حیدرآباد سے 15 کلومیٹر میرپور خاص روڈ پر جائیں تو ٹنڈو جام شہر کے ساتھ سندھ زرعی یونیورسٹی نظر آتی ہے جہاں تقریباً ایک ہزار 800 طالبات سمیت آٹھ ہزار سٹوڈنٹس زیر تعلیم ہیں۔ ان طالب علموں کو پڑھانے کے لیے یہاں لگ بھگ 300 اساتذہ تعینات ہیں جن میں 60 کے قریب لیڈی ٹیچر شامل ہیں۔
ڈاکٹر ریحانہ(فرضی نام)، گھنے درختوں اور پھولوں کے بیچوں بیچ واقع یونیورسٹی کے اس مرکزی کیمپس میں ناصرف 19 سال سے پڑھا رہی ہیں بلکہ ایک ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ اور جامعہ کے سب سے بڑے فیصلہ ساز فورم 'سینڈیکیٹ' کی ممبر بھی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ انہیں یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیم (سندہ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن) کے واٹس ایپ گروپ میں صنفی شناخت کی وجہ سے ہراس کیا گیا۔
ایسا کرنے والے کوئی اور نہیں، ان کے اپنے ساتھی اور ریاضی کے پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ تنیو ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ واٹس ایپ گروپ میں 180 سے زیادہ مرد و خواتین اساتذہ شامل ہیں جن میں ٹیچرز یونین کی کارکردگی پر بحث ہو رہی تھی کہ ڈاکٹر امان اللہ نے انہیں (ڈاکٹر ریحانہ کو ) مخاطب کر کے سندھی زبان میں سخت قابل اعتراض جملے تحریر کیے۔
"توھان جو اخلاق توھان جی لفظن مان ظاھر تھئی تھو تہ توھان کیترا باکردار آھیو۔ ان مان ظاہر تھئی تو تہ توھان جون باقی۔۔۔۔۔ایکٹویٹیز چھا ھوندیون (آپ کے اخلاق اور الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کتنی باکردار ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی دیگر۔۔۔۔ سرگرمیاں کیا ہوں گی)۔"
پروفیسر ریحانہ نے عامیانہ زبان کے استعمال اور اپنی کردار کشی کرنے پر چھ نومبر کو ڈاکٹر امان اللہ کے خلاف شکایت پر مبنی درخواست بمع شواہد وائس چانسلر(وی سی) پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری کے پاس جمع کرا دی۔ ساتھ ہی اساتذہ تنظیم سے بھی اس رویے کی مذمت کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے وی سی کو لکھا ہے کہ ڈاکٹر امان اللہ نے انہیں بدنام کیا ہے جو کام کی جگہ پر ہراسانی کے زمرے میں آتاہے۔ لہٰذا 'پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ ہراسمنٹ ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2010ء' اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)کی پالیسی کے تحت ملزم کے خلاف کارروائی کی جائے۔
مگر انہیں شکوہ ہے کہ ابھی تک نہ تو ان کی درخواست پر کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے اور نہ ہی اساتذہ تنظیم نے اس رویے کی مذمت کی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ جیسے سب نے ان کے خلاف اتحاد کر رکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے 14مارچ 2023ء کو پاکستان ٹیلی وژن کی ملازمہ نادیہ ناز کے کیس میں اپنے فیصلے میں قرار تھا کہ 2010ء کے قانون کے مطابق ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ عزت و وقار کے ساتھ کام کرے۔ آئین کا آرٹیکل 14 بھی اس حق کی ضمانت دیتا ہے۔
فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک لکھتی ہیں کہ کام کی جگہ پر ہراسانی عورت کے عوامی زندگی کے حق، اس کے وقار کے حق اور سب سے اہم اس کے مساوی سلوک کے بنیادی حق کو نقصان پہنچاتی ہے۔
"کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی صرف جسمانی قربت یا جنسی صورتوں کے بارے میں ہی نہیں ہے بلکہ اس میں جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک بھی شامل ہے۔"
سندھ زرعی یونیورسٹی کے ریکارڈ کے مطابق 11 ستمبر 2024ء کو ایڈیشنل رجسٹرار نے ایک آفس آرڈر جاری کیا جس کے تحت ایچ ای سی کی پالیسی کے مطابق اس ادارے میں ہراساں کیے جانے کی شکایات کی انکوئری کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی۔
کراپ پروڈکشن فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر کواس کمیٹی کا کنوینر، پروفیسر ڈاکٹر ناہید اختر ٹالپر اور ڈاکٹر اعجاز حسین سومرو کو ممبر نامزد کیا گیا۔ مرد سٹاف ممبران کی شکایات وصول کرنے کے لیے یونیورسٹی رجسٹرار جبکہ خواتین کے لیے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کویتا تبسم کو فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر ریحانہ نے یونیورسٹی کی اس کمیٹی کو اپنی درخواست نہیں دی بلکہ وی سی کے پاس جمع کرائی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کمیٹی میں شکایتوں کا کبھی ازالہ نہیں ہوا۔
"میرا تجربہ ہے کہ کمیٹی ملزم کے خلاف تحقیقات کے بجائے متاثرہ کو معاملہ رفع دفع کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہاں سے آج تک کوئی کیس سینڈیکیٹ میں رپورٹ نہیں ہوا اور نہ کمیٹی نےکبھی کسی ملزم کے خلاف کوئی سزا تجویز کی ہے۔"
انکوائری کمیٹی کے سربراہ بھی تصدیق کرتے ہیں کہ زرعی یونیورسٹی میں اب تک کبھی کسی کو سزا نہیں ہوئی۔
"ایسی شکایات اکثر ذاتی یا سیاسی رنجش کی بنیاد پر کی جاتی ہیں جن کو ہم کھنگالتے ہیں اور شواہد دیکھتے ہیں۔اس کے بعد ضوابط اور پالیسی کے مطابق جانچ کو مزید آگے بڑھاتے ہیں جس کی ابھی تک ضرورت پیش نہیں آئی۔"
وائس چانسلر ڈاکٹر فتح محمد مری، ڈاکٹر ریحانہ کی شکایت ملنے کی تصدیق کرتے ہیں۔
"میں نے متاثر خاتون کی درخواست تحقیقات کے لیے پہلے روز ہی انکوائری کمیٹی کو بھیج دی تھی۔ ہمارے پاس جنسی ہراسانی کو برداشت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ کمیٹی کا جو بھی فیصلہ اور تجاویز ہوں گی ان پر عمل کیا جائے گا۔"
لیکن درخواست ملنے کے سات دن بعد جب وی سی سے دوبارہ پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ واقعے کو ابھی تین روز ہوئے ہیں اور انکوائری کمیٹی اپنا کام کر رہی ہے۔
تاہم کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر، وی سی کے موقف کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے بقول کمیٹی کو وائس چانسلر کی جانب سے ایسی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔
"ہمارے پاس ڈیڑھ ماہ سے ایک ہی شکایت کی انکوائری چل رہی ہے جو ایک طالبہ کی طرف سے یونیورسٹی کے ملازم کے خلاف شکایت پر مبنی تھی۔ اس میں بھی کوئی شواہد نہیں ملے۔"
وائس چانسلر طالبہ کی شکایت سے بھی لاعلم تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوکل پرسنز کے پاس گزشتہ دو سال میں ایک بھی شکایت نہیں آئی اور نہ ہی انکوائری کمیٹی کے پاس کوئی ایسا معاملہ آیا ہے۔
ڈاکٹر ریحانہ بتاتی ہیں کہ ان کی یونیورسٹی میں ہراسانی کے کیسز کو دبانا روایت بن چکی ہے۔ متاثرہ طالبات و خواتین اساتذہ کو بدنامی سے ڈرایا جاتا ہے اور شکایت کو انکوائری کمیٹی تک جانے نہیں دیا جاتا۔ کوئی نہ ڈرے تو منت سماجت سے شکایت خارج کرا دی جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ آئی ٹی کی ایک خاتون لیکچرر کو تین ماہ پہلے ایک فیکلٹی ممبر نے فون پر ہراساں کیا۔ جب وی سی کے پاس شکایت لےکر گئیں تو انہوں نے صلح کرانے کے نام پر معاملہ رپورٹ نہیں کرنے دیا۔
