حسبِ سابق اس سال بھی کراچی میں ہزاروں لوگ دسویں محرم کے جلوس میں شریک تھے۔ سوا ایک بجے کے قریب یہ جلوس ظہر کی نماز کے لیے صدر کے علاقے میں پریڈی سٹریٹ کے قریب کچھ دیر کے لیے رکا۔ اس دوران سیاہ لباس میں ملبوس ایک خمیدہ کمر معمر آدمی ہجوم سے نکلا اور اس کے شرکاء کو ایک دعا پڑھانے لگا۔ بہت سے نیوز چینلز پر یہ عمل براہِ راست دکھایا گیا۔
جونہی دعا مکمل ہوئی جلوس آگے بڑھ گیا۔
بعد ازاں اُسی رات قریباً ساڑھے نو بجے کراچی کے ایک تھانے کے سب انسپکٹر نے اُس معمر آدمی اور جلوس کے متعدد دیگر شرکا کے خلاف تعزیراتِ پاکستان (پاکستان پینل کوڈ) کی دفعہ 295 اے کے تحت مقدمہ درج کرا دیا۔ مقدمے میں نامزد لوگوں پر الزام ہے کہ انہوں نے دانستہ طور پر دوسرے لوگوں کے مذہبی جذبات کی بے حرمتی اور توہین کی ہے۔
اسی روز پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے مذکورہ بالا دعا کو براہِ راست دکھانے پر چینل 24 کا لائسنس معطل کر دیا۔ تین روز بعد 2 ستمبر 2020 کو بعض افراد نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 اے (جس کا اطلاق ایسے الفاظ کی ادائیگی پر ہوتا ہے جن سے دوسروں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں) اور انسدادِ دیشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت چینل 24 کے چیف ایگزیکٹو محسن نقوی کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا۔
اس کیس میں مدعیوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پریڈی سٹریٹ کے جلوس میں دعا کے دوران اُن مذہبی ہستیوں کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے گئے تھے جنہیں پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت انتہائی مقدس جانتی ہے۔
اس واقعے سے تقریباً چھ سال پہلے سید طفیل حیدر شیعہ برادری کے ایک اجتماع میں شرکت کے لیے اپنے آبائی شہر جھنگ سے گجرات گئے جہاں 4 نومبر 2014 کو ان کا کسی سے جھگڑا ہو گیا اور پولیس نے دو افراد کو زخمی کرنے کے جرم میں انہیں گرفتار کر لیا۔ دو روز بعد پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) فراز نوید نے حوالات میں بند طفیل حیدر کو کلہاڑے کے وار کر کے موقع پر قتل کر دیا۔
وقوعہ کے بعد فراز نوید کا کہنا تھا کہ اس نے طفیل حیدر کو اس لیے قتل کیا کہ تفتیش کے دوران انہوں نے بعض مذہبی شخصیات کے خلاف حقارت آمیز باتیں کہی تھیں۔
قیصر عباس پر توہینِ مذہب کا کوئی الزام بھی نہیں تھا لیکن چھ ستمبر 2020 کو وہ دو دوستوں کے ساتھ کوہاٹ میں اپنی دکان پر بیٹھے سموسے کھا رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی ان کی جانب لپکا اور تین سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اس نے چھ گولیاں ان کے جسم میں اتار دیں۔
اگلے پندرہ سیکنڈ میں قیصر عباس کی موت واقع ہو گئی۔
قتل کی یہ واردات ایک بھرے بازار میں ہوئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل کو وہاں بڑی تعداد میں لوگوں کی موجودگی کی کوئی پروا نہیں تھی -- گویا وہ کوئی جرم کرنے کے بجائے ایک شیعہ کو قتل کرنے کا مذہبی فریضہ ادا کر رہا ہو۔
اقلیتی فرقے کے مسائل
پاکستان کی آبادی میں شیعہ مسلمانوں کا تناسب قریباً بیس فیصد ہے۔ ملکی تاریخ میں بیشتر عرصہ ان کے دوسرے فرقوں سے اختلافات رہے ہیں۔
محرم روایتی طور پر شیعہ برادری کے لیے سال کا اہم ترین وقت ہوتا ہے۔ اسلامی کیلنڈر کے اس پہلے مہینے میں وہ مقدس ہستیوں کی یاد میں متعدد مذہبی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس سال بھی محرم کے دوران پاکستان بھر میں چھتیس ہزار مجالس منعقد ہوئیں اور نو ہزار جلوس نکالے گئے۔ تاہم ان تقریبات پر مخالفانہ ردِ عمل کے واقعات بھی بہت بڑی تعداد میں سامنے آئے کیونکہ ان مواقع پر ادا کی جانے والی بعض رسومات فرقہ وارانہ آویزش کا باعث بنیں۔ نتیجتاً اس مہینے پاکستان کے مختلف حصوں میں شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف توہینِ مذہب کے 130 سے زیادہ مقدمات درج ہوئے۔
ان میں بیشتر مقدمات تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295 اے، 298 اے اور 153 اے کے تحت درج کیے گئے۔ ان میں پہلی دو دفعات کا تعلق مذہب سے متعلق جرائم سے ہے۔ یہ دونوں دفعات بالترتیب 'کسی طبقے کے مذہب یا مذہبی اعتقادات کی توہین کے ذریعے اس کے مذہبی جذبات کی بے حرمتی کے دانستہ اور عناد پر مبنی اقدامات کرنے' اور 'مقدس شخصیات کے خلاف توہین آمیز کلمات کہنے' کے بارے میں ہیں۔ تیسری دفعہ امن عامہ میں خلل ڈالنے سے متعلق جرائم میں شامل ہے اور مختلف گروہوں کے مابین عداوت کو ہوا دینے سے متعلق ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ ان مقدمات میں امن و امان برقرار رکھنے سے متعلق 1960 کے آرڈیننس (ایم پی او) اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 (اے ٹی اے) کی دفعات بھی شامل کر لی گئی ہوں۔
