میاں ادیب گوجرانوالہ کے علاقے نوشہرہ سانسی کے رہائشی اور پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔وہ ایک سال کے دوران لوگوں کی لگ بھگ 30 جائیدادوں کے سودے کرا چکے ہیں لیکن اپنا مکان بیچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
یہ مکان میاں ادیب کو ورثے میں ملا تھا جس میں وہ اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ گھر کی فروخت صرف انہی کے لیے مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس محلے میں رہنے والے بیشتر لوگ اپنے مکان بیچنا چاہتے ہیں لیکن کوئی خریدار ہی نہیں مل رہا اور اگر کوئی آتابھی ہے تو گھر کی اتنی کم قیمت لگاتا ہے کہ سن کر مالک مکان کو غصہ آ جائے۔
میاں ادیب بتاتے ہیں کہ نوشہرہ سانسی اور گردونواح میں ڈھلائی کی بھٹیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی اور شور نے مکینوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔بعض لوگ اپنے گھر اونے پونے بیچ کر اس علاقے سے جا چکے ہیں اور بعض نے شہر کے باہر مکان بنا کر یہاں اپنے گھر کرائے پر دے دیے ہیں۔ مگر کرایہ دار بھی اس علاقے میں زیادہ عرصہ نہیں رہ پاتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں ڈھلائی کی بھٹیوں کی تعداد سیکڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ بعض لوگوں نے بھٹیوں کے خلاف قانونی جنگ لڑی اور چند یونٹ سیل بھی کرائے۔ لیکن یہ یونٹ دوبارہ ڈی سیل ہو گئے۔
ہم میونسپل کارپوریشن اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں ؟ اگر کارروائی کریں تو بھٹی مالکان عدالت کا آرڈر لے آتے ہیں"
گوجرانوالہ ملک میں سکریپ کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ یہاں روزانہ پیتل، سلور، تانبے اور لوہے سمیت مختلف دھاتوں کا کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔
امریکہ ، کینیڈا اور یورپی ممالک سے روزانہ سکریپ کے بیسیوں کنٹینر یہاں لائے جاتے ہیں جو ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں اور ان سے موٹریں، کمپریسر و دیگر سکریپ نکال کر ڈھلائی کی بھٹیوں کو فروخت کردیا جاتا ہے۔
اندرون شہر میاں سانسی روڈ ، کھیالی ، نوشہرہ سانسی ، شیخوپورہ روڈ ، اسد کالونی، کوہلو والا اور بائی پاس روڈ کے علاقوں میں ڈھلائی کی سیکڑوں بھٹیاں اور فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں جن میں دھاتیں پگھلائی جاتی ہیں۔ بھٹیوں سے اس قدر دھواں اور آلودگی پیدا ہوتی ہے کہ سانس لینا دشوار ہوتا ہے۔
میاں ادیب کہتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ ، میونسپل کارپوریشن اور محکمہ ماحولیات کی ٹیمیں وقتا فوقتاً یہاں کارروائی کرتی رہتی ہیں۔ لیکن اسے محض خانہ پری اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہی قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کبھی کوئی فیکٹری مستقل بند ہوئی نہ ہی ماحولیاتی آلودگی میں کمی آسکی ہے۔
شیخ ضیاء الحق گوجرانوالہ ایوان صنعت و تجارت کے صدر ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ صنعت کار کو ڈھلائی کی فیکٹری یا بھٹی لگانے سے پہلے سات سرکاری اداروں سے این او سی لینا پڑتا ہے۔ اگر این او سی نہ لیا ہو تو تھانے میں مقدمہ بھی درج ہوسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب یہ یونٹ لگائے گئے اس وقت یہاں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اب شہری آبادی پھیل گئی ہےتو فیکٹری و ڈھلائی مالکان کا کیا قصور۔
