دس سالہ بی بی فاطمہ اپنے والدین کی واحد اولاد ہیں۔ ان کے والد ظفر اللہ انہیں پڑھا لکھا کر ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں لیکن انہیں خدشہ ہے کہ شاید ان کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔
بی بی فاطمہ کے خاندان کا تعلق ضلع قلعہ عبداللہ سے ہے جو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 100 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ بی بی فاطمہ یہاں کلی سپینہ تیژہ کے گرلز پرائمری سکول میں پڑھتی ہیں۔ گزشتہ سال اگست میں آنے والی بارشوں اور سیلاب کے بعد اس سکول کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور یہاں پڑھنے والی بچیاں پچھلے سات ماہ سے گھر بیٹھی ہیں یا لڑکوں کے پرائمری سکول میں پڑھنے پر مجبور ہیں جسے قبائلی معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
فاطمہ کو اپنا سکول بہت یاد آتا ہے اور وہ جلد از جلد دوبارہ اپنے کلاس روم میں جانا اور ہم جماعت طالبات سے ملنا چاہتی ہیں۔
''بارشوں کے بعد میں سکول نہیں جا سکی۔ سکول میں ہم پڑھتے، کھیلتے اور دوستوں سے باتیں کیا کرتے تھے۔ اب میں کئی ماہ سے گھر میں اکیلی ہوں اور مجھے اپنی دوست یاد آ رہی ہیں۔''
سپینہ تیژہ کی آبادی چار ہزار سے زیادہ لوگوں پر مشتمل ہے جہاں اس وقت تین پرائمری سکول ہیں جن میں دو لڑکوں کے لیے مخصوص ہیں۔ بارشوں میں لڑکیوں کے سکول کو زیادہ نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے وہاں کلاسیں معطل ہیں۔
ظفر اللہ کو خدشہ ہے کہ اگر ایک اور تیز بارش ہو گئی تو ان کی بیٹی کے سکول کی عمارت منہدم ہو جائے گی۔ ایسے حالات میں سکول کی تعمیرنو کے لیے طویل انتظار کرنا پڑے گا اور اس طرح ان کی بیٹی کی پڑھائی کا وقت نکل جائے گا۔
گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے مرکزی چیف آرگنائزر محمد یونس کاکڑ کہتے ہیں کہ سیلاب میں بڑے پیمانے پر سکولوں کی عمارتیں متاثر ہوئی ہیں جس کی وجہ سے وہاں بچوں کو پڑھانا اساتذہ کیلئے محفوظ نہیں ہے۔ یونیسف کے تعاون سے جتنے سکولوں کو بحال کیا جا رہا ہے وہ متاثرہ سکولوں کی مجموعی تعداد کا بہت چھوٹا سا حصہ ہیں۔ کوئٹہ سمیت بڑے شہروں میں بھی بہت سے سکول ایسے ہیں جن کی عمارت کو استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیں۔
شماریاتی بیورو کے مطابق ضلع قلعہ عبداللہ میں شرح خواندگی 51فیصد ہے جس میں مردوں کی تعداد 67 فیصد اور خواتین کی تعداد 33 فیصد ہے۔ گزشتہ سال آنے والے سیلاب میں اس ضلعے کے 66 سکولوں کو نقصان پہنچا جن میں مجموعی طور پر 146 کلاس روم، 30 بیت الخلا اور 21 سکولوں کی چار دیواری متاثر ہوئی۔ پچھلے سات آٹھ ماہ کے دوران اس ضلعے میں صرف چھ سکولوں کو ہی بحال کیا جا سکا ہے۔
محکمہ ثانوی تعلیم کے ڈویژنل ڈائریکٹر کلیم اللہ شاہ نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ سکولوں کی تعمیر ومرمت یونیسف کے تعاون سے ہو رہی ہے اور اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی فنڈ نہیں دیے گئے۔ محکمہ تعلیم متاثرہ سکولوں کی نشاندہی کرتا ہے جس کے بعد اس کی بحالی کے لیے موصول ہونے والے فنڈ محکمہ مواصلات اور تعمیرات کے ذریعے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
صوبائی محکمہ تعلیم کے مطابق گزشتہ سال مون سون کی غیرمعمولی بارشوں سے بلوچستان بھر میں دو ہزار 859 سکول متاثر ہوئے تھے جہاں تین لاکھ 86 ہزار 708 طلبہ و طالبات زیرتعلیم ہیں۔
یونیسف کے جاری کردہ بحالی منصوبے کے تحت 12 اضلاع کے 194 سکولوں میں سے 67 کی بحالی عمل میں آ چکی ہے جبکہ باقی 127 سکولوں کی تعمیرومرمت کا کام جاری ہے۔ آئی آر سی بھی اس کام میں یونیسف کی معاون ہے۔
سیکرٹری ثانوی تعلیم عبدالرئوف بلوچ کا کہنا ہے کہ سکولوں کی بحالی کے علاوہ نئے سکولوں کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سکولوں کو گرانٹس بھی دی جا رہی ہیں تاکہ ضروری سہولتوں کے فقدان پر قابو پایا جا سکے۔ اس کے علاوہ محکمہ تعلیم نے یونیسیف کے تعاون سے بالغوں کے لیے تعلیمی مراکز بھی قائم کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
محکمہ تعلیم یا اساتذہ: چاغی میں بند پڑے سکولوں کا ذمہ دار کون ہے؟
غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) اس وقت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں سکول نہ جانے والی بچیوں کو تعلیم دینے اور ہنر سکھانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے سینئر مینیجر سید افتخار شاہ کے مطابق مون سون کی بارشوں سے ان کی تنظیم کے سکول بھی متاثر ہوئے ہیں۔ آئی آر سی نے اپنے سکول بحال کرنے کے علاوہ کئی سرکاری سکولوں کی تعمیر ومرمت میں مدد دینے کے علاوہ اساتذہ کو نفسیاتی مدد بھی فراہم کی ہے۔
حال ہی میں اس تنظیم نے قلعہ عبداللہ کے چند سکولوں سمیت صوبے کے پانچ دیگر اضلاع میں 89 سکولوں کو بحال کرایا ہے۔
تاریخ اشاعت 12 اپریل 2023