"میرا کیس منت سماجت سے دبائےکے لیے کچھ لوگ نے رابطہ کیا اور میرے سر پر اجرک بھی ڈالی گئی تاکہ معاملہ ختم کر دوں مگر میں انصاف چاہتی ہوں۔"
پالیسی میں 'یونیورسٹی کے ملازمین کا مس کنڈکٹ' کے عنوان کے تحت دیے گئے سات نکات میں سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ طالبات، خواتین اساتذہ اور دیگر خواتین ملازمین کے ساتھ عامیانہ (vulgar) زبان کا استعمال جنسی ہراس جیسے جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
ساتویں نکتے میں کہا گیا ہے کہ طالبات، خواتین اساتذہ و دیگر خواتین ملازمین کی کردار کشی اور انہیں بدنام کرنا بھی جرم ہے۔ وہ چاہے ای میل کے ذریعے ہو، بےنام خط یا پمفلیٹ کی صورت میں ہو۔
خاتون پروفیسر کی شکایت ان دونوں نکات پر پوری اترتی ہے۔
ملیحہ حسین، مہرگڑہ سنٹر اسلام آباد کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں جو سرکاری و نجی اداروں میں کے ملازمین کو جنسی ہراس کے خلاف قانون پر عملدرآمد کی تربیت دیتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ایچ ای سی کی پالیسی میں واضح ہے کہ شکایت 24 گھنٹے کے اندر متعلقہ کمیٹی تک پہنچنی چاہیے، انکوائری مکمل کرنے کی مدت 30 دن ہے اور کمیٹی جو تجویز کرے گی اس پر سات دن میں عمل کرانا ہو گا۔
سندھ زرعی یونیورسٹی کی ویب سائٹ اور نوٹس بورڈ پر کہیں ہراسگی کے متعلق پالیسی موجود نہیں۔ اس پر وی سی ڈاکٹر مری کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں داخلے کے بعد ہونے والی تعارفی تقریب میں بچوں کو پالیسی کے متعلق آگاہی دی جاتی ہے اور دیگر مواقع پر بھی پالیسی کا بتایا جاتا ہے۔
جرنل آف ایشین سٹیڈیز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 2019ء سے 2023ء تک پاکستانی سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ کو ہراسگی کی کل 20 ہزار741 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 16 ہزار981 اعلیٰ تعلیمی اداروں سے جڑے افراد کی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں
'ہراس کے خلاف آواز اٹھائی تو نوکری سے نکال دیا گیا' فیصل آباد میں خواتین ٹیکسٹائل ورکر جنسی بدسلوکی کے سامنے بے بس
جبکہ وفاقی محتسب کو اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ایک سال(2019ء) کے دوران ہراسگی کی ایک ہزار 140 شکایات وصول ہوئیں جن میں سے 500 پنجاب، 391 اسلام آباد ، 132 سندھ، 80 خیبر پختونخواہ اور 32 بلوچستان سے ملی تھیں۔
ڈاکٹر ریحانہ نے اپنی یونیورسٹی میں بعض اساتذہ کے رویوں کے حوالے سے بتایا کہ ایک بار وہ بطور صدارتی امیدوار یونین کا الیکش لڑ رہی تھیں۔ ووٹ مانگنے پر ایک پروفیسر نے انہیں کہا کہ جب تک وہ سر پر دو پٹا نہیں لیں گی وہ انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔
"میری ہراسگی والی درخواست کے بعد سے اساتذہ کے واٹس ایپ گروپ میں سارا دن یہی مواد شیئر ہوتا ہے کہ پردے کی اہمیت کیا ہے اور نیک عورت کیسی ہوتی ہےَ؟ صرف مجھے ہراساں کرنے کے لیے، یہ ہے ذہنیت۔"
خاتون پروفیسر کا کہنا ہے کہ زرعی یونیورسٹی صوبے میں جنسی ہراس کا' کیپیٹل' بن چکی ہے جہاں یہ واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں مگر رپورٹ نہیں کرنے دیے جاتے۔
ان کے بقول وہ اب وفاقی محتسب کے پاس شکایت کریں گی اور اپنا قانونی حق استعمال کر کے طالبات کے لیے مثال قائم کریں گی۔
تاریخ اشاعت 16 نومبر 2024