"سکریپ اور ڈھلائی گوجرانوالہ کے بڑے کاروباروں میں سے ایک ہے۔ یہاں روزانہ کم از کم 25کروڑ کا بزنس ہوتا ہے اور لاکھوں روپے ٹیکس آتا ہے۔اس کاروبار سے ہزاروں افراد وابستہ ہیں۔ بیروزگاری پہلے ہی عام ہے ایسے میں سرکاری اداروں کی ناجائز کارروائیوں کی حمایت نہیں کرسکتے۔"
ماہر امراض جلد ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چیمہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس سب سے زیادہ مریض ڈھلائی یونٹوں والے علاقوں سے آرہے ہیں ۔لوہا ، پیتل اور دیگر دھاتیں پگھلنے سے پیدا ہونے والی آلودگی کے سبب یہ لوگ جلد، سانس اور جگر کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ڈھلائی کے کام میں پیدا ہونے والا دھواں بہت خطرناک ہوتا ہے۔ یہ صرف اسی علاقے کے لوگوں کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ اس کے اثرات کئی کلومیٹر تک جاتے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ فیاض احمد موہل بتاتے ہیں کہ شہری حدود کے اندر لگ بھگ ڈیڑھ ہزار ڈھلائی یونٹ یا فیکٹریاں کام کررہی ہیں۔ ان میں چمنیاں نہ لگانے یا قوانین کی دیگر خلاف ورزیاں کرنے والوں کے خلاف ضلعی انتظامیہ اور محکمہ ماحولیات مشترکہ کارروائیاں کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انڈسٹرل اسٹیٹ ٹو میں بڑا آپریشن کرکے 12 فیکٹریاں سیل کی گئی ہیں اور25 بھٹیاں کرین سے مسمار کردی گئی ہیں۔ ان میں آلودگی کنٹرول کرنے والے آلات نہیں لگائے تھے ۔ 50 فیکٹریوں کو وارننگ نوٹس بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر کہتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ نے ایمن آباد روڈ کے علاقے میں انڈسٹریل زون بنانے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔ وہاں رہائشی آبادی بھی نہیں ہے۔ تمام ڈیڑھ ہزار فیکٹریوں و بھٹیوں کو شہر سے باہر اسی زون میں منتقل کردیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں
'بے خوابی اور ڈپریشن کی مریضہ بن چکی ہوں': سیالکوٹ کے رہائشی علاقوں میں آلات جراحی بنانے والی فیکٹریاں شہریوں کے لیے وبال جان بن گئیں
ماحولیاتی قوانین کے ماہر سید خالد جاوید بتاتے ہیں کہ پنجاب میں 'تحفظ ماحولیات ایکٹ' 1997 ء سے نافذالعمل ہے۔اس قانون کا مقصد ماحول کی بہتری ، آلودگی کی روک تھام اور پائیدار ترقی کو فروغ دینا تھا۔
"ماحولیاتی ایکٹ کی شق 3کے مطابق فضائی آلودگی سے مراد ایسا مواد پھیلانا ہے جو ہوا میں آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ اس میں دھواں ، دھول کے ذرات ، بدبو ، حرارت ، مضرصحت روشنی ، برقی مقناطیسیت ، تابکار مادہ یا تابکاری اور زہریلی گیسیں وغیرہ شامل ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ اس قانون کے تحت ماحولیاتی ٹریبونل مقرر کیا جاتا ہے جو مجسٹریٹ درجہ اول پر مشتمل ہوتا ہے۔یہ ٹریبونل قانون کی خلاف ورزی کے مرتکبین کو پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ اور تین سال تک قید کی سزا سنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ فیکٹری بند کرنھے اور مشینری و سامان ضبط کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ماحولیات کا قانون تو موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد نظر نہیں آتا۔ آلودگی پھیلانے پر ایک دو روز کے لیے فیکٹری سیل تو کردی جاتی ہے تاہم مالک کو قید کی سزا نہیں ہوتی۔ سرکاری محکموں کا فیکٹری مالکان سے مبینہ 'مک مکا' بھی چلتا رہتا ہے اسی لیے قانون کے ٹھوس نتائج سامنے نہیں آتے۔
تاریخ اشاعت 3 اگست 2023