میاں بخش کا تعلق گاؤں مٹہ اغوان سے ہے۔ ان کا گھر پہاڑ کے دامن میں ہے جبکہ ان کے آس پاس مزید 30 گھر بھی موجود ہیں۔ ان کے گھر کے ایک جانب، نالہ مٹہ اغوان بہتا ہے جس کے ساتھ بشام کو سوات سے ملانے والی مرکزی سڑک گزرتی ہے۔ اسی پہاڑ کی اوپری جانب سوپ سٹون کی کانیں موجود ہیں جہاں کچھ عرصے سے بہت تیزی کے ساتھ مائننگ کی جا رہی ہے۔
سوپ سٹون پتھر کی قسم ہے جو کھانے کے برتنوں، چولہے اور انگیٹھیوں کی مینیوفیکچرنگ میں استعمال ہوتا ہے۔
میاں بخش اور ان کے ہمسائے اس بات سے پریشان ہیں کہ ایک طرف تو مائننگ سے پہاڑ کھوکھلا ہو رہا ہے جس سے لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب مائننز کے ٹھیکے دار ملبہ نالے میں پھینک دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے بارشوں کے دنوں میں نالے کا پانی بپھر جاتا ہے اور ملبے سمیت ان کے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔
"ہم نے بارہا مائن مالکان کو شکایت کی ہے کہ وہ ملبہ نالے میں نہ ڈالیں لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ضلعی انتظامیہ نے بھی اس حوالے سے کبھی دلچسپی نہیں دکھائی۔"
شانگلہ کے مختلف علاقوں میں گزشتہ برسوں میں مائنز کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اس وقت شانگلہ میں مجموعی طور پر 150 لائسنس یافتہ لیز دستیاب ہیں، 2010ء تک مائنز کی تعداد صرف سات تھی جن پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔
پراسپیکٹنگ لائسنس: علاقے تک رسائی، ارضیاتی نقشہ سازی اور معدنی نمونوں کی تلاش اور پرکھ کے لیے جاری کیے جاتے ہیں، لیکن اس میں لائسنس یافتہ کو معدنیات نکال کر ان کی تجارت کرنے کی اجازت شامل نہیں ہوتی ۔ اس لائسنس کو جب لیز میں بدلا جاتا ہے تو لائسنس ہولڈر معدینات کی فروخت بھی کر سکتاہے ۔
محکمہ مائن اینڈ منرل کے مطابق شانگلہ میں سب سے زیادہ پوٹاش، سوپ سٹون اور زمرد نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ تانبے، گریفائٹ، کرومائٹ، کوارٹج، ماربل، سرپینٹائن اور جیڈ کی کانیں بھی موجود ہیں۔
محمد عابد، بشام کے رہائشی ہیں، ان کا گھر ایک قدرتی نالے کے قریب واقع ہے۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے علاقے میں مائنز کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور ساتھ ہی عام لوگوں کی مشکلات بھی۔
انہوں نے بتایا کہ ٹھیکے دار کانوں سے معدنیات نکال لینے کے بعد ملبہ نالوں میں ڈال دیتے ہیں۔ سال بھر پہلے محکمہ واٹر شیڈ نے سیلاب کے پیشِ نظر حفاظتی پشتے یعنی چیک ڈیمز بنا کر ان میں ہودے لگائے تھے تاکہ برساتی نالوں کے پانی کو آبادی میں داخل ہونےسے روکا جا ئے لیکن ٹھیکے داروں نے انہیں ناکارہ بنا دیا۔
" ٹھیکے دار با اثر لوگ ہیں۔ ہم انہیں کچھ نہیں کہہ سکتے اور نہ کام رکوا سکتے کیونکہ واٹر شیڈ انتظامیہ نے بھی ابھی تک لاکھوں روپے مالیت کے چیک ڈیمز خراب کرنے کے باجود ان سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کی۔"
بشام کے نواحی پہاڑی علاقے خٹک سر کے مقامی مشر حبیب اللہ بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں پہاڑوں کو کاٹ کر سڑکیں تعمیر کی جاتی ہیں لیکن، وہ بتاتے ہیں کہ خٹک سر روڈ کے اوپر اور نیچے پہاڑ کے ہر طرف پوٹاش کے حصول کے لیے مسلسل مائننگ کی جا رہی ہے۔
"ایک وقت ایسا آئے گا کہ سڑک کھوکھلی ہو کر لینڈ سلائیڈنگ کا شکار ہو جائے گی۔"
ناصر علی نے بشام میں ٹھیکے دار سے ایک مائن لیز پر لے رکھی ہے۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کی کان سے پوٹاش نکلتا ہے جس کے روزانہ دو ٹرک پنجاب میں اٹک اور ٹیکسلا بھجوائے جاتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ پوٹاش کا استعمال کھاد بنانے، سیرامکس، واٹر کنڈیشنر ( پانی کی صفائی) اور صابن مینوفیکچرنگ میں ہوتا ہے۔
" نالوں کے سوا ہمارے پاس ملبہ پھینکنے کی کوئی اور جگہ نہیں۔"