شیعہ مخالف کالعدم تنظیم اہل سنت والجماعت نے سربراہ محمد احمد لدھیانوی نے ایک حالیہ تقریر میں فخریہ طور پر کہا ہے کہ اس سال صرف تین مہینوں میں – جن میں محرم بھی شامل ہے -- شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے 800 افراد کے خلاف توہینِ مذہب کے الزام میں مقدمات درج ہوئے ہیں۔
ان مقدمات کے اندراج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب آصف علوی نامی ایک شیعہ مقرر کے خلاف لیہ میں 13 اگست 2020 کو دفعہ 298 اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ان پر الزام تھا کی انہوں نے اپنی تقریر کے دوران مذہبی شخصیات کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہے تھے۔ اسی مہینے خانیوال، اسلام آباد اور گوجرانوالہ میں تقاریر کرنے پر بھی ان کے خلاف تین مزید کیس بنائے گئے۔ اس کے بعد وہ ملک چھوڑ کر انگلینڈ چلے گئے۔
سر پہ لٹکتی تلوار
توہینِ مذہب کے الزامات کی حالیہ لہر کا سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس نے ایسے الزامات پر کارروائی کے لیے بنائے گئے قانونی ڈھانچوں کو اس حد تک کمزور کر دیا ہے کہ وہ مذہب کی تقدیس کے خود ساختہ محافظوں اور متشدد ہجوم کے ہاتھوں یرغمال بن گئے ہیں۔ اس کا کچھ کچھ اندازہ ذیل میں دیے گئے بیان سے بھی ہوتا ہے:
تعزیراتِ پاکستان میں 1986 میں توہینِ مذہب سے متعلق شامل کی گئی دفعہ 295 سی مجرم کے لئے موت کی سزا تجویز کرتی ہے۔ اب تک اس قانون کے تحت پندرہ سو افراد کو سزا ہو چکی ہے اگرچہ تاحال ان میں سے کسی کی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ لیکن پاکستان میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم سنٹر فار سوشل جسٹس کے مطابق گزشتہ تینتیس سال میں اس دفعہ کے تحت سزا پانے والے کم از کم پچھتر افراد مشتعل افراد یا ہجوم کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔ ان میں بعض ایسے بھی تھے جنہیں عدالتوں نے توہینِ مذہب کے الزام سے بری کر دیا تھا۔
اب توہینِ مذہب سے متعلق دیگر قانونی دفعات بھی مہلک ہوتی جا رہی ہیں۔
مثال کے طور پر اس سال دفعہ 295 اے اور 298 اے کے تحت درج کیے جانے والے مقدمات کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ 2015 کے آغاز سے لے کر 2019 کے اختتام تک پانچ برس میں ہر سال توہینِ مذہب کے مقدمات کی اوسط تعداد ننانوے رہی مگر اس سال صرف ایک ہی مہینے میں ایسے ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات درج کیے گئے۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف درج کرائے گئے مقدمات کی بنیاد ان کے مبینہ کلمات سے رنجیدہ ہونے والے شہریوں کی موقع پر درج کرائی گئی شکایات ہیں۔ لیکن انتہاپسند مذہبی تنظیموں نے ان مقدمات کو سڑکوں پر احتجاج کے لیے استعمال کیا ہے۔
اس سال محرم میں شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے کم از کم سات لوگوں کو قتل کیا گیا اور بہت سے شیعہ لوگ حملوں کا نشانہ بھی بنے۔
پنجاب میں کم از کم دو جگہوں – اوکاڑہ اور جوہر آباد – میں محرم کے جلوسوں پر پُرتشدد حملوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ دونوں واقعات میں لوگوں کے ہجوم جلوس کے روایتی راستے میں ایک مرکزی مقام پر جمع ہوئے اور جونہی جلوس اس جگہ پہنچا تو ہجوم نے 'کافر کافر شیعہ کافر' کے نعرے لگاتے ہوئے اس پر پتھر برسانا شروع کر دیے۔ دونوں واقعات میں جلوسوں کے متعدد شرکا اس قدر بری طرح زخمی ہوئے کہ انہیں ہسپتال لے جانا پڑا۔
عمال طور پر محرم کے سالانہ جلوسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے والے شیعہ حضرات کے لیے ایسے حملے کچھ زیادہ پریشانی کا باعث نہیں ہوتے۔ جھنگ ملک میں سب سے بڑی شعیہ مخالف تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان کا گڑھ ہے وہاں تو محرم کے موقع پر تشدد کے واقعات ہونے سے زیادہ لوگوں کے لئے حیران کن بات یہ ہوتی ہے کہ کسی سال ایسے واقعات نہ ہوں۔ ایسے شیعہ اعتقادات کا سرِ عام اظہار جنہیں دوسرے فرقے مبنی بر توہین قرار دیتے ہیں اور ان کی کھلم کھلا مخالفت بھی پہلی بار نہیں ہو رہے۔
تاہم اس حوالے سے نئی بات یہ ہے کہ اب فرقہ وارانہ بدلے چکانے کے لیے مذہبی قوانین کا استعمال بڑھ گیا ہے۔
شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف درج کرائے گئے مقدمات کی بنیاد ان کے مبینہ کلمات سے رنجیدہ ہونے والے شہریوں کی موقع پر درج کرائی گئی شکایات ہیں۔ لیکن متعدد انتہاپسند مذہبی تنظیموں نے – جن میں سپاہ صحابہ پاکستان جیسی کالعدم جماعتیں بھی شامل ہیں -- ان مقدمات کو سڑکوں پر احتجاج کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ تنظیمیں توہینِ مذہب کے قوانین کے تحت شیعہ فرقے کے لوگوں کے خلاف فرداً فرداً قانونی چارہ جوئی کرنے کے بجائے ایک عمومی بیانیہ ترتیب دینے میں لگی ہوئی ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 'دراصل شیعہ عقیدہ ہی اہم مذہبی شخصیات کی توہین پر مبنی ہے'۔
