانزادی (ٹرانس جینڈر) کو ایک ای میل کے ذریعے پراجیکٹ معطل کرنے کی اطلاع دی تھی۔ بادی النظر میں یو این ڈی پی کو اس پروگرام پر عملدرآمد کے حوالے سے کچھ خدشات ہیں۔

ای میل میں بتایا گیا ہے کہ پراجیکٹ سے متعلقہ تمام معاملات کی جانچ پڑتال اور تحقیقات ہونے تک اس پر کام معطل رہے گا۔

زہرش خانزادی کے مطابق یو این ڈی پی کے ساتھ جی آئی ای کا ایچ آئی وی پراجیکٹ تین سال کے لیے تھا جو 2021 میں شروع ہوا اور اسے دسمبر 2023 تک جاری رہنا تھا۔

'ہمیں امید تھی تھی کی دسمبر کے بعد پراجکیٹ کی مدت بڑھائی جائے گی مگر یو این ڈی پی کی طرف سے اچانک کام معطل کرنے کے اعلان سے ٹرانس جینڈر افراد میں مایوسی پھیلی ہے اور روزگار کے مسئلے نے جنم لیا ہے۔ وہ ٹرانس جینڈر جو ایچ آئی وی کی مریض ہیں ان کے ہسپتالوں تک جانے آنے کے مسائل پیدا ہوئے اور ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔

زہرش کے مطابق گزشتہ سال بھی یو این ڈی پی نے عوامی شکایات پر پراجیکٹ کی سرگرمیاں معطل کی تھیں۔ ان میں اس طرح کی شکایات شامل تھیں کہ جینڈر انٹر ایکٹو الائنس کے ایچ آئی وی پراجیکٹ میں کام کرنے والے بعض ٹرانس جیندڑس سیکس ورکر ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی ٹرانس جینڈر سیکس ورکر تھا یا بھیک مانگتا تھا تو پراجیکٹ میں ملازمت ملنے کے بعد اس نے پرانے کام چھوڑ دیے تھے اور کسی کو اس کے ایسے ماضی کی وجہ سے سزا نہیں دی جا سکتی جسے وہ ترک کر چکا ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ یو این ڈی پی کے پورٹل پر کی گئی شکایت پر پہلے بھی پراجیکٹ کا کام معطل ہوا تھا جبکہ اس بار تو الزام اور شکایت بھی نہیں بتائی جا رہی۔

حیدرآباد کی پرانی سبزی منڈی الشفیق کالونی اور حالی روڈ پر غریب نواز کالونی کی تنگ گلیوں اور خستہ مکانوں میں کچرے اور فضلہ کے ڈھیروں کے درمیان تقریباً ڈیڑھ سو ٹرانس جینڈر آباد ہیں۔

الشفیق کالونی کی 38 سالہ ثنا خان جینڈر انٹر ایکٹو الائنس کے حیدرآباد میں ایچ آئی وی پراجیکٹ کی سپروائزر ہیں۔ وہ بلدیاتی انتخابات میں مخصوص نشست پر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی رکن بھی منتخب بھی ہو چکی ہے۔ ان کے بقول اس پراجیکٹ میں نوکری ملنے سے پہلے وہ بھیک مانگ کر گزارا کرتی تھیں اور جس دن انہیں نوکری ملی اسی دن انہوں نے بھیک مانگنا چھوڑ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گوجرانوالہ کا ٹرانس جینڈر سکول: 'ہمارے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں'

ثنا خان بتاتی ہیں کہ انہیں پراجیکٹ سے ماہانہ 85 ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی اور ان کے زیرنگرانی آٹھ ٹرانس جینڈر فیلڈ میں کام کر رہے تھے۔ اس منصوبے کی بدولت ٹرانس جینڈر افراد کو ناصرف اپنی صحت کے بارے میں آگاہی ملی بلکہ اچھے روزگار کے حصول کے مواقع بھی کھلے۔

لاڑکانہ کے شاہ نواز بھٹو چلڈرن پارک کے قریبی علاقے میں رہنے والے 36 سالہ ٹرانس جینڈر سمرن خان تقریبات میں رقص کر کے روزی کماتے تھے۔ لاڑکانہ میں یہ پراجیکٹ شروع ہوا تو انہیں بھی اس میں نوکری مل گئی جس کے بعد انہوں نے رقص کا پیشہ چھوڑ دیا۔

سمرن بتاتے ہیں کہ سندھ میں کراچی کے بعد ایچ آئی وی/ایڈز کے سب سے زیادہ مریض لاڑکانہ میں ہیں جن کی تعداد 250 سے زیادہ ہے۔

سمرن لاڑکانہ میونسپل کارپوریشن کے رکن بھی ہیں اور ماضی میں کئی سرکاری اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں تو کسی اور ادارے میں بھی نوکری مل جائے گی لیکن ان کے ساتھ کام کرنے والے ٹرانس جینڈر افراد کا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے جنہیں کوئی ملازمت پر نہیں رکھے گا۔

تاریخ اشاعت 12 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا برا حال آخر نوجوان انجنیئر کیوں نہیں بننا چاہتے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

دن ہو یا رات شاہ عبدالطیف کا کلام گاتے رہتے ہیں

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.