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگ چیک ڈیمز خراب کرنے کی ذمہ داری ان پر ڈالتے ہیں تو وہ ان کی ازسر نو تعمیر کروا دیں گے۔
عبدالوہاب اورکزئی بشام شانگلہ سے تعلق رکھنے والے جیالوجسٹ ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پہاڑی علاقوں میں ہونےوالی مائننگ کا سب سے بڑا نقصان جنگلی حیات اور جنگلات کو ہوتا ہے۔
کان کنی کے اصولوں کو مدنظر نہ رکھا جائے تو قدرتی ماحول تباہ ہوسکتا ہے، جنگلات کا خاتمہ اور آبی آلودگی کے ساتھ زیر زمین پانی کی سطح میں کمی ہوجاتی ہے۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ جن علاقوں میں کان کنی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے ، وہاں پر پودے نہیں اگ سکتے، یعنی اسی کا براہ راست اثر ماحولیاتی تبدیلی پر پڑتا ہے۔
" جب بغیر فلٹر کئے ملبہ اور کیمیائی مادے نالوں میں ڈال دئیے جائیں تو پانی آلودہ ہوجاتا ہے جس میں آبی حیات نہیں پنپ سکتی۔"
عبداالوہاب بھی حد سے زیادہ مائینگ کو لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات سے جوڑتے ہیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ مقامی افراد کو روز گار جیسے فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کے محکمہ خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق کان کنی اور کان کنی کا شعبہ ملک کی قومی پیداوار میں تقریباً 1.6 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے اور تقریباً دولاکھ افراد کو براہ راست روزگار فراہم کرتا ہے ۔
لیکن یہ شعبہ کان کنی کے محفوظ اور جدیدطریقوں سے ابھی تک نابلد ہے۔
بلال احمد، بشام کے ڈویژنل فاریسٹ آفیسر ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ محکمے نے جو چیک ڈیم تعمیر کیے تھے ان کی وجہ سے سال2022ء اور2023ء میں ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں
شانگلہ میں غیرقانونی کان کنی لوگوں کی زندگی کے لیے خطرہ بن گئی، غریب آبادی بااثر ٹھیکیداروں کے سامنے بے بس
وہ مزید بتاتے ہیں کہ جو چیک ڈیم ٹھیکیداروں نے خراب کیے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائےگی کیونکہ انہوں نے ایک بار پھر علاقے کو خطرے میں ڈالا ہے۔
شانگلہ کے محکمہ مائن اینڈ منرل کے ڈائریکٹر شہاب الدین نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وہ ہر شکایت کی اپنے اہلکاروں کے ذریعے پہلے تصدیق کرتے ہیں پھر مائن کے مالک کے خلاف کارروائی۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے ہر سائٹ کا دورہ کرنا ممکن نہیں۔
’’مائنز کے لیے لائسنس جاری کرنے سے پہلے بیشتر صورتوں میں سائٹ کا معائنہ کیا جاتا ہے اور بعض صورتوں میں نہیں بھی ہوتا، کیونکہ ہمارے پاس سٹاف کی کمی ہے۔ ضلع بھر میں محض چار گارڈ ہیں، وہ بھی غیر تربیت یافتہ۔"
شہاب الدین بتاتے ہیں کہ گارڈز مائننگ کی درست انسپیکشن نہیں کر سکتے، تاہم بقول ان کے لیز ہولڈرز کو خبردار ضرور کیا جاتا ہے کہ وہ قریبی آبادی اور ماحول کو نقصان نہ پہنچائیں وگرنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
خیبرپختونخوا مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2017ء کے تحت لیز ہولڈر معدنیات کی تلاش یا کان کنی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ملبے کو محفوظ طریقے سے تلف کرنے کا پابند ہے۔ خلاف ورزی پر اسے 20 ہزار روپے جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔
لوک سجاگ نے بشام کے اسسٹنٹ کمشنر محمد عدنان سے مائننگ سے ماحول کو نقصان پہنچانے والوں کے بارے لائحہ عمل سے متعلق پوچھنے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ بشام میں کانیں بھی موجود ہیں۔
البتہ انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ علاقے کا وزٹ کر کے ماحول کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔
تاریخ اشاعت 18 مئی 2024