مختلف ممالک میں مختلف اوقات پر سرگرم متعدد فسطائی تنظیموں کی طرح انہوں نے یہ اعلان کرنا بھی شروع کر دیا ہے کہ پاکستان کی سنی اکثریت کو شیعہ اقلیت سے خطرہ ہے۔ اس بیانیے کے نتیجے میں نفرت کی ایک مہم نے جنم لیا ہے جس میں شیعہ مخالف تنظیموں کے سربراہ دھمکی دیتے سنائی دیتے ہیں کہ اگر ریاست نے شیعوں کی جانب سے مذہبی شخصیات کی مبینہ توہین کے خلاف کارروائی کے لیے ان کے مطالبات پر توجہ نہ دی تو وہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ڈیجیٹل فرقہ واریت
شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمات میں اضافے کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر بہت سی ایسی ویڈیوز بھی چلنا شروع ہو گئی ہیں جن میں شیعوں کو اپنا عقیدہ ترک کرتے دکھایا جارہا ہے۔ ان 'ڈیجیٹل عدالتوں' کو دیکھ کر انڈیا کے وہ مناظر ذہن میں آتے ہیں جن میں مسلمانوں کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان ویڈیوز کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اکثروبیشتر انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی موجودگی میں ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں کئی شیعہ مخالف جلوس بھی منظم کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک جلوس 11 ستمبر 2020 کو کراچی میں نکالا گیا جس میں ہزاروں افراد شامل تھے اس کے بہت سے شرکاء نے سپاہِ صحابہ پاکستان کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ انہوں نے شیعہ مخالف نعرے لگانے کے ساتھ ساتھ ایک امام بارگاہ پر پتھراؤ بھی کیا۔ اگلے تین دن میں دوسرے شہروں میں بھی بریلویوں، دیوبندیوں اور وہابیوں سمیت متعدد سنی گروہوں کی جانب سے ایسے ہی اجتماعات کا اہتمام کیا گیا۔
ان میں سے ایک اجتماع 17 ستمبر کو متعدد مذہبی تنظیموں پر مشتمل متحدہ سنی کونسل نے اسلام آباد میں منعقد کیا جس میں شیعوں کے خلاف بہت زہریلی زبان استعمال کی گئی۔ اس اجتماع کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ اسلام کے پہلے چار خُلفا کے بعد بننے والی پہلی موروثی مسلم بادشاہت – یعنی اموی خلافت -- کے بانیوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے والوں کو سزائے موت دینے کا قانون بنایا جائے۔ کالعدم اہل سنت والجماعت کے ایک رہنما نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شیعوں کے مکمل سماجی مقاطعے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت شیعوں کو بھی قادیانیوں جیسی مذہبی اور قانونی حیثیت دینے کا قانون بنائے اور شیعہ فرقے کے جو لوگ مذہبی شخصیات کے خلاف توہین پر مبنی کلمات کہیں ان کی زبانیں کاٹ دی جائیں۔
ایسے عوامی مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے ریاستی رجحانات ان دھمکیوں کو ایک واضح طور پر خطرناک رنگ دے دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر 1993 میں ظہیرالدین بنام ریاست نامی مقدمے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے احمدیوں کے خلاف تشدد کو گویا جائز ہی قرار دے دیا۔ اس مقدمے میں عدالت نے سوال اٹھایا کہ 'جب کوئی مسلمان ایسا توہین آمیز مواد سُن، پڑھ یا دیکھ کر خود پر قابو نہ رکھ پائے تو کیا کوئی اسے موردالزام ٹھہرا سکتا ہے؟'۔ عدالت نے یہاں تک کہہ دیا کہ کسی احمدی کو اپنی شناخت کے اظہار کی اجازت دینا گویا 'اس کو سلمان رشدی بنانا ہے'۔
ڈیجیٹل انقلاب کے بعد اوراس کے نتیجے میں سوشل میڈیا تک ہمہ گیر رسائی کے باعث فرقہ وارانہ بیانیوں پر مشتمل کتابیں اور تحریریں ہر کسی کی پہنچ میں آ گئی ہیں۔ اب یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ ان تحریروں سے کیا کام لیتے ہیں: علی عثمان قاسمی
عدالت نے ایک اور خوفناک سوال بھی اٹھایا کہ 'کیا اس صورت میں انتظامیہ احمدیوں کی زندگی، آزادی اور املاک کی حفاظت کی ضمانت دے سکتی ہے اور اگر ایسا ہے تو اس ضمانت کی قیمت کیا ہو گی'؟
فرقہ واریت کی حالیہ صورتِ حال میں یہ سوال کچھ تبدیلی کے ساتھ ایک مرتبہ پھر اٹھایا جا سکتا ہے: 'اگر کوئی سنی کسی شیعہ کی جانب سے کہی گئی ایسی باتوں کو سن، پڑھ یا دیکھ کر بے قابو ہو جائے جنہیں توہین آمیز سمجھا جاتا ہے تو کیا اسے موردالزام ٹھہرایا جائے گا؟
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے معلم علی عثمان قاسمی کہتے ہیں کہ توہینِ مذہب سے متعلق حالیہ تبدیلیوں نے اس وقت جنم لیا جب اکیسویں صدی کے آغاز میں ڈیجیٹل انقلاب آیا۔ وہ کہتے ہیں: 'قبل ازیں شیعہ اور سنی بیانیوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے والی نظریاتی اور تاریخی تقسیم مذہبی علما کے مابین مقابلہ بازی تک ہی محدود تھی اور بیشتر اوقات عام لوگ مذہبی معلومات کے لیے انہی مذہبی ماہرین پر انحصار کرتے تھے'۔ ان کے مطابق ' عام لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے ریاست کو صرف انہی علما کو قابو کرنا ہوتا تھا'۔ یہ کام ان لوگوں کو نظربند کر کے یا ان کی تقریر اور نقل و حرکت پر پابندی لگا کر کیا جاتا تھا جن کے بارے میں یہ خدشہ ہوتا تھا کہ وہ فرقہ وارانہ جھگڑے کو ہوا دے سکتے ہیں۔
