کچھ ہفتے قبل لاہور سے کوئٹہ جانے والی بس پر میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب مجھ سے پوچھنے لگے کہ میں وہاں کیوں جا رہا ہوں۔ جب میں نے ان کو بتایا کہ میں ریکوڈیک کیس کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ پر کام کر رہا ہوں تو انہوں نے مجھ سے کہا:
'کیا آپ ریکوڈک بھی جائیں گے؟'
میں نے انہیں جواب دیا:
فی الحال تو میرا ارادہ صرف کوئٹہ جانے کا ہے لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ مجھے ریکوڈک بھی جانا چاہیئے؟'
اس پر ان کا جواب آیا:
'اگر آپ صرف اس کیس کی رپورٹ بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو ریکوڈک جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ کوئی بھی یہ نہیں پڑھنا چاہتا کہ ریکوڈک کیسی جگہ ہے اور لوگ وہاں کیسی زندگی گذارتے ہیں۔ لوگوں کو صرف ایسی خبریں چاہئیں جو سنسنی خیز ہوں اور جن میں لکھا ہو کہ ریکوڈک میں کتنے ارب ڈالر کی معدنیات موجود ہیں'۔
بلوچستان سے باہر رہنے والے زیادہ تر پاکستانیوں کے لئے ریکوڈک دراصل سونے کا ایک پہاڑ ہے جسے کھودتے ہی اس میں سے خوش حالی کے چشمے پھوٹ پڑیں گے۔ پاکستان کے ممتاز جوہری سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے بقول یہاں پائی جانے والی قیمتی دھاتوں سے 'ہر سال 2.354 ارب ڈالر اور مجموعی طور پر 131.824 ارب ڈالر کمائے جا سکتے ہیں'۔ اس سالانہ آمدنی سے 2020-21 کے مالی سال کے لئے بلوچستان حکومت کے اسی فیصد اخراجات پورے ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے یہ تخمینہ 2012 میں انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈِسپیوٹس (ICSID) کے سامنے پیش کیا تھا جہاں انہیں حکومتِ پاکستان اور ریکوڈک میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنی کے درمیان تنازعے پر کی جانے والی سماعت میں گواہ کے طور پر طلب کیا گیا تھا۔ اس سماعت میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں پاکستان کو تقریباً چھ ارب ڈالر کا جرمانہ کئے جانے کی ایک بہت بڑی وجہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا یہ غیر حقیقت پسندانہ تخمینہ ہے۔
سرمایہ کاری سے متعلق تنازعات کے تصفیے کی عالمی عدالت میں ثمر مبارک مند کا بیان پاکستان کے خلاف بھاری ہرجانے کی بڑی وجہ تھا۔
وکیل کے مطابق 'ڈاکٹر ثمرمبارک مند نے عدالت کو معدنی ذخائر کی قیمت بڑھا چڑھا کر بتائی جس کی بنیاد پر عدالت نے اس مقدمے میں جرمانے کی خطیر رقم کا فیصلہ کیا'۔
تاہم لاہور کے امیرترین علاقے میں واقع اپنے آرام دِہ دفتر میں بیٹھے یہ وکیل بھی ریکوڈک میں رہنے والے لوگوں کے حالات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے بلکہ انہیں بھی پریشانی ہے تو اس بات کی کہ ریکوڈک کے معاملے پر 'بلوچستان کی حکومتوں اور افسران کی نااہلی کی وجہ سے ہم اربوں ڈالر کا نقصان اٹھا رہے ہیں'۔
وکیلوں کی طرح سیاست دان اور پالیسی ساز بھی ریکو ڈیک کو ایک ایسے اثاثے کے طور پر دیکھتے ہیں جس کی کل مالیت پاکستان کی موجودہ سالانہ قومی آمدن سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے ایک سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے تو ایک دفعہ یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس علاقے میں پائی جانے والی معدنیات کی قیمت دس کھرب ڈالر کے قریب ہو سکتی ہے۔
پالیسی ساز حلقوں میں ریکوڈک کا حوالہ ہمیشہ لاکھوں، کروڑوں، اربوں اور کھربوں میں ہی دیا جاتا ہے اور اس کا ذکر ’ہماری‘ کانیں، ’ہماری‘ دولت اور ’ہمارا‘ منافع کہہ کر کیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کی گفتگو کا محور ریکو ڈک میں رہنے والے لوگ کبھی بھی نہیں ہوتے بلکہ وہاں دبے ہوئے تانبے اور سونے کے وسیع ذخائر اور ان کی بے پناہ قیمت ہوتی ہے۔
عام پاکستانیوں کے لئے بھی ریکو ڈیک خوشحالی کا ایک ایسا خواب ہے جو محض حکمران طبقے کی نا اہلی اور اس کے ارادوں کی کمزوری کے باعث شرمندہِ تعبیر نہیں ہو رہا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ریکوڈک کے مقامی باشندے اپنے پاؤں تلے لاکھوں ٹن قیمتی دھاتوں کی موجودگی سے بے خبر نسل در نسل غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
دوسری طرف کوئٹہ میں ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ سے لے کر ایک عام صحافی تک جس شخص کا بھی میں انٹرویو کرتا ہوں وہ باضابطہ طور پر اپنا مؤقف دینے کے بجائے مجھ سے اس وقت زیادہ کھل کر بات کرتا ہے جب میں اس کی گفتگو ریکارڈ کرنا بند کر دیتا ہوں۔ اس غیر ریکارڈ شدہ گفتگو میں یہ لوگ ریکوڈک کیس کے مالی یا قانونی پہلوؤں پر بات کرنے کے بجائے یہ شکایت کرتے ہیں کہ سونے اور تانبے کی کان کنی کے یہ منصوبے کس طرح بلوچستان کے مقامی لوگوں کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔
ایک ریٹائرڈ صوبائی سیکرٹری, بلوچستان کے ایک دوسرے علاقے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صوبے میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کا یہاں رہنے والے لوگوں کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 'پاکستان میں پائے جانے والے قدرتی گیس کے پانچ میں سے چار بڑے فیلڈ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں واقع ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ ضلع ابھی تک پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے؟'
ریکوڈک ترکی سے ایران کے راستے پاکستان تک آنے والی ٹیتھیان بیلٹ پر واقع ہے۔
وہ سیندک پراجیکٹ کو بھی اسی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ یہ ریکوڈک سے ملحقہ علاقے میں ہی دھاتوں کی کان کنی کا ایک اور منصوبہ ہے۔ ان کے مطابق کان کنی کی کمپنیاں کئی سالوں سے سیندک میں سرگرم ہیں جن کی وجہ سے مقامی لوگوں کی چراگاہیں اور روزی روٹی