دریائے راوی کے کنارے واقع ڈیرہ نور نامی جگہ پر جامن کے درخت کے نیچے بیٹھے کسان مغل سلطنت کے خلاف بغاوت کرنے والے پنجابی ہیرو دُلا بھٹی کو یاد کر رہے ہیں۔ پولیس نے گزشتہ رات مختلف قریبی دیہات سے پانچ کسانوں کو گرفتار کیا ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ ان میں سے کون دُلا بھٹی کی طرح اس ریاستی اقدام کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے۔
ان کی نظر میں یہ کام ایک بھٹی ہی کر سکتا ہے اس لئے اسے انجام دینے کے لئے وہ نذیر عرف باؤ بھٹی کو ایک مناسب امیدوار سمجھتے ہیں ۔
لیکن ضلع شیخوپورہ کی تحصیل فیروز والا کے ایک تھانے میں قید باؤ بھٹی کی ساٹھ سالہ زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہ گرفتار ہوئے ہیں۔ وہ اس بات پر پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کی پانچ بیٹیاں کس قدر فکر مند ہوں گی۔
گول نامی گاؤں کے رہائشی باؤ بھٹی کو پولیس نے 15 اور 16 جون 2021 کی درمیان رات ان کے گھر سے گرفتار کیا۔ وہ کہتے ہیں: ”جب چار گاڑیوں پر سوار پولیس والوں نے میرے گھر پر چھاپہ مارا اور دروازے توڑ کر مجھے گرفتار کیا تو میری بیٹیاں چیختی رہ گئیں“۔
پولیس نے اس رات اسی طرح کا چھاپہ ڈیرہ نور میں سلیمان سجاد وڑائچ نامی زمیندار کی گرفتاری کے لئے بھی مارا اور ان کے گھر کی دیواریں پھلانگ کر اور دروازے توڑ کر ان کے بیٹے فقیر محمد وڑائچ کو گرفتار کر لیا۔ ان کے گھر والوں کے مطابق پولیس ان کے گھر سے دو موبائل فون بھی لے گئی۔
تاہم تھانہ فیروز والا کے تھانیدار شاہد رفیق چنبل کا کہنا ہے کہ کسی بھی ایسے جرم میں جو قابلِ دست اندازی پولیس ہو پولیس اہل کاروں کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کہیں سے اور کسی طرح سے بھی ملزموں کو گرفتار کر لیں۔
پولیس اب تک باؤ بھٹی اور فقیر محمد وڑائچ کے علاوہ تین دیگر افراد، منیر عرف بگا بھٹی، دلشاد اور محمد لطیف ولد سلیم آرائیں، کو گرفتار کر چکی ہے جبکہ اس کو مطلوب دو افراد، سلیمان سجاد وڑائچ اور عامر ولد ریاض، نے گرفتاری سے بچنے کے لئے عبوری ضمانت کرا رکھی ہے۔ چند دیگر نامعلوم ملزموں کی تلاش کے لئے بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں راوی اربن اتھارٹی کی جانب سے درج کرائی گئی ایک ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر ) کے تحت کی گئی ہیں جس کے مطابق ملزمان نے حکومتی معاملات میں ناجائز دخل اندازی کی ہے۔اس ایف آئی آر میں اتھارٹی نے دعوٰی کیا ہے کہ اس کے اہلکار 15 جون 2021 کو فیروز والا تحصیل کے ریونیو ملازمین کے ساتھ سرکاری زمین کا دورہ کر رہے تھے جب ایک نامعلوم مقامی شخص (جس کا نام بعد میں ایک پٹواری نے باؤ بھٹی بتایا) بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ ایف آئی آر کے مطابق جب اتھارٹی کا عملہ دورہ کر کے واپس آ رہا تھا تو دن کے گیارہ بجے کے قریب سلیمان سجاد وڑائچ نے دس موٹرسائیکل سوار افراد کے ساتھ ان کا راستہ روک لیا لیکن "جب سرکاری عملے نے ان سے راستہ روکنے کی وجہ پوچھی تو وہ گالی گلوچ کرنے کے ساتھ ساتھ اتھارٹی کے اہلکاروں سے ان کے دورے کے بارے میں سوالات کرنے لگے۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اہلکاروں کی ویڈیو بنانے کو بھی کہا“۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ "جب اتھارٹی کے اہل کاروں نے اپنے دورے کا مقصد واضح کرنے کی کوشش کی تو سلیمان سجاد وڑائچ نے ان کی ایک نہ سنی اور گالی گلوچ اور دھمکیاں دینا جاری رکھا۔ اسی دوران باؤ بھٹی اور اس کے ساتھیوں نے پٹواری سے سرکاری کاغذات چھین لیے اور سلیمان سجاد وڑائچ نے پٹواری اور اتھارٹی کے اہلکاروں کو ایک دستاویز لکھنے اور اس پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔ بعد ازاں انہوں نے مزید لوگوں کو موقع پر بلا لیا جن کے ساتھ مل کر انہوں نے سرکاری حکام کو دو گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا“۔
لیکن فیروز والا کے کسان اس مقدمے کو جھوٹا اور حکومت کی طرف سے راوی ریور فرنٹ نامی تعمیراتی منصوبے کے لئے زمینیں حاصل کرنے کا حربہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایف آئی آر میں جو واقعہ درج کیا گیا ہے وہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گرفتاریاں ایک انتقامی قدم ہے اور اس لئے کی گئی ہیں کہ سلیمان سجاد وڑائچ کی بیوی اور ان کے بیٹے فقیر محمد وڑائچ نے راوی ریور فرنٹ پر کام روکنے کے لئے لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں۔
اسی طرح تھانے میں قید باؤ بھٹی کہتے ہیں کہ ”میری گرفتاری کی واحد وجہ یہ ہے کہ میں اپنی زرعی زمین راوی ریور فرنٹ کے لئے نہیں دینا چاہتا"۔
سلیمان سجاد وڑائچ بھی ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات کو رَد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اتھارٹی کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی بلکہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے دورے پر آئے ہوئے سرکاری اہل کاروں کے سامنے صرف لاہور ہائی کورٹ کا ایک ایسا حکم نامہ رکھا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اس منصوبے پر فی الحال کوئی کام نہیں کر سکتے۔
پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر میں کئی خامیاں بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں مدعی کا فون نمبر ایسا لکھا گیا ہے جس پر کال کرنے کی کوشش کی جائے تو فون نمبر ’غیر موجود’ (invalid) ہونے کا پیغام آتا ہے۔ اسی طرح اس میں مدعی کی ولدیت بھی درج نہیں کی گئی۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ اس "جھوٹی" ایف آئی آر کا اندراج ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں کیونکہ ان کے بقول ان کے خلاف مقدمات کا آغاز راوی ریور فرنٹ کا منصوبہ شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی ہو گیا تھا اور اس سلسلے میں پہلا مقدمہ 2 مارچ 2021 کو 80 سے 90 کسانوں کے خلاف سرکاری کاغذات چھیننے ،کارِ سرکار میں مداخلت کرنے اور ہنگامہ آرائی میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت پنجاب کے محکمہ مال کی طرف سے کرایا گیا تھا۔
لیکن اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ وہ ہر سطح پر اتھارٹی کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ باؤ بھٹی دُلا بھٹی کی طرح ریاست کے خلاف بغاوت تو نہیں کرنا چاہتے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ”میری زرعی زمین ہی میرا سب کچھ ہے اس لئے میں اسے ہر قیمت پر راوی ریور فرنٹ کی نذر ہونے سے بچاؤں گا"۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفع 19 جون 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 13 اکتوبر 2021