لیکن، علی عثمان قاسمی کہتے ہیں، ڈیجیٹل انقلاب کے بعد اور اس کے نتیجے میں سوشل میڈٰیا تک ہمہ گیر رسائی کے باعث ایسے مخالفانہ بیانیوں پر مشتمل کتابیں اور تحریریں ہر کسی کی پہنچ میں آ گئی ہیں۔ اب یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ ان تحریروں سے کیا کام لیتے ہیں'۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیکڑوں خود ساختہ دانشوروں اور ماہرین نے اپنے ڈیجیٹل چینل بنا لیے ہیں اور ان کی طرف سے کیے جانے والے کسی بھی طرح کے دعووں کی تصدیق یا تردید کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ ان 'اسلامی معلومات' کی موجودگی میں فتووں کا اجرا عملاً ایک گھریلو صنعت بن گیا ہے جس نے مذکورہ بالا تاریخی تقسیم کو اور بھی شدید بنا دیا ہے۔
بریلویت کا سیاسی احیا
پاکستان کے فرقہ وارانہ تناظر میں روایتی طور پر اہلِ تشیع کو بریلویوں کے قریب سمجھا جاتا تھا۔ دیکھا جائے تو 1980 اور اس کے بعد بننے والی بہت سی شیعہ مخالف دہشت گرد تنظیموں میں کوئی بھی ایسی نہیں ہے جس کا تعلق اسلام کے بریلوی فرقے سے ہو۔ تو پھر سوال سامنے آتا ہے کہ شیعوں کی مخالفت میں بریلوی کیونکر شامل ہوئے؟
کسی حد تک اس کا آغاز جون 2020 میں بریلوی عالم اور مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے رہنما اشرف جلالی کے ایک خطبے سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے کچھ ایسی باتیں کہیں جو ناصرف شیعوں بلکہ ٹی ایل پی کے باہر بریلوی برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کے لیے بھی ناگوار تھیں۔ لہٰذا ان باتوں کی وجہ سے اشرف جلالی کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ چلانے کے مطالبات ہونے لگے۔ بعض شیعہ علما نے انہیں سزائے موت دینے کی مانگ بھی کی۔
یہ واقعہ 1990 کی دہائی کے بعد بریلوی سیاست میں آنے والی تبدیلیوں کا نقطہِ عروج تھا۔
بریلویوں کا دعویٰ ہے کہ وہ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا فرقہ ہیں مگر ریاستی اداروں -- جیسا کہ سول سروس اور شعبہِ تعلیم -- میں ان کی اتنی نمائندگی نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے۔ اس سے برعکس ایسے اداروں میں دیوبندیوں اور وہابیوں کا غلبہ ہے۔
جیسا کہ علی عثمان قاسمی وضاحت کرتے ہیں اب ہم ایک خود اعتمادی سے لبریز بریلوی سیاست کی اٹھان کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک ایسے فرقے کا سیاسی احیا ہے جس نے ہمیشہ خود کو پاکستان میں سنی بالادستی کا محور سمجھا ہے مگر جس نے کبھی اپنی اکثریت کے مطابق سیاسی یا انتخابی مقام حاصل نہیں کیا۔
چونکہ مذہبی شخصیات کے احترام جیسے مذہبی معاملات پاکستان کے سماجی ڈھانچے کی بنیاد میں گڑے ہیں اس لیے بریلویوں کو لگتا ہے کہ انہیں بس لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ ان ہستیوں کا احترام یقینی بنانے کے لیے ملک کو بریلوی قیادت کی ضرورت ہے جس کے بعد انہیں خود بخود عوام کی بھرپور تائید حاصل ہو جائے گے۔
2017 میں انہوں نے انتخابی قوانین میں لائی گئی ایک تبدیلی کے خلاف ہڑتال اور دھرنوں کے ذریعے اپنی اس اہلیت کا موثر طور سے مظاہرہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ تبدیلی احمدیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی تھی۔
حالیہ شیعہ مخالف اجتماعات میں بھی بریلویوں نے قائدانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان جلسے جلوسوں کے نتائج سے وہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ 'ہم مذہبی ہستیوں کی توہین کے مسئلے پر بہت بڑے ہجوم جمع کر سکتے ہیں'۔
فرقہ بندی کا نیا انداز
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی پیغمبرِ اسلام کی توہین کرنے والے کے لیے سزائے موت تجویز کرتی ہے۔ یہ دفعہ 1986 میں پینل کوڈ کا حصہ بنی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام کے بلاواسطہ یا بالواسطہ قرابت داروں کی توہین پر سزا سے متعلق دفعہ 298 اے اس سے چھ سال پہلے پینل کوڈ کا حصہ بن چکی تھی۔ آخر پیغمبرِ اسلام کے ساتھیوں کی توہین کو 295 سی کے نفاذ سے نصف دہائی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے جرم قرار دیے جانے کی کیا وجہ تھی؟
اس سوال کا جواب کچھ یوں ہے۔
دفعہ 298 اے اس وقت تعزیراتِ پاکستان کا حصہ بنی جب ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں شیعہ انقلاب کو آئے ایک سال ہوا تھا اور اس انقلاب کی فرقہ وارانہ پرچھائیاں پاکستان پر بھی پڑنا شروع ہو گئی تھیں۔ اسی سال، یعنی 1980 میں، اُس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق نے زکواۃ و عشر آرڈیننس نافذ کیا جسے شیعوں نے ایک فرقہ وارانہ اقدام قرار دیا کیونکہ ان کے عقیدے کی رو سے ریاست کو زکواۃ و عشر جیسے مذہبی محصولات وصول کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
