ہادیہ بی ایس پارٹ ٹو كی طالبہ ہیں، وہ تحصیل عیسٰی خیل کے ایک چھوٹے سے گاؤں کمرمشانی کی رہائشی ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی اور محنت مزدوری کرتے ہیں، ان کے والد بھی دیہاڑی دار مزدور ہیں جو بمشكل بیٹی كے تعلیمی اخراجات برداشت كر رہے ہیں۔
ہادیہ بتاتی ہیں كہ وہ ضلع میانوالی میں كمرمشانی گرلز گورنمنٹ كالج میں پڑھتی ہیں۔ كالج میں کلاسیں ہیں لیکن ان میں پڑھانے کے لیے اساتذہ نہیں ہیں، لائبریری موجود ہے لیکن اس میں کتابیں نہیں ہیں، جبکہ لیب تک طالبات كی رسائی محض سال میں ایک بار ممكن ہوتی ہے، وہ بھی سالانہ پرچوں کے دوران پریكٹیكل امتحان كے لیے۔
"گورنمنٹ كالج غریب خاندانوں كی لڑكیوں كے لیے واحد امید ہے۔ ہمارے والدین نجی كالجز كے اخراجات كے متحمل نہیں ہو سكتے۔ كالج میں گنتی كی چار اساتذہ موجودہیں، جوافراتفری میں نصاب مکمل کروانے پر زور دیتی ہیں"۔
ہادیہ مزید بتاتی ہیں کہ جو ٹیچر آتی ہیں، انہیں انتظامیہ کی جانب سے بہت زیادہ روک ٹوک کا سامنا رہتا ہے، اسی بات سے تنگ آکر وہ چند مہینوں میں ہی یہاں سے اپنا تبادلہ کروا لیتی ہیں۔
میانوالی کی تحصیل عیسی خیل کی کل آبادی تین لاکھ 74 ہزار ہے، جس میں سے تین لاکھ کے قریب آبادی دیہی اور چوراسی ہزار کے لگ بھگ لوگ شہروں میں رہتے ہیں۔
ضلع میں خواتین کی خواندگی کی شرح صرف 39 فیصد ہے یہ خواندگی کی مجموعی ضلعی شرح سے 22 فیصد کم ہے۔
تحصیل عیسیٰ خیل میں خواندگی کی مجموعی شرح 54 فیصد اور اس تحصیل میں صرف 35 فیصد خواتین پڑھی لکھی ہیں۔
کمرمشانی کی آبادی 36 ہزار افراد پر مشتمل ہے جن میں 18 ہزار سے زائد خواتین اور 17 ہزار کے قریب مرد ہیں۔
كالج میں ایف اے، ایف ایس سی، آئی سی سی، دوسالہ بیچلر ڈگری ایسوسی ایٹ ڈگری آف آرٹس( اے ڈی اے) اور ایسوسی ایٹ ڈگری آف سائنس ( اے ڈی ایس) كی كلاسز پڑھائی جا رہی ہیں۔
رواں برس نومبر میں بی ایس آنر انگلش كی كلاس كا آغاز كیا گیا ہے جس میں ابھی تک 80 طالبات داخلہ لے چكی ہیں، لیكن انہیں پڑھانے كے لیے كسی مستقل ٹیچر كی پوسٹنگ نہیں ہوئی ہے۔
فائزہ بھی انٹرمیڈیٹ پارٹ ٹو كی طالبہ ہیں جو كمر مشانی کے نواحی علاقے پیلا بورنگ سے تعلق ركھتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں كہ ان كے خاندان میں لڑكیوں كو پڑھانے كا رواج نہیں ہے، لیكن انہیں تعلیم حاصل كرنے كا بہت شوق ہے۔ انہوں نے اپنے والدین كی منت سماجت كر كے كالج میں داخلے كی اجازت لی ہے اور اس پر اُفتاد كہ وہ پانچ كلو میٹر پید ل سفر كر كے روزانہ كالج آتی جاتی ہیں۔كالج جا كر بھی جب انہیں ساز گار ماحول میسر نہیں آتا تو وہ مایوس ہو جاتی ہیں۔
"كالج كو رضاکار ٹیچرز كے سہارے چلایا جا رہا ہے ، وہ اسی كالج كی فریش گریجویٹ ہوتی ہیں جو دو سے تین ماہ كی انٹرن شپ پر آتی ہیں۔ تاہم سی آئی ٹی پروگرام كے تحت كچھ ٹیچرز كو سال كے آخر میں تعینات كیا جاتا ہے تاكہ نصاب ختم كروایا جاسكے لیكن اس بار ان موسمی اساتذہ كی بھی كوئی خبر نہیں"۔
مستقل ٹیچر رافعہ کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں طلباء کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت كالج میں طالبات كی تعداد دو ہزارہے۔ جبكہ اتنی بڑی تعداد كو پڑھانے كے لیے محض چار مستقل اساتذہ موجو د ہیں۔
