ضلع کرک کے گاؤں گرگری کے ولسن سکول میں دوسری جماعت کی طالبہ عائشہ جمیل کو ایک دن اپنے چہرے پر تکلیف محسوس ہوئی۔ اگلے روز ان کے گال پر ایک پھوڑا بن گیا۔ ان کی والدہ نے اسے عام پھنسی سمجھ کر نظرانداز کیا اور سکول بھیج دیا۔ سکول میں انہیں اپنے محلے کی چند دوسری طالبات کے چہروں اور ہاتھوں پر اسی طرح کے پھوڑے دکھائی دیے۔
گھر واپسی پر ان کے والد جمیل الرحمان بیٹی کو تکلیف میں دیکھ کر مقامی ہسپتال لے گئے۔ وہاں چہرے پر ایسی ہی علامتوں والے دیگر بچے بھی اپنے والدین کے ساتھ موجود تھے۔ ہسپتال میں عائشہ کو لشمینیا نامی بیماری کے علاج کے لیے انجیکشن لگایا گیا اور دوسری خوراک کے لیے تین دن بعد آنے کو کہا گیا۔
لشمینیا سینڈ فلائی نامی مکھی کے کاٹنے سے لاحق ہونے والا مرض ہے۔ یہ مکھی عام طور پر مئی سے اگست تک فعال ہوتی ہے اور خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں پچھلے چند برسوں کے دوران ان مہینوں میں اس بیماری کے بہت سے کیس سامنے آ رہے ہیں۔
ہر سال پہلے اس بیماری کے اکا دکا مریض سامنے آتے ہیں اور پھر یہ وبائی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس مرتبہ لشمنینیا کا آغاز تحصیل بانڈہ داؤد شاہ کے گاؤں اوربشی اور گرگری سے ہوا ہے جہاں درجنوں بچے اور خواتین اس بیماری سے متاثر ہو چکے ہیں۔
سینڈ فلائی چھوٹی سی مکھی ہے جو تین یا چار فٹ سے زیادہ بلند پرواز نہیں کر سکتی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مکھی افغانستان سے آنے والے خانہ بدوش قبائل کے مال مویشیوں کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقوں تک پہنچتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اور افغانستان کی سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے اضلاع کئی برسوں سے لشمینیا کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔
معالجین کی بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق اس نے 2022ء میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے متاثرہ اضلاع میں پانچ ہزار 974 مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی ہیں۔
ملک میں لشمینیا کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے گلوکن ٹائم انجیکشن کا بندوبست عالمی ادارہ صحت اور اور ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کر رہے ہیں۔
دونوں اداروں کے مطابق کچے یا بغیر پلستر اینٹوں کے مکانات اور ایسی جگہیں سینڈ فلائی کی آماجگاہ بن سکتی ہیں جہاں مویشی پائے جاتے ہیں یا ان کا فضلہ پڑا ہوتا ہے۔
اوربشی اور گرگری ضلع کرک کے دور افتادہ گاؤں ہیں۔ وہاں زیادہ تر آبادی کچے مکانات میں رہتی ہے اورصفائی کی سہولیات نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ حالات اس مکھی کی افزائش میں معاون ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق بروقت علاج نہ ہونے پر مریض کے چہرے پر مکھی کے کاٹے سے بننے والے زخم کے نشانات رہ جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مناسب علاج نہ ہو تو مریض کے ہاتھوں یا پیروں سے معذور ہونے کا امکان ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ اس مکھی کے کاٹنے کے بعد بیماری کی علامات تین ہفتوں سے تین ماہ کے درمیان ظاہر ہوتی ہیں۔
خیبرپختونخوا میں اس کا علاج مخصوص وقفوں میں انجیکشن لگا کر کیا جا رہا ہے۔ مقامی سطح پر دوا کی عدم دستیابی پر مریض کو طویل اور کٹھن سفر بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس صورت میں بعض مریضوں کا علاج ادھورا رہ جاتا ہے۔
تحصیل ہسپتال بانڈہ داؤد شاہ کے ڈاکٹر ذوالقرنین کا کہنا ہے کہ بعض مریض انجیکشن کی دو خوراکیں لگانے سے ٹھیک ہو جاتے ہیں اور بعض کو تین لگانی پڑتی ہیں۔
سول ہسپتال گرگری کے لیبارٹری انچارج محمد اسرار نے بتایا کہ پچھلے کئی برس سے انہی دنوں میں یہ بیماری پھیل جاتی ہے۔ زیادہ تر بچے اور خواتین اس کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں یہ مکھی جسم کے کھلے حصوں، چہرے، بازوؤں اور پنڈلیوں پر کاٹتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مریضوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر انجیکشن کم پڑ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک دن میں اس بیماری کے بیس مریض ہسپتال میں آئے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
ضلع کرک میں لشمینیا کے لیے سرکاری فوکل پرسن ڈاکٹر اسد ظہور کا کہنا ہے کہ انتظامیہ گرگری ہسپتال سے روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹس لیتی اور انجیکشن بھجواتی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر بانڈہ داؤد شاہ سے بھی بات کی جا چکی ہے جنہوں نے اُن علاقوں میں اے آر ایس سپرے کی یقین دہانی کرائی ہے جہاں بیماری کے زیادہ واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سپرے سے مریضوں کی تعداد میں کمی آئے گی۔
یہ بھی پڑھیں
''دوا نہ ملی تو ہمارے بچوں کے چہرے داغ دار ہو جائیں گے''
یونین کونسل ٹیری کے چیئرمین محمد سجاد بتاتے ہیں کہ تحصیل بانڈہ داؤد شاہ کے گاؤں گرگری کے بعد ٹیری کو بھی اس بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ روزانہ درجنوں مریض سول ہسپتال ٹیری میں رجسٹرڈ ہو رہے ہیں۔ بیماری کی روک تھام کے لیے سپرے کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ٹی ایم او اور اسسٹنٹ کمشنر سے بات ہو چکی ہے مگر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
یہ سپرے مچھروں اور سینڈ فلائی سمیت کئی خطرناک کیڑے مکوڑوں کو مار دیتا ہے۔
انجیکشن کی ناکافی مقدار کے بارے میں سوال پر اسد ظہور کا کہنا تھا کہ انہیں صوبائی سطح پر جتنی مقدار دی جاتی ہے اسی کو آگے بھجوا دیا جاتا ہے اور ہر ضلعے کو اس کے کوٹے کے مطابق فراہمی کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر صوبائی محکمہ صحت سے ضلع کرک کے لیے اضافی انجیکشن بھجوانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اضافی تعداد کی فراہمی کے ساتھ یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔
گرگری کی 'اصلاحی تنظیم' کے سربراہ میر خان کہتے ہیں کہ ہسپتال انتظامیہ اپنی طرف سے مکمل تعاون کر رہی ہے مگر بیماری سے متاثرہ مریض زیادہ ہیں اور انجیکشن عام مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب نہیں اس لیے اس مرض پر قابو پانے میں مشکل ہو رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے چند برس میں اس انجیکشن کی قیمت 375 روپے سے بڑھ کر 2000 روپے تک پہنچ گئی ہے جو غریب آدمی کی استطاعت سے باہر ہے۔
تاریخ اشاعت 15 اگست 2023