چار اور پانچ جولائی 1980 کو ہزاروں شیعہ مظاہرین نے اسلام آباد میں وفاقی سیکرٹریٹ کا گھیراؤ کر لیا جس کے سامنے افسر شاہی بے بس ہو کر رہ گئی۔ ایسے میں حکومت کو ہتھیار ڈالنا پڑے اور اس نے شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو ان دونوں محصولات کی ادائیگی سے مستثںیٰ قرار دے دیا۔
اس کامیاب احتجاج نے ایک شیعہ سیاسی جماعت کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (ٹی این ایف جے) نامی یہ جماعت بعد میں سپاہ صحابہ پاکستان جیسے دیوبندی گروہوں کے ایک سخت حریف کے طور پر سامنے آئی۔ آئندہ دو دہائیوں تک ملک میں دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کی باہمی مخاصمت کے نتیجے میں جو تشدد برپا ہوا اس کی ملکی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
توہینِ مذہب کے الزامات کی حالیہ لہر کا سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس نے ایسے الزامات پر کارروائی کے لیے بنائے گئے قانونی ڈھانچوں کو اس حد تک کمزور کر دیا ہے کہ وہ مذہب کی تقدیس کے خود ساختہ محافظوں اور متشدد ہجوم کے ہاتھوں یرغمال بن گئے ہیں
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ملک کا طاقت ور ترین شخص ہونے کے باوجود ضیاالحق کا ایک مذہبی اقلیت کے ہاتھوں یو ٹرن لینے پر مجبور ہو جانا ان کے لئے بے حد شرمندگی کا باعث تھا لہٰذا انہوں نے سنیوں کو خوش کرکے اپنی پوزیشن دوبارہ بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اگست اور ستمبر 1980 میں انہوں نے سرکاری اہتمام کے تحت منعقدہ متعدد کانفرنسوں سے خطاب کیا جہاں علما نے ملکی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق بنانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔ اس سلسلے کی پہلی کانفرنس میں علما نے اسلامی تاریخ کی اہم ہستیوں کا احترام یقینی بنانے کے لیے قوانین نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جس کے بعد ضیا حکومت نے دفعہ 298 اے کو تعزیراتِ پاکستان میں شامل کر لیا۔
آئندہ چھ برس میں ایسی مزید شقیں پینل کوڈ کا حصہ بنیں جن کی رو سے قرآن کی بے حرمتی کو جرم قرار دیا گیا اور احمدیوں کو خود کو مسلمان کہلوانے سے روک دیا گیا۔ اس عمل کا اختتام 1986 میں دفعہ 295 سی کی تعزیرات میں شمولیت پر ہوا۔
ان میں سے دفعہ 298 اے خاص طور پر شیعہ عقیدے سے متضاد ہے کیونکہ اِس اعتقاد کی بنیاد ہی ان باتوں پر جنہیں اِس فرقے کے ارکان اسلام کے ابتدائی دور کی کچھ شخصیات کے ہاتھوں کی گئی ناانصافیاں سمجھتے ہیں۔یہ ایک انتہائی خطرناک صورتِ حال ہے کیونکہ اگر کسی مذہبی برادری کے عقیدے کا بنیادی پہلو ہی ملک کے قانون کی رو سے توہینِ مذہب قرار پائے تو اس کی وجہ سے وہ پوری برادری ہی 'دائمی توہین' کی مرتکب ٹھہرائی جا سکتی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اسد جمال اس تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں۔ دفعہ 298 اے کو تعزیراتِ پاکستان میں شامل کیے جانے کے سیاق و سباق سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد شیعہ برادری کو کمزور کرنا تھا۔ وہ کہتے ہیں: 'جس انداز میں یہ دفعہ تعزیرات کا حصہ بنی اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ دفعہ قانونی کتابوں میں جس طرح دکھائی دیتی ہے حقیقت میں اس سے کہیں مختلف ہے'۔
جرم اور ارادہِ جرم
مئی 1927 میں لاہور ہائی کورٹ نے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو ناشر راج پال کو پیغمبرِ اسلام کی توہین پر مبنی کتاب شائع کرنے کے مقدمے میں اپیل پر بری کر دیا۔ اس کتاب کا متن آریا سماج کے ارکان نے لکھا تھا جو ایک شدت پسند ہندو تنظیم تھی۔راج پال کے بری ہونے کے دو سال بعد لاہور سے تعلق رکھنے والے نوجوان علم الدین نے اسے قتل کر دیا۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ راج پال کے خلاف کیس نہیں چلایا جا سکتا کیونکہ دفعہ 298 (جس کا تعلق مذہبی جذبات مجروح کرنے کے لیے کہے گئے کلمات سے ہے) کا اطلاق صرف تقریر پر ہوتا ہے اور توہین آمیز تحریریں اس سے مبرا ہیں۔ دفعہ 153 (جو مختلف گروہوں کے درمیان عداوت کو ہوا دینے کی ممانعت کرتی ہے) کا اطلاق ایسے افراد پر نہیں ہوتا جو دنیا سے گزر چکے ہیں خواہ وہ نمایاں اسلامی ہستیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ اس لیے عدالت نے اس وقت کی حکومت سے کہا کہ وہ اس قانونی سقم کو پُر کرنے کے لیے نئی قانون سازی کرے۔
نتیجتاً سامراجی حکومت نے دفعہ 295 اے کو تعزیرات کا حصہ بنایا جس کے تحت 'کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی اعتقادات کی توہین کے ذریعے اس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے دانستہ اور عناد پر مبنی اقدامات کرنے کو' ایک جرم ٹھہرایا گیا۔ تاہم ہندوستان کی برطانوی حکومت نے واضح کر دیا کہ توہینِ مذہب اسی صورت میں جرم سمجھی جائے گی جب ایسا اقدام دانستہ طور پر کیا گیا ہو۔ مزید برآں ایسے مقدمات کسی فرد کے بجائے صرف حکومت کی جانب سے دائر کیے جائیں گے۔
