سنزلہ کاریز کے ولی خان روغانی روڈ پر بہت کم رفتار سے ویگن چلا رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی گاڑی میں ایک حاملہ خاتون سوار ہیں اور سڑک پر جگہ جگہ بڑے بڑے گڑھے ہیں۔ ولی خان 35 کلو میٹر کا فاصلہ کم سے کم چھ گھنٹے میں طے کریں گے۔ تاہم ان کی مجبوری ہے کہ وہ رفتار بڑھا نہیں سکتے کیونکہ یہ اس علاقے کی انتہائی خطرناک سڑک سمجھی جاتی ہے جس پر کبھی بھی کوئی ناگہانی صورتحال پیش آ سکتی ہے۔
وہ اپنے گاؤں اور چمن شہر کے درمیان اس سڑک پر پچھلے چھ سال سے مسافر ویگن چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ 'خونی سڑک' ہے جہاں آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ آٹھ ماہ قبل ان کی گاڑی کو بھی اسی سڑک پر حادثہ پیش آیا تھا جس میں ان کے ساتھ پانچ مسافر بھی زخمی ہوئے اور وہ خود 10 روز تک کومے کی حالت میں رہے۔
پینتیس کلومیٹر طویل روغانی روڈ چمن شہر سے ایک کلومیٹر فاصلے پر کوئٹہ چمن شاہراہ سے نکلتی ہے۔ یہ سڑک کلی تروا نادر کاریز سے ہوتی ہوئی سکان کانڑی گاؤں تک جاتی اور مجموعی طور پر 14 دیہات اور کاریز (پانی کی زیرزمین گزرگاہوں کے قریب واقع آبادی) کو آپس میں ملاتی ہے۔ ان میں ہر گاؤں اور کاریز کی اوسط آبادی دو ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
محتاط اندازے کے مطابق روغانی روڈ پر روزانہ پانچ سے چھ سو چھوٹی بڑی گاڑیاں سفر کرتی ہیں اور چمن شہر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھی یہی سڑک استعمال کرتا ہے۔
روغانی روڈ بلوچستان کی ان درجنوں سڑکوں میں سے ایک ہے جنہیں پچھلے سال آنے والی طوفانی بارشوں میں نقصان پہنچا تھا۔ اس دوران قصبوں اور دیہاتوں کا چمن شہر سے رابطہ کئی روز منقطع رہا تھا ۔چونکہ یہ سڑک بری طرح ٹوٹی پھوٹی ہے اس لئے یہاں حادثے روز کا معمول ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چمن میں شعبہ حادثات کے رجسٹرار نعمت خان بتاتے ہیں کہ ان کے ہاں روزانہ لائے جانے والے زخمیوں میں دس فیصد روغانی روڈ سے آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2022ء کی بارشوں سے پہلے یہ شرح اوسطاً دو فیصد ہوتی تھی۔
کلی بوستان کے ڈاکٹر عطاءاللہ نے اپنے گھر سے 10 کلو میٹر دور اسی سڑک پر کلینک بنا رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ روزانہ اس سڑک پر حادثات میں زخمی ہونے والے دو سے تین لوگ ان کے کلینک پر لائے جاتے ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ شکستہ سڑک پردھول اور مٹی سے لوگ سانس کی بیماریوں اور الرجی کا شکار ہو رہے ہیں۔
محلہ زمان کہول کے اللہ محمد روغانی روڈ پر دکان چلاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال اپریل میں سڑک پر کام شروع ہوا مگر پندرہ روز بعد ہی بند ہو گیا۔ پہلے تو اے این پی کے رکن صوبائی اسمبلی اصغر خان اور جے یو آئی کے مولانا صلاح الدین ایوبی دونوں کریڈٹ لے رہے تھے کہ سڑک انہوں نے منظور کرائی ہے مگر اب دونوں خاموش ہیں۔
اس بارے میں مولانا صلاح الدین ایوبی کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم سے ملاقاتیں کی ہیں۔ وزیر اعظم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ فنڈز کے لیےجلد صوبائی حکومت کو احکامات جاری کریں گے۔
چمن میں محکمہ منصوبہ بندی و ترقی ( پی اینڈ آر) کے ایکسیئن عبدالرازق مندوخیل اس سڑک کی تعمیر نو میں تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے روغانی روڈ کے 16 کلومیٹر حصے کے لیے مالی سال 2021ء میں 37 کروڑ روپے کی منظوری دی تھی۔ 2022ء میں اس کے لئے ایک کروڑ 90 لاکھ روپے جاری ہوئے۔ یہ رقم سڑک پر بجری ڈالنے اور پُلوں اور کاز ویز کا ڈھانچہ کھڑا کرنے پر خرچ ہو گئی۔ اب جیسے ہی مزید فنڈ ملے تو سڑک پر کام دوبارہ شروع ہوجائے گا۔
روغانی روڈ کو تعمیر کرنے والے ٹھیکدار صحبت خان اچکزئی تصدیق کرتے ہیں کہ ابھی انہیں ایک کروڑ 90 لاکھ روپے ہی ملے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روغانی روڈ صوبائی ترقیاتی پروگرام میں شامل ہے اس لیے توقع تھی کہ مزید فنڈ بھی جلد مل جائیں گے۔ مگر اسی دوران بارشیں شروع ہو گئیں جن سے سارا صوبہ پانی میں ڈوب گیا اور ترقیاتی کام رک گئے۔
صوبائی ڈیزاسڑ منیجمنٹ کی مطابق گذشتہ سال تباہ کن بارشوں میں بلوچستان کی دو ہزار221 کلو میٹر شاہراہیں اور رابطہ سڑکیں شدید متاثر ہوئیں، شاہراؤں پر بنے 25 پل بھی ٹوٹ گئے تھے۔ عبدالرازق مندوخیل بتاتے ہیں صوبے میں کہیں بھی بحالی کا کام شروع نہیں ہوسکا۔ سب فنڈز ملنے کا انتظار کررہے ہیں۔
فضل الرحمٰن ڈمپر ڈرائیور ہیں جو پچھلے آٹھ سال سے ایک کرشنگ پلانٹ کی بجری چمن پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔ وہ اس سڑک پر رات کے وقت سفر کو 'خودکشی' قرار دیتے ہیں۔ چھ ماہ قبل رات کے وقت اس سڑک پر ان کا ڈمپر الٹ گیا تھا جس سے وہ خود اور ان کا کلینر شدید زخمی ہو گئے تھے۔
فضل الرحمٰن کے مطابق اس علاقے میں تقریباً 25 ڈمپر بجری کی لوڈنگ کرتے ہیں۔ ان کے ڈرائیوروں نے سڑک کی تعمیرنو کے لیے کئی بار احتجاج کیا اور ٹریفک بھی بلاک کر دی لیکن کچھ نہیں ہوا اس لئے وہ اب کسی بہتری کی امید نہیں رکھتے بس سفر پر نکلنے سے پہلے دعا کر لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
آواران کا جھاؤ-بیلہ روڈ جہاں پیاز سے لدا ٹرک 90 کلومیٹر کا فاصلہ ایک دن میں طے کرتا ہے!
چمن میں ریسکیو 1122 سروس چار ماہ پہلے شروع ہوئی ہے۔ ضلعے میں محکمے کے انچارج عبدالغنی بتاتے ہیں کہ اگرچہ اس سڑک پر تواتر سے حادثوں کی اطلاعات آتی ہیں لیکن ابھی تک کسی نے انہیں مدد کے لئے کال نہیں کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی لوگوں کو یہ علم نہیں ہےکہ انہیں کسی حادثے کی صورت میں 1122 پر کال کرنی ہے۔ لوگ اپنے طور پر زخمیوں کو اٹھاتے اور ہسپتال پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں تاخیر ہونے سے متاثرین کی حالت بگڑ جاتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ شاید 1122 کی خدمات لینے پر انہیں کوئی فیس ادا کرنا پڑے گی جبکہ ایسا کچھ نہیں اور یہ عوام کی خدمات کے لئے مفت مہیا کی جانے والی سرکاری سہولت ہے جو کال کرنے پر دس منٹ میں دستیاب ہو سکتی ہے۔
تاریخ اشاعت 23 جون 2023