كالج كے سینئر عہدیدار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ یہاں انگلش، اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان ،ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن، سائیكالوجی، ریاضی، ایجوکیشن، کیمسٹری، بائیولوجی، فزکس، ذوالوجی، باٹنی، کمپیوٹر، معاشیات کے مضمون "پڑھائے" جاتے ہیں۔
فی الحال کمپیوٹر، ریاضی، فزکس، بائیولوجی کے علاوہ باقی تمام مضامین کے اساتذہ کی سیٹیں خالی ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ یہاں اساتذہ کی پوسٹنگ نہیں ہوتی، درحقیقت یہ علاقہ پسماندہ ہے، یہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، یہی وجہ ہے کہ آنے والی اساتذہ جلد ہی یہاں سے اپنا ٹرانسفر کروا لیتی ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں یہاں 11 اور رواں برس سات اساتذہ کی پوسٹنگ ہوئی۔جن میں سے صرف ایک ابھی تک موجود ہیں۔
سائرہ سحرش نے حال ہی میں كمرمشانی گورنمنٹ كالج سے اپنا ٹرانسفر پیلاں گورنمنٹ کالج میں کروا لیا ہے۔ وہ کمر مشانی کالج میں ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن کی مستقل ٹیچر تھیں، انہوں نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کالج میں کچھ مسائل انتظامیہ کے سخت رویے کی وجہ سے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
تھرپارکر کا گرلز کالج: یہاں صرف فزکس، زوآلوجی، انگریزی، ریاضی، اردو، اسلامیات، سندھی اور مطالعہ پاکستان کے استاد نہیں ہیں
"میں فزیکل ایجوکیشن کی استاد ہوں لیکن کالج میں بچیوں کو ورزش اور کھیل کود تک کی سہولت تو درکنار، اجازت بھی میسر نہیں تھی۔پرنسپل صاحبہ نے جو خود ساختہ اصول وضع کر رکھے ہیں وہ ان کے علاوہ کسی کی بات سننا پسند نہیں کرتیں"۔
سحرش کہتی ہیں کہ پرنسپل کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ طالبات اور اساتذہ کو کن مسائل کا سامنا ہے؟ انہیں صرف اپنی نیک نامی سے سروکار ہے۔کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ کالج کو جب فنڈز مل رہے ہیں تو ان کے مطابق سہولیات کیوں فراہم نہیں کی جا رہیں؟
پرنسپل صومیہ نیازی کالج میں سخت رویے کی تردید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہاں کا ماحول تفریحی ہے۔کسی قسم کی کوئی سختی نہیں ہے، چونکہ یہ علاقہ پسماندہ اور ٹرانسپورٹ کے مسائل ہیں تو اساتذہ جلد ہی اپنا ٹراسفر کرا لیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ کئی انتظامی ذمہ داریوں کے باوجودخود بھی کلاسز پڑھاتی ہیں۔"اساتذہ کی کمی اور کئی مسائل کے باوجود اس سال بھی انٹر میڈیٹ کا رزلٹ اسی فیصد رہا ہے"۔
انہوں نے بتایا کہ سی ٹی آئی پروگرام کے تحت ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، ایسے کالجز جہاں اساتذہ کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہو، وہاں اساتذہ کو پانچ ماہ کی عارضی مدت کے لیے بھرتی کرتا ہے۔
"ہم نے رواں برس بھی اس پروگرام كے لیے بھی درخواست دی تھی لیكن اس سال پنجاب بھر میں سی ٹی آئی تعیناتی نہیں کی گئی"۔
وہ کہتی ہیں کہ اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے انہوں نے والینٹر ٹیچرز کو بلایا ہے۔ تاکہ طلباء کے امتحانوں کی تیاری بہتر طریقے سے ہو سکے۔
تاریخ اشاعت 3 جنوری 2024