جب اس قانون کا مسودہ دہلی میں قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا گیا تو محمد علی جناح اس سے مطمئن نہیں تھے۔ اگرچہ انہوں نے مذہبی منافرت کو روکنے اور مقدس مذہبی شخصیات پر حملوں کو قابلِ سزا جرائم قرار دینے کی کوششوں کا خیرمقدم کیا مگر اس کے ساتھ انہوں نے خبردار بھی کیا: 'ہمیں اس انتہائی اہم اور بنیادی اصول پر عمل کو یقینی بنانا ہو گا کہ سچائی کی تلاش میں سرگرداں اور مذہب پر خلوصِ نیت سے اور دیانت دارانہ تنقید کرنے والوں کو تحفظ مل سکے'۔
لندن سے تعلق رکھنے والے سکالر اسد علی احمد 2018 میں ہیرالڈ نامی میگزین میں پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کے موضوع پر شائع شدہ اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں ٹی اے کے شیروانی نامی مسلمان رکن نے اس وقت ایک ایسی بات کہی تھی جسے پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے اتنا عرصہ پہلے ایک سچی پیش گوئی کی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین مذہبی بنیادوں پر کشیدگی کی وجہ سے یہ قانون لایا جانا لازمی ہے مگر اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ یہ مسلمان برادری ہی کے اندر شیعوں، سنیوں اور احمدیوں میں نزاع کا باعث بن جائے۔
جب جنرل ضیا الحق نے مذہب سے متعلق نئی دفعات تعزیراتِ پاکستان میں شامل کیں تو انہوں نے یہ کام کچھ اس انداز میں کیا کہ سرے سے قانون کی کیفیت ہی بدل گئی۔ نئی دفعات کے تحت اب کسی اقدام کو توہینِ مذہب کا جرم قرار دینے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ جانتے بوجھتے اٹھایا گیا ہو۔ مذہبی شخصیات کے بارے میں کوئی بھی حقارت آمیز بات اب ایک جرم ہے خواہ وہ دانستہ طور پر کی گئی ہو یا غیر دانستہ طور پر منہ سے نکل گئی ہو۔
یہ بھی پڑھیں
گھر میں امتیازی سلوک اور باہر مذہبی تعصب کا سامنا: احمدی خواتین 'دوہرے ظلم' کا شکار۔
اگرچہ وفاقی شرعی عدالت نے 1990 میں قرار دیا تھا کہ دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ دائر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ توہینِ مذہب کا ارتکاب 'دانستہ اور نتائج سے لاپرواہ ہو کر' کیا گیا ہو۔ تاہم مذہبی قوانین کی دیگر دفعات کے لیے ابھی تک ایسی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
اس سے توہینِ مذہب سے متعلق مقدمات کی سماعت کا ڈھب سنگین طور پر متاثر ہوا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل -- جو توہینِ مذہب کے متعدد مقدمات میں وکالت کر چکے ہیں—کہتے ہیں کہ ایسے مقدمے دیگر مقدموں سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان میں یہ تعین کرنے کے لیے آزادانہ طور سے کوئی بحث یا جرح نہیں ہوتی کہ آیا ملزم کی جانب سے مبینہ طور پر کی گئی مذہبی توہین درحقیقت توہین ہے یا نہیں۔ ان کے مطابق جو بات اس صورتحال کو اور بھی پیچیدہ بناتی ہے وہ یہ ہے کہ توہینِ مذہب سے متعلق قوانین اس قدر مبہم ہیں کہ ان سے واضح طور پر تعین ہی نہیں ہوتا کہ 'توہین پر مبینی' یا 'حقارت آمیز' سے کیا مراد ہے۔
ایسے مقدمات میں عام طور پر ججوں کو اپنی جان کی فکر رہتی ہے اس لیے وہ وکلا کو توہینِ مذہب کے ملزم کے الفاظ کے تجزیے کی اجازت نہیں دیتے۔ استغاثہ کو صرف یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ملزم نے ایسے الفاظ بولے یا لکھے تھے جنہیں مدعیوں نے مبنی بر توہین سمجھا۔ اگر یہ بات ثابت ہو جائے تو پھر عدالت یہ جاننے کی زحمت نہیں کرتی کہ آیا وہ الفاظ واقعتاً توہین آمیز تھے یا نہیں اور آیا وہ کسی کے مذہبی محسوسات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر بولے گئے یا نہیں۔ اس طرح ایسے مقدمات میں مدعی ہی در حقیقت منصف بھی بن جاتا ہے۔
چونکہ قانون میں یہ چیز واضح نہیں ہے کہ حقارت یا توہین پر مبنی بات کون سی ہے اس لیے بہت سے مقدمات ایسے بھی ہیں جن میں لوگوں کو سراسر مجہول وجوہات کی بنا پر توہینِ مذہب کا ملزم بنایا گیا۔ مثال کے طور پر مئی 2014 میں جھنگ ڈسٹرک بار ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے وکلا نے اس وقت ہڑتال کر دی جب پولیس نے ایک وکیل کو حراست میں رکھنے والے پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ احتجاج کے تیسرے روز وکلا اور پولیس کے مابین ہاتھا پائی کے بعد وکیلوں نے عمر دراز نامی ایک پولیس اہلکار کے خلاف نعرے لگائے جس پر 13 مئی 2014 کو 60 سے زیادہ وکلا کے خلاف 295 اے کے تحت توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ ان کے نعروں میں عمر کا نام لیا گیا جس سے پولیس اہلکاروں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔
اسی طرح 12 دسمبر 2010 کو کراچی میں اسماعیلی شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کر کے اس پر مقدمہ درج کیا گیا۔ اس کے خلاف محمد فیضان نامی شخص نے درخواست دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر نے اس کا کاروباری کارڈ ردی کی ٹوکری میں پھینکا تھا حالانکہ اس پر محمد لکھا ہوا تھا۔
حال ہی میں 14 ستمبر 2020 کو ضلع شیخوپورہ کے علاقے مانانوالا میں ایک شخص کے خلاف متعدد سنی گروہوں کے رہنماؤں -- الیاس قادری، مفتی منیب الرحمان اور محمد احمد لدھیانوی -- کے خلاف توہین آمیز باتیں لکھنے پر دفعہ 295 اے اور 298 اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
آج ریاستی حکام بظاہر فرقہ وارانہ تنازعات میں فریق نہیں بننا چاہتے لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں ریاست اس قدر جانبدار رہ چکی ہے کہ اب وہ ایسے تنازعات کو حل کرنے میں موثر مداخلت کرنے کے قابل ہی نہیں رہی
چونکہ اب توہینِ مذہب کے جرم کا کھوج لگانے کا اختیار عدالت سے باہر عام لوگوں کے ہاتھ آ گیا ہے اسی لیے نجی جھگڑوں پر بھی ایک دوسرے کے خلاف اس قسم کے من گھڑت الزامات عائد کرنے کے واقعات پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔ جب سپریم کورٹ نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ان کے محافظ ممتاز قادری کو موت کی سزا دینے کے خلاف دائر کی گئی اپیل پر اپنا فیصلہ سنایا تو اس میں اسی صورتحال کی جانب اشارہ کیا۔ عدالت نے کہا کہ 'توہینِ مذہب کے بیشتر مقدمات کی بنیاد جھوٹے الزامات پر ہوتی ہے جو جائیداد کے جھگڑوں یا دیگر ذاتی اور خاندانی تنازعات کے نتیجے میں ایک دوسرے پر عائد کیے جاتے ہیں۔ اس کا ناگزیر نتیجہ افراد اور مذہبی برادریوں کے خلاف اجتماعی تشدد کی صورت میں نکلتا ہے'۔
دنیا بھر کے ماہرینِ قانون کے قائم کردہ انسانی حقوق سے متعلق ادارے انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (آئی سی جے) نے بھی 2015 میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ دفعہ 295 سی کے تحت توہینِ مذہب کے مقدمات کا سامنا کرنے والے نصف سے زیادہ ملزم اس لیے بری ہو جاتے ہیں کہ ان کے خلاف دائر کئے گئے یہ کیس عناد کے باعث یا ذاتی جھگڑوں کی بنیاد پر قائم کیے گئے ہوتے ہیں۔
آئی سی جے کی رپورٹ میں ایک ایسے مقدمے کا بھی تذکرہ ہے جس میں ٹرائل کورٹ نے یہ نتیجہ نکالا کیا کہ بریلوی تنظیم پاکستان سنی تحریک کے ایک عہدیدار نے اپنے درپردہ ذاتی مفاد کی خاطر ہمسایے کے ساتھ جھگڑے پر اس کے خلاف دفعہ 295 سی کے تحت شکایت درج کرائی۔ تاہم عدالت نے اس کیس میں حکام کو جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کرنے کے بجائے اپنے فیصلے کے آخر میں یہ دعائیہ کلمات لکھے کہ 'خدا انہیں مذہبی احکامات کو سمجھنے اور مستقبل میں ایسے الزامات سے بچنے کی دانش عطا کرے'۔
ریاستی ساز باز
برطانوی سامراجی حکام نے دفعہ 295 اے کو تعزیراتِ ہند کا حصہ بناتے وقت اس قانون کا غلط استعمال روکنے کے لیے اس میں یہ شرط رکھی تھی کہ کسی بھی شخص کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ صرف حکومت کی جانب سے دائر کیا جا سکے گا۔ تاہم 1980 میں جب توہینِ مذہب کے خلاف قوانین تعزیراتِ پاکستان میں شامل کیے گئے تو اس شرط کو ختم کر دیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ 21 اپریل 2000 کو انہوں نے اسلام آباد میں انسانی حقوق کے موضوع پر منعقدہ ایک کنونشن میں اعلان کیا کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کا غلط استعمال روکنے کے لیے ان کی حکومت نے ایک طریقہ کار ترتیب دیا ہے جس سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ مقدمہ درج کرنے سے پہلے ابتدائی تحقیقات ہوں اور ڈپٹی کمشنر کی جانب سے ملزم کے خلاف الزامات کی جانچ پڑتال ہو۔
اس طریقِ کار کے تحت لوگ توہینِ مذہب کے کسی مبینہ واقعے پر پولیس کو صرف اطلاع دے سکتے تھے مگر مقدمہ درج کرنے کے لیے حکام کے پاس ٹھوس شہادت کا ہونا ضروری تھا۔
یہ اعلان سنتے ہی مذہبی رہنما 8 مئی 2000 کو لاہور میں جمع ہوئے جہاں انہوں نے ملک بھر میں احتجاج کا منصوبہ بنایا۔ ایسا ہی ایک اجتماع 12 مئی کو کراچی میں ہوا جس کے شرکا نے حکومت کو ملک بھر میں ہڑتال کی دھمکی دی۔
اس اجتماع سے چار ہی دن بعد مشرف نے اعلان کر دیا کہ وہ اس طریقِ کار کو ختم کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے توہینِ مذہب کے قانون کے تحت مقدمے کے اندراج کے طریِق کار میں تبدیلی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کوئی شخص 295 سی کو تبدیل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا'۔
اس ناکام کوشش کے بعد مقدمہ درج کرنے سے پہلے توہینِ مذہب کے الزامات کی حقیقت کا جائزہ لینے کے لیے نگرانی کا کوئی ضابطہ یا حفاظتی اقدام باقی نہیں رہا۔ چونکہ قانون میں توہینِ مذہب کی واضح تشریح نہیں کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ کیس درج کرنے کے معاملے میں ضابطے کے حفاظتی اقدامات بھی موجود نہیں ہیں اس لیے اب توہینِ مذہب کے الزامات عموماً متشدد ہجوموں کو جنم دیتے ہیں۔
