بلوچستان میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کی ہلاکت کی ذمہ داری دولت اسلامیہ فی العراق و الشام (داعش) نے قبول کی ہے جس سے صوبے میں اس دہشت گرد تنظیم کی موجودگی کے حوالے سے بہت سے خدشات اور سوالات نے جنم لیا ہے۔
دہشت گردی کا یہ واقعہ ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں اتوار، 3 جنوری کو پیش آیا۔ نیوز میڈیا اطلاعات کے مطابق نا معلوم مسلح افراد اس علاقے میں کان کنی کرنے والے مزدوروں میں سے صرف ہزارہ برادری کے لوگوں کو شناخت کر کے ساتھ لے گئے اور انہیں فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ اس واقعے کے ایک روز بعد داعش کی اعماق نامی خبر ایجنسی پر شائع ہونے والے ایک بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کارروائی داعش کے جنگجوؤں نے کی ہے۔
پاکستان میں داعش/دولت اسلامیہ کی کارروائیوں کا آغاز 2015 میں ہوا جب اس نے پاکستان اور افغانستان پر مشتمل خطے میں 'داعش خراسان' کے نام سے اپنی شاخ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد اب تک پاکستان بھر میں اور خاص طور پر بلوچستان میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات میں اس بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کا نام سامنے آ چکا ہے۔
2016 میں پاکستان بھر میں پیش آنے والے ایسے نو واقعات کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی جن میں 129 افراد ہلاک اور 112 زخمی ہوئے۔ اسی سال حکومت نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں داعش کا وجود ایک حقیقت ہے۔ اس دوران بلوچستان میں دہشت گردی کے چھوٹے بڑے متعدد ایسے واقعات پیش آئے جن میں سے بعض کی ذمہ داری تو داعش نے خود قبول کی اور دیگر میں اس کا ہاتھ ہونے کے شواہد پائے گئے۔
ان میں سے ایک اہم واقعہ ستمبر 2017 میں پیش آیا جب بلوچستان کے علاقے مستونگ سے دو چینی باشندوں کی لاشیں ملیں۔ ان کی ہلاکت کی ذمہ داری داعش نے اعلانیہ قبول کی۔ اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے صوبے میں داعش کے خلاف آپریشن شروع کیا جس کے دوران داعش کے بہت سے جنگجوؤں اور کمانڈروں کو ہلاک کیا گیا۔ ان میں سلیمان بادینی نامی جنگجو بھی شامل تھا جسے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 100 سے زیادہ لوگوں کے قتل میں ملوث تھا۔
2018 میں مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے انتخابی جلسے میں خودکش دھماکہ بھی داعش کی ایک بڑی کارروائی تھی۔ اس واقعے میں کم از کم 150 افراد ہلاک ہوئے جن میں اس پارٹی کے رہنما سراج رئیسانی بھی شامل تھے۔ اسی سال بلوچستان میں دہشت گردی کے تین دیگر بڑے واقعات میں بھی داعش ملوث پائی گئی۔
مئی 2019 میں داعش نے پاکستان کے لیے اپنی الگ شاخ کے قیام کا اعلان کیا جس کا نام 'دولت اسلامیہ ولایت پاکستان' رکھا گیا۔ اس اعلان کے بعد داعش نے مستونگ میں ایک پولیس افسر کو ہلاک کرنے اور کوئٹہ میں پاکستانی طالبان سے تعلق رکھنے والے ایک شدت پسند کو قتل کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔
2019 اور اس کے بعد بلوچستان میں داعش کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں مزید تیزی آئی اور اس کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کے واقعات کی تعداد بھی کم ہو گئی۔ تاہم ہزارہ مزدوروں کی ہلاکت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بلوچستان میں داعش اور اس کے زیراثر جنگجو گروہوں کی موثر موجودگی برقرار ہے۔
دفاعی امور کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان میں داعش تنظیمی سطح پر باقاعدہ وجود رکھتی ہے تاہم ابھی یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا یہ کارروائی واقعی داعش نے کی ہے یا اس میں کوئی اور گروہ ملوث ہے۔ ان کے مطابق بلوچستان میں ایسے عسکریت پسند گروہ بھی موجود ہیں جو داعش سے بالواسطہ وابستگی رکھتے ہیں۔ 'یہ گروہ نا صرف اپنے طور پر بلکہ داعش کی سرپرستی میں بھی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے چند برس میں ہونے والی سکیورٹی کارروائیوں کے نتیجے میں اگرچہ یہ گروہ کسی حد تک کمزور ضرور ہو گئے ہیں مگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے'۔
تاہم سجاگ سے بات کرتے ہوئے عامر رانا کا کہنا ہے کہ کسی چھوٹے دہشت گرد گروہ کے لیے ایسی بڑی کارروائی کرنا اور اس کے بعد خود کو سکیورٹی اداروں سے محفوظ رکھنا آسان کام نہیں ہوتا۔
انسدادِ دہشت گردی کے قومی ادارے نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی بھی اسی طرح کا موقف رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق دہشت گرد تنظیموں نے اپنا طریقہ کار تبدیل کر لیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'موجودہ دور میں داعش جیسی تنظیموں کی موجودگی کو واضح طور پر محسوس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ماضی کے برعکس اب اس کے باقاعدہ دفاتر، بھرتی مراکز یا ٹریننگ سنٹر موجود نہیں لیکن جو لوگ ایسی تنظیموں کی فکر اور تشدد کے فلسفے سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کو درست سمجھتے ہیں وہ مختلف نیٹ ورکس کے ذریعے ان تنظیموں سے رابطے میں آ جاتے ہیں جس کے بعد وہ تنظیمی سطح پر یا اپنے طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں'
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 14 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 11 فروری 2022