بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ: خیرپور کی بستی مہیر ویسر کا سرکاری سکول تین ماہ سے زیر آب، بچوں کی تعلیم چھوٹ گئی

postImg

کلیم اللہ

postImg

بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ: خیرپور کی بستی مہیر ویسر کا سرکاری سکول تین ماہ سے زیر آب، بچوں کی تعلیم چھوٹ گئی

کلیم اللہ

سندھ کے ضلع خیرپور کے صدر مقام سے 65 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع شہر ٹھری میرواہ کے 12 سالہ عبدالحسیب اگست میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے اب تک سکول نہیں جا سکا۔ 

وہ اپنے گاؤں شیر خان کُبر سے تین کلومیٹر دور، مہیر ویسر میں علاقے کے واحد سرکاری سکول، گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول، میں ساتویں جماعت کے طالب علم ہے۔ سیلاب آنے سے پہلے وہ اپنے گاؤں کے دوسرے بچوں کے ساتھ سوزوکی وَین میں سکول جاتا تھا لیکن اب اس پورے علاقے میں تقریباً آٹھ فٹ پانی کھڑا ہے جسے کشتی کے ذریعہ ہی عبور کیا جا سکتا ہے اور بچوں کو سکول پہنچانے کے لئے کشتی دستیاب نہیں ہے۔ 

سیلاب میں لوگوں کے گھر بہہ گئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی تمام آبادی خیمہ بستی میں منتقل ہو چکی ہے۔ اس صورتِ حال میں عبدالحسیب کے گاؤں کے تمام بچوں کا تعلیمی سلسلہ معطل ہو چکا ہے۔ 

اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والا 16 سالہ امجد علی دسویں جماعت کے طالب علم ہے۔ وہ اپنے آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ دسویں جماعت کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر کے کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا لیکن اسے اپنا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ 

سندھی زبان میں بات کرنے والا امجد علی کہتا ہے کہ اسے اگلے سال مارچ میں بورڈ کا امتحان دینا ہے لیکن وہ پچھلے چار ماہ سے پڑھائی ہی نہیں کر سکا۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے گاؤں سے سیلابی پانی نکالنے کا فوری انتظام کیا جائے یا سکول تک پہنچنے کے لئے کشتیاں مہیا کی جائیں تاکہ وہ اپنا تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کر سکے۔

شیر خان کُبر سے مہیر ویسر کی جانب کشتی میں سفر کرتے ہوئے تمام علاقہ پانی میں ڈوبا دکھائی دیتا ہے۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ چار ماہ پہلے یہاں کپاس کے لہلہاتے کھیت اور کیلے کے باغات تھے لیکن اب یہ علاقہ ایک جھیل کا منظر پیش کر رہا ہے۔ مہیر ویسر میں ہائر سیکنڈری سکول کی عمارت بھی سیلابی پانی میں ڈوبی ہوئی ہے جس کے اترنے کا فی الوقت کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا اور نہ ہی انتظامیہ کے پاس اس پانی کو نکالنے کا کوئی انتظام ہے۔ 

شکستہ چھت میں پرندوں کو جب ٹھکانہ ملا

اس علاقے میں مقامی لوگوں نے ڈیڑھ ماہ پہلے اپنی مدد آپ کے تحت ایک ایسی جگہ پر عارضی سکول قائم کیا ہے جہاں سے پانی نکل چکا تھا۔ ایک گھر میں قائم کئے جانے والے اس سکول میں تمام بچے ایک شامیانے تلے زمین پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اس عارضی انتظام میں بچوں کے لئے الگ کمرہ جماعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انہی بچوں میں شامل چھ سالہ ملائکہ شکایت کرتی ہے کہ وہ سیلاب کی وجہ سے تین ماہ بعد سکول آئی ہے ’’لیکن یہاں نہ تو بیٹھنے کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی بیت الخلا اور پینے کے پانی کی سہولت میسر ہے۔‘‘ اس کا کہنا ہے کہ اس سکول میں کھیل کا میدان بھی نہیں ہے اس لئے وہ بمشکل یہاں وقت گزار پاتی ہے۔

سکول کے ہیڈ ماسٹر رسول بخش کہتے ہیں کہ ان کے سکول کے گیارہ سو میں سے تقریباً چار سو بچے ہی اس عارضی سکول میں آ رہے ہیں ’’کیونکہ کشتیوں کی سہولت میسر نہ ہونے کے باعث باقی بچوں کے لئے یہاں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔‘‘ ان کے مطابق عارضی سکول میں پانی، بیت الخلا اور فرنیچر نہ ہونا بھی بڑی تعداد میں بچوں کی غیر حاضری کا ایک بڑا سبب ہے کیونکہ ان سہولیات کی غیر موجودگی میں خواتین اساتذہ اور بچیوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔

رسول بخش بتاتے ہیں کہ عارضی سکول 26 اکتوبر کو کھولا گیا تھا جس کے بعد اب تک تین سو سے زائد بچے ان سے سکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ لے چکے ہیں کیونکہ بہت سے لوگ ان متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ان کے سکول میں پچاس فیصد بچوں کا تعلق آس پاس کے دیہات سے ہے جو راستے بند ہونے اور کشتیاں میسر نہ ہونے کے باعث عبدالحسیب اور امجد علی کی طرح پڑھائی سے محروم ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بارہا مقامی انتظامیہ سے درخواست کی کہ ان کے علاقے اور سکول سے پانی نکالا جائے لیکن تاحال اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

یونائیٹڈ نیشنز آفس فار دا کوارڈی نیشن آف ہیومینیٹیرین افیئرز (OCHA) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آنے والے سیلاب کے باعث ملک بھر میں 35 لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔ 20 اکتوبر 2022 تک کے اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے ملک بھر میں 26 ہزار چھ سو بتیس سکول مکمل یا جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ 

رسول بخش کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں تمام سکول سیلاب میں ڈوب چکے ہیں جن میں زیرِ تعلیم ہزاروں بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت سیلاب زدہ علاقوں میں کھڑا پانی نکالنے کا فوری انتظام کرے یا بچوں کو سکول تک پہنچانے کا کوئی مؤثر بندوبست ممکن بنایا جائے۔

تاریخ اشاعت 26 نومبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کلیم اللہ نسلی و علاقائی اقلیتوں کو درپیش مخصوص مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی لاہور سے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس آنرز کیا ہے۔

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.