یہ بات رکنِ پارلیمنٹ شیری رحمان کے معاملے میں بہت کھل کر سامنے آئی۔
نومبر 2010 میں انہوں نے پارلیمنٹ میں ایک پرائیویٹ بل پیش کیا جس میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام عائد کرنے والے شخص کو مذہبی توہین سے متعلق قوانین کی انہی دفعات کے تحت سزا دی جائے جن کے تحت اس نے جھوٹا کیس دائر کیا ہو۔ نتیجتاً انہیں قتل کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں اور مذہبی تنظیموں نے اعلان کیا کہ وہ اس بل کے خلاف احتجاج کریں گی۔ شدید دباؤ کے نتیجے میں 2011 میں انہیں یہ بل واپس لینا پڑا۔
چونکہ اب توہینِ مذہب کے جرم کا کھوج لگانے کا اختیار عدالت سے باہر عام لوگوں کے ہاتھ آ گیا ہے اسی لیے نجی جھگڑوں پر بھی ایک دوسرے کے خلاف اس قسم کے من گھڑت الزامات عائد کرنے کے واقعات پہلے سے بڑھ گئے ہیں
علی عثمان قاسمی کے نزدیک توہینِ مذہب کے معاملے کو اس نہج پر پہنچانے میں ریاست کی سازباز 1980 کی دہائی سے عیاں ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ توہینِ مذہب کے مقدمات کی حالیہ لہر ایسی نہیں کہ اس کے پیچھے محض ریاست کا ہی ہاتھ ہو۔ بلکہ یہ پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد پاکستانی ریاست کی جانب سے مذہبی دھڑوں کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کا ایک پرتشدد ردِ عمل سامنے آیا۔ اس سے پہلے مذہبی طبقے کو حکومت اور ریاست کی مکمل حمایت حاصل رہی تھی۔
اگرچہ آج ریاستی حکام بظاہر فرقہ وارانہ تنازعات میں فریق نہیں بننا چاہتے لیکن علی عثمان قاسمی کے خیال میں گزشتہ چند دہائیوں میں ریاست اس قدر جانبدار رہ چکی ہے کہ اب وہ ایسے تنازعات کو حل کرنے میں موثر مداخلت کرنے کے قابل ہی نہیں رہی۔ وہ کہتے ہیں 'یہ ریاست کا تخلیق کردہ اپنا جن ہے جو بوتل سے باہر آ چکا ہے'۔
علی عثمان قاسمی کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں ہونے والی شیعہ مخالف کانفرنسیں اور ریلیاں عددی اعتبار سے بہت بڑی اور انتہائی منظم تھیں جو کہ 'ریاست کی براہِ راست یا بالواسطہ معاونت کے بغیر ممکن نہیں تھا'۔
چند شیعہ دھڑوں کی جانب سے بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
ایک نمایاں شیعہ عالم محسن علی نجفی نے 13 ستمبر 2020 کو اسلام آباد میں ایک شیعہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آصف علوی کی اس تقریر کا حوالہ دیا جس سے حالیہ دنوں میں توہینِ مذہب کے مقدمات کا آغاز ہوا ہے۔ علامہ نجفی کا کہنا تھا کہ 'ہم نے اس کی تقریر پر پابندی لگا دی تھی۔ آپ نے اسے بولنے کی اجازت دی۔ ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ آپ نے خاص طور پر ایک مجلس کا انعقاد کیا اور اس پر لاکھوں روپے خرچ کر کے اس سے یہ تقریر کروائی اور پھر اسے فوری طور پر بیرون ملک بھیج دیا'۔
یہ واضح نہیں ہے کہ علامہ نجفی کے اس بیان میں 'آپ' سے کون مراد ہے تاہم شیعہ برادری کے بعض رہنما کہتے ہیں کہ ان کا اشارہ ایک سرکاری عہدیدار کی طرف ہے جس نے آصف علوی کو اسلام آباد میں خطاب کے لیے مدعو کیا تھا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے شیعہ کارکن راشد رضوی بھی اس سے ملتے جلتے خیالات رکھتے ہیں۔ وہ حالیہ فرقہ وارانہ تنازعے کو ایک منظم سازش سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ 'کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو کام کرنے اور فرقہ وارانہ افتراق پھیلانے کی باقاعدہ اجازت دے دی گئی ہے'۔
اس معاملے میں ریاست کے مبینہ کردار کے کچھ اور اشارے بھی ملتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ دو ماہ پہلے پنجاب اسمبلی میں تحفظِ بنیادِ اسلام بل پیش کیا گیا جو اسمبلی نے تقریباً متفقہ طور پر پاس کر دیا۔ اس بل کے نتیجے میں صوبے میں اشاعتی سرگرمیوں پر کڑی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ پنجاب میں چھاپی جانے والی کتابوں اور تحریروں میں اہم اسلامی شخصیات کا تذکرہ سرکاری طور پر منظور شدہ انداز میں ہی ہونا چاہئے۔
بہت سے شیعہ علما نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس بل کو واپس لیا جائے کیونکہ ان کے مطابق یہ بل ان سے اپنے عقیدے پر عمل کی آزادی سے متعلق آئینی ضمانت چھین رہا ہے۔ وہ اسے اپنے عقیدے پر حملہ بھی سمجتے ہیں کیونکہ یہ ان سابقوں اور لاحقوں کو غیر قانونی قرار دیتا ہے جنہیں وہ عام طور پر اپنی قابلِ احترام مذہبی شخصیات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس وقت یہ بل گورنر پنجاب چودھری سرور کے پاس پڑا ہے جن کے دستخطوں کے بغیر اسے قانون کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ گورنر کا کہنا ہے کہ وہ اس بل کے مندرجات پر تمام فرقوں کا اتفاق ہونے کے بعد ہی اس پر دستخط کریں گے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 19 اکتوبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 10 فروری 2022