گیس کی قیمتیں سال میں تین بار بڑھائی گئیں پھر گھروں میں چولہے کیوں نہیں جلتے؟

postImg

رضا کھرل

postImg

گیس کی قیمتیں سال میں تین بار بڑھائی گئیں پھر گھروں میں چولہے کیوں نہیں جلتے؟

رضا کھرل

صغریٰ بی بی، ڈی ایچ اے لاہور کی رہائشی ہیں جو پچھلے تین گھنٹے سے کھانا بنانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ گوشت دھو لیا، سبزی اور پیاز کاٹ لی، فش ڈی فریز ہوگئی ہے مگر چولہے میں گیس نہ ہونے کے باعث وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ یہاں روزانہ گیس پریشر اتنا کم ہوتا ہے کہ باورچی خانے میں جانے کو دل ہی نہیں کرتا۔

جوہر ٹاون میں بھی پچھلے کئی دنوں سے گیس کی قلت کا سامنا ہے۔ متمول لوگوں کا رہائشی علاقہ ہو، اندرون شہر یا کوئی غریب آبادی، لاہور کے بیشتر علاقوں میں شہری گیس کی لوڈ شیڈنگ، کم پریشر اور بھاری بلوں کی شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔

اندرون شہر کے رہائشی محمد تنویر کہتے ہیں کہ سردیوں میں گیس کی کمی سمجھ میں آتی ہے لیکن اب اس گرمی میں بھی گیس دستیاب نہیں کھانا بازار سے خریدنا پڑتا ہے جبکہ بل پہلے سے زیادہ آتے ہیں۔ اگر ایل پی جی سلنڈر خریدیں تو وہ بل اور بازار کے کھانے سے بھی مہنگا پڑتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سوئی ناردرن نے اب بھی گیس فراہم کرنے کے لیے صبح چھ سے 9 بجے، دوپہر 12 سے تین بجے اور پھر شام چھ سے رات 10 بجے تک کا شیڈول جاری کر رکھا ہے۔ جبکہ گرمیوں میں اس لوڈ شیڈنگ کا کوئی جواز نہیں۔

اقتصادی سروے  2024ء بتاتا ہے کہ مالی سال 2023ء کے دوران ملک کی بنیادی انرجی مکس سپلائی میں مقامی قدرتی گیس کا حصہ تقریباً 28.9 فیصد رہا۔

"مجموعی طور 13 ہزار 989 کلومیٹر طویل ٹرانسمشن لائنیں، ایک لاکھ 61 ہزار 806 کلومیٹر مین لائینز اور 41 ہزار 463 کلومیٹر لمبی سروسز پائپ لائنز کا نیٹ ورک ملک بھر کے ایک کروڑ سات لاکھ 70 ہزار صارفین کی ضروریات پوری کرتا ہے۔"

اس سروے کے مطابق مالی سال 2024ء کے دوران (مارچ سے جولائی تک) قدرتی گیس کی کل کھپت تقریباً تین ہزار207 ایم ایم سی ایف ڈی (تین ارب 20 کروڑ 70 لاکھ مکعب فٹ روزانہ) رہی جس میں 695 ایم ایم سی ایف ڈی درآمد شدہ آر ایل این جی (ری گیسیفائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس) شامل کی گئی تھی۔

ملکی ضروریات کو پورا کر نے کے لیے اس وقت ایک ہزار 200 ایم ایم سی ایف ڈی گیس( آر ایل این جی) درآمد کی جا رہی ہے۔

اکنامک سروے کہتا ہے کہ مالی سال 2024ء (جولائی تا مارچ) کے دوران سب سے زیادہ گیس 894 ایم ایم سی ایف ڈی پاور پلانٹس نے استعمال کی اور دوسرے نمبر پر گھریلو کھپت 864 ایم ایم سی ایف ڈی رہی۔

"فرٹیلائزر انڈسٹری نے 764، جنرل صنعتی شعبے نے 575، ٹرانسپورٹ(سی این جی) نے 61 اور کمرشل صارفین نے 49 ایم ایم سی ایف روزانہ گیس استعمال کی۔"

گییس قیمتوں میں سال میں تین بار اضافہ

بقول وزیر پٹرولیم  ملک میں صرف 27 فیصد شہری (گھریلو استعمال) قدرتی گیس جبکہ پانچ فیصد ایل پی جی (لکویفائیڈ پٹرولیم گیس/سلنڈر) استعمال کرتے ہیں۔

مگر گھریلو صارفین کے لیے ایک سال میں تین بار گیس کی قیمتیں بڑھائی جا چکی ہیں لیکن لوڈشیڈنگ کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔

اوگرا کے مطابق پچھلے سال 15 فروری کو پروٹیکٹیٹڈ صارفین کے لیے 0.25 مکعب ہیکٹو میٹر (مکعب ایچ ایم)تک ماہانہ گیس جلانے پر 121 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) اور 0.5 مکعب ایچ ایم تک 150 روپے یونٹ نرخ مقرر کیا تھا،  0.6 تک 200روپے اور 0.9 مکعب ایچ ایم تک گیس استعمال کرنے پر قیمت 250 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) کی گئی تھی۔

پروٹیکٹیڈ صارفین کون ہیں

پروٹیکٹیڈ کیٹیگری میں وہ گیس صارفین آتے ہیں جنہوں نے سردیوں کے چار ماہ یعنی نومبر سے جنوری تک اوسطاً 0.9 مکعب ایچ ایم یا اس سے کم گیس جلائی ہو۔ پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے 40 روپے کرایہ میٹر اور50 روپے فکس چارج لگایا گیا جبکہ نان پروٹیکٹڈ کیٹیگری پر 500 روپے فکس چارج عائد کر دیا گیاتھا۔

اس حکم نامے کے تحت پچھلے سال 15 فروری کو عام صارفین (ان پروٹیکٹیٹڈ) صارفین کے لیے 0.25 مکعب ہیکٹو میٹر (مکعب ایچ ایم)تک ماہانہ گیس جلانے پر نرخ 200 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) اور 0.6 مکعب ایچ ایم تک 300 روپے مقرر کیا گیا، .01 تک 400 روپے اور 1.5 مکعب ایچ ایم تک گیس استعمال کرنے پر نرخ 600 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) ہو گیا تھا۔

"دو مکعب ہیکٹو میٹر (مکعب ایچ ایم)تک ماہانہ گیس جلانے پر نرخ 800 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو)، تین مکعب ایچ ایم تک ایک ہزار100 روپے یونٹ، چار مکعب ایچ ایم تک دو ہزار روپے اور چار مکعب ایچ ایم سے زائد گیس استعمال کرنے پر تین ہزار 100 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) ریٹ لاگو کیا گیا تھا۔"

کرایہ میٹر اور فکس چارج کے علاوہ نان پروٹیکٹڈ صارفین کے کم ازکم چارجز 172.58 ماہانہ مقرر کیے گئے تھے۔

گزشتہ سال ہی 8 ںومبر کو اوگرا نے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے مطابق نہ صرف گیس کے نرخ بڑھا دیے گئے بلکہ پروٹیکٹڈ صارفین پر فکس چارج 50 سے بڑھا کر 400 روپے کر دیا گیا تھا۔

"1.5 مکعب ایچ ایم تک گیس استعمال کرنے والے صارفین (ان پروٹیکٹڈ) پر فکس چارج 500 سے بڑھا کر ایک ہزار اور اس سے زیادہ گیس جلانے والوں پر فکس چارج دو ہزار روپے لگا دیا گیا تھا۔"

رواں سال کے آغاز میں گیس کی قیمتیں ایک بار پھر بڑھا دی گئیں۔ پندرہ فروری کو جاری ہو نے والے اوگرا کے نوٹیفکیشن کے تحت پروٹیکٹیٹڈ صارفین کے لیے 0.25 مکعب ہیکٹو میٹر (مکعب ایچ ایم)تک ماہانہ گیس چلانے پر نرخ 200 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) ہو چکا ہے۔

"پروٹیکٹڈ کیٹیگری ہی میں 0.5 مکعب ایچ ایم تک گیس جلانے کا نرخ 250 روپے فی یونٹ، 0.6 تک 300 روپے اور 0.9 مکعب ایچ ایم تک گیس استعمال کرنے پر نرخ 350 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) کر دیا گیا۔"

رواں سال عام صارفین (ان پروٹیکٹیٹڈ) کے لیے 0.25 مکعب ہیکٹو میٹر (مکعب ایچ ایم)تک ماہانہ گیس جلانے پر نرخ 500 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) اور 0.6 مکعب ایچ ایم تک 850 روپے کر دیا گیا،  .01 تک ایک ہزار 250 روپے اور 1.5 مکعب ایچ ایم تک گیس استعمال کرنے پر نرخ ایک ہزار 450 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) ہو گیا۔

اسی طرح دو مکعب ہیکٹو میٹر (مکعب ایچ ایم)تک ماہانہ گیس جلانے پر نرخ ایک ہزار 900 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو)، تین مکعب ایچ ایم تک تین ہزار 300 روپے فی یونٹ، چار مکعب ایچ ایم تک تین ہزار 800 روپے اور چار مکعب ایچ ایم سے زائد گیس استعمال کرنے پر چار ہزار 200 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) ریٹ لاگو ہوتا ہے۔

اس نوٹیفکیشن کے مطابق کرایہ میٹر 40 روپے، اور 1.5 مکعب ایچ ایم تک گیس استعمال کرنے صارفین پر ایک ہزار روپے اور اس سے زائد گییس جلانے پر دو ہزار روپے فکس چارج علاوہ ہیں۔

پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ صارفین پر کم از کم چارجز الگ لاگو ہوتے ہیں۔

تاہم سال میں تین بار قیمتیں بڑھنے اور فکس چارجز لاگو کرنے کے باوجود گیس لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تو دور گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ  (سرکلر ڈیٹ) دو ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خرابی کہیں اور ہے۔

سالانہ 40 ارب کی گیس چوری

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم میں ڈائریکٹر جنرل گیس نے 15 روز قبل انکشاف کیا کہ ملک میں سالانہ 40 ارب روپے کی گیس چوری ہوتی ہے جس میں 25 ارب روپے سے زیادہ چوری سوئی سدرن کی ہوتی ہے (اور باقی گیس چوری سوئی ناردرن کی ہوتی ہے)۔

گیس حکام نے بتایا کہ چھوٹے گھریلو گیس صارفین(پروٹیکٹڈ) کو گیس پر 130 ارب روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے جس کو دیگر صارفین پر منتقل کیا جاتا ہے۔

"تاہم گیس سیکٹر کا گردشی قرض دو ہزار ارب روپے ہو چکا ہے، ہمارے لیے ایل این جی بیچنا مسئلہ ہے، پاور سیکٹر پوری ایل این جی اٹھائے یا پھر اس کا کوئی حل ڈھونڈنا ہو گا۔"

سیکریٹری پٹرولیم مومن آغا کا کہنا تھا کہ ملک میں مجموعی طور پر یومیہ چار ارب 20 کروڑ مکعب فٹ گیس سپلائی ہوتی ہے جس میں ایک ارب مکعب فٹ یومیہ ایل این جی شامل ہوتی ہے۔

مہنگی ایل این جی اور کمرشل و انڈسٹریل سیکٹرز کے مسائل اپنی جگہ موجود ہیں مگر گھریلو صارفین کے لیے تو چولہا جلانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

حکام کے مطابق سوئی سدرن میں گیس کے 12 فیصد نقصانات ہیں جبکہ سوئی ناردرن میں گیس نقصانات چھ فیصد ہیں۔

اوگرا کے اعدادوشمار   بتاتے ہیں کہ 22-2021ء میں سوئی ناردرن (ایس این جی پی ایل) نے یو جی ایف (ان اکاؤنٹڈ گیس فار یا لائن لاسز) کی مد میں 29 ہزار 228 (8 فیصد سے زائد) جبکہ سوئی سدرن نے 57 ہزار897 (17 فیصد سے زائد) ایم ایم سی ایف گیس کا نقصان کیا جس میں گیس چوری اور لیکیج دونوں شامل ہیں۔

ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق

انٹر نیشنل ٹریڈ ایڈمنسٹریشن   کے مطابق پاکستان میں قدرتی گیس کی طلب اور رسد میں واضح فرق ہے۔ یہاں گیس کی ڈیمانڈ کا تخمینہ چھ سے آٹھ ارب کیوبک فٹ یومیہ جبکہ کل پیداوار تقریباً 4 ارب کیوبک فٹ یومیہ ہے۔

ذوالفقار علی مہتو گیس سپلائی کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تقسیم کار کمپنیاں گیس کی طلب اور رسد کے گیپ کو لوڈشیڈنگ کے ذریعے پورا کرتی ہیں۔

"لیکن جب گیس لوڈ شیڈنگ کا شیڈول بنایا جاتا ہے تو سب سے زیادہ متاثر گھریلو صارفین ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں پاور پلانٹس، کھاد بنانے والے کارخانے اور انڈسٹریل سیکٹر زیادہ گیس لے جاتے ہیں حالانکہ چولہا جلانا ترجیح ہونی چاہیے۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ گرمیوں میں بعض علاقوں میں گیس کی عدم دستیابی کے پیچھے بدنیتی اور بدعنوانی بھی شامل ہوتی ہے۔ ایسی شکایات سامنے آئی ہیں جن میں اہلکار رشوت وغیرہ لے کر کچھ ایریاز کا گیس پریشر دوسرے علاقوں سے پورا کر دیتے ہیں۔

"گیس چوری یا پرانی لائنوں کے باعث لیکیج (لائن لاسز) کے نقصانات نہ صرف گیس کی قیمت بڑھا دیتے ہیں بلکہ گیس کی دستیابی میں بھی کمی کا باعث بنتے ہیں۔"

اگرچہ سوئی گیس حکام ایک ہی بات دہراتے ہیں کہ صارفین بڑھ گئے ہیں اور سپلائی اتنی ہی ہے اس لیے پریشر کم ہوجاتاہے۔

تاہم 25 جون 2024ء کو سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ نے لاہور، ملتان، بہاولپور، شیخوپورہ اور فیصل آباد میں کریک ڈاون کیا تھا جس میں گیس کے حصول کے لیے غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے پر درجنوں کنکشن کاٹ دیے تھے جبکہ گیس چوری پر متعدد لوگوں کو جرمانے بھی کیے تھے۔

ذوالفقار علی مہتو کا کہنا ہے کہ ملک میں گیس کے موجودہ ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں مگر نئے ذخائر دریافت نہیں ہو پا رہے جبکہ ایل این جی بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ تاخیر کا شکار ہے ان سب مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا۔

تاہم صحافی ضیا بنگش سمجھتےہیں کہ گیس چوری و بدعنوانی کے خاتمے اور ناکارہ پائپ لائنز کی تبدیلی سے گھریلو صارفین کو یقیناً فائدہ ہو گا۔ لیکن جب تک ملک میں بائیو گیس سمیت توانائی کے متبادل ذرائع فروغ نہیں پاتے آبادی میں اضافے کے ساتھ لوگوں کی مشکلات بھی بڑھتی جائیں گی۔

تاریخ اشاعت 3 اگست 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

جامشورو تھرمل پاور سٹیشن زرعی زمینیں نگل گیا، "کول پاور پراجیکٹ لگا کر سانس لینے کا حق نہ چھینا جائے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

پہلا پرکاش: گرو گرنتھ صاحب، شبد(لفظ) رہنما ہیں

thumb
سٹوری

لسانی ہجرت 2023: پنجابی اپنی ماں بولی کو گھروں سے نکال رہے ہیں

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی
thumb
سٹوری

لیبیا میں قید باجوڑ کے سیکڑوں نوجوان کب وطن واپس آئیں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی

جامشورو کول پاور پلانٹ: بجلی مل جائے گی لیکن ہوا، زمین اور پانی سب ڈوب جائے گا

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'نچلی ذات میں پیدا ہونا ہی میری بدنصیبی کی جڑ ہے'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'مجھے احساس دلایا جاتا ہے کہ میں اچھوت ہوں'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'میں اس مریضہ کو ہاتھ نہیں لگاؤں گی'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'تم کلاس روم میں نہیں پڑھ سکتے'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'وہ میرے ساتھ کھانا اور میل جول پسند نہیں کرتے'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'تم نے روٹی پلید کر دی ہے'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'پانی کے نل کو ہاتھ مت لگاؤ'

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.