خیبر پختونخوا کا معلومات تک رسائی کا قانون ہر گزرتے دن کے ساتھ بے اثر ہوتا جا رہا ہے۔ 2013 میں آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت صوبے کے تمام سرکاری اداروں کو عوام کے سامنے جوابدہ بنانے اور معلومات کے حصول کیلئے خیبر پختونخوا رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے نام سے قانون تو اسمبلی سے پاس کرالیا گیا تھا لیکن اس پر مؤثر عمل درآمد تاحال یقینی نہیں بنایا جا سکا۔
سال 2013 میں قانون بنایا گیا اور ایکٹ کے سیکشن 24 کے تحت 120 دنوں میں انفارمیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ۔تاہم دس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی عوام اس کے ثمرات سے مستفید نہیں ہو سکے۔
عام شہری تو درکنار صحافیوں کیلئے بھی اس قانون کے تحت معلومات کا حصول انتہائی مشکل بنایا گیا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی عزیز بونیری کہتے ہیں کہ آر ٹی آئی کے تحت حاصل معلومات اور اپنے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں بیشتر سرکاری ادارے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔
"اس قانون کے نفاذ کے بعد میں اب تک مختلف سرکاری اداروں میں سیکڑوں درخواستیں جمع کرا چکا ہوں تاہم وہاں سے ملنے والے جوابات کا تناسب بہت کم ہے۔ زیادہ تر سرکاری محکمے دس دن کے اندر جواب نہیں دیتے جن کے خلاف مجبوراً انفارمیشن کمیشن میں شکایت درج کرائی جاتی ہے لیکن انفارمیشن کمیشن شکایت پر سماعت کی بجائے صرف نوٹس لیتا ہے۔ ایسے کیسز بھی ہیں جن میں محکموں سے معلومات لے کر درخواست گزار کو فراہم کرنے کے بجائے ان پر 'مفاہمت' کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔"
عزیز بونیری نے بتایا کہ انہوں نے بینک آف خیبر کے بارے میں کچھ معلومات لینے کے لیے چھ ماہ پہلے درخواست دی تھی جس کا جواب تاحال نہیں آیا۔ ان کے بقول انفارمیشن کمیشن کی جانب سے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنے درخواست سے دست بردار ہو جائیں۔
"اگر چھ ماہ میں ایک صحافی بھی معلومات حاصل نہیں کر سکتا تو عام شہریوں کا کیا حال ہو گا ۔انفارمیشن کمیشن اس وقت صوبائی خزانے پر اضافی بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں۔"
معلومات تک رسائی قانون کے صوبائی قانون کے مطابق اگر کوئی ادارہ کسی شہری کے درخواست پر دس دنوں میں معلومات فراہم نہیں کرتا تو اس محکمے کے خلاف انفارمیشن کمیشن میں شکایت درج کی جاتی ہے۔ انفارمیشن کمیشن کا کام 60 دنوں میں شکایت پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے جس میں متعلقہ ادارے سے معلومات لے کر شہری کو فراہم کرنا اور محکمے پر قانون کی مطابق جرمانہ عائد کرنا ہے۔
لیکن صوبے میں یہ شکایت عام ہے کہ بعض محکمے مسلسل معلومات چھپانے کے مرتکب ہو رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔
انفارمیشن کمیشن سے آر ٹی آئی درخواست کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کے مطابق 2013 سے اب تک 24548 شہریوں نے معلومات کے حصول کے لیے درخواستیں دی ہیں جن میں 13398 درخواست گزاروں کو معلومات فراہم کر دی گئیں۔ انفارمیشن کمیشن کو 10427 شکایات موصول ہوئیں جن میں 8813کو حل کر لیا گیا جبکہ 1568شکایات حل طلب ہیں۔
موصولہ دس ہزار سے زیادہ شکایات میں سے صرف 20 پر ہی محکموں کے سربراہان یا پی آئی اوز کو جرمانہ کیا گیا ہے ۔شکایات پر زیادہ تر سماعتیں 2015 میں ہوئیں جن میں سے چھ پر جرمانے عائد ہوئے جبکہ 2018 میں سات محکموں پر جرمانے عائد کیے گئے ۔2016 میں چار، 2017 میں دو اور 2020 میں ایک محکمے کو معلومات نہ دینے پر جرمانہ کیا گیا۔
اس حوالے سے ماہر قانون شبیر حسین گگیانی کہتے ہیں کہ آر ٹی آئی کا قانون بہت اچھا ہے لیکن اس کو استعمال کیسے کیا جائے عوام کو یہ آگاہی دینا حکومت اور انفارمیشن کمیشن کا کام ہے تاہم اس حوالے سے دس سالوں میں کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اُٹھایا گیا۔
انہوں نے اس ایکٹ میں کئی خامیوں کی طرف بھی اشارہ کیا جیسا کہ اگر کسی سائل کی درخواست پر متعلقہ محکمے کے خلاف کاروائی نہیں کی جاتی یا کارروائی سے درخواست گزار کی شکایت دور نہیں ہوتی تو ایسا کوئی فورم نہیں ہے جہاں اس کے خلاف اپیل کی جاسکے۔ شکایات کی سماعت کے حوالے سے وہی تاریخ پر تاریخ کا پرانا طریقہ کار رائج ہے۔
"اس قانون کے تحت معلومات کے حصول کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ ہے۔ اس نوعیت کے قوانین کے لیے ضلع کی سطح پر تمام اداروں میں ون ونڈو آپریشن کی سہولت ہونی چاہئے تھی۔پیچیدہ طریقہ کار اور تاریخوں میں الجھنے کی وجہ سے تو عام لوگ عدالتوں تک کا رخ نہیں کرتے، معلومات تک رسائی کیلئے آر ٹی آئی درخواست کیسے فائل کریں گے۔"
یہی نہیں بلکہ اس قانون پر عملدرآمد بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر مختلف محکموں سے معلومات مانگنے والے ہزاروں درخواست گزار جواب کے منتظر ہیں، تو دوسری طرف انفارمیشن کمیشن کے کمشنروں کا کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے بھی سینکڑوں شہریوں کی شکایات زیر التوا ہیں۔
اس حوالے سے انفارمیشن کمیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر کمیونیکیشن سید سعادت جہاں سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت محکمے کے پاس 1500 سے زیادہ درخواستیں زیر التواءہیں جن پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔
کمشنر کی تعیناتی محکمہ اطلاعات کے ذریعے وزیراعلیٰ کی اجازت سے کی جاتی ہے جس کیلئے کئی خط اور یاد دہانیاں محکمہ اطلاعات کو بھجوائی جا چکی ہیں، تاہم ابھی تک کمشنروں کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی جس کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
خیبر پختونخوا کا بلدیاتی نظام کیوں مفلوج ہو کر رہ گیا ہے؟
جب نگران وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال شاہ کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی تو انہوں نے بتایا کہ کمشنر کی تعیناتی کے لیے ان کی سربراہی میں کمیٹی کی بیٹھک ہوچکی ہے۔ نام فائنل کرکے الیکشن کمیشن کو بھی بھجوائے جاچکے ہیں جن کی اجازت کے بعد وزیر اعلیٰ کمشنر کی تعیناتی کا اعلامیہ جاری کریں گے۔
بیرسٹر فیروز جمال کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت شفافیت یقینی بنانا چاہتی ہے اور آر ٹی آئی کے ذریعے عوام براہ راست مختلف محکموں سے جواب طلبی اور معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ کسی محکمے کو جواب دہ بنانے کےلئے انفارمیشن کمیشن کی کمشنر کی تعیناتی بہت اہم تھی، جس پر کام ہوچکا ہے۔
الیکشن کمیشن کی اجازت اور نگران وزیر اعلیٰ کی جانب سے نام کی منظوری میں کتنا وقت لگے گا اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم صرف کمشنرز کی تعیناتی سے مسئلہ حل ہونا ممکن نہیں۔ اس کیلئے تمام اداروں کو جوابدہ کرنے کے ساتھ طریقہ کار کو آسان بنانا اور عوام میں بھر پور آگاہی کیلئے کام کرنا ہوگا تاکہ اس قانون کے ثمرات سے عوام پوری طرح مستفید ہوسکیں۔
تاریخ اشاعت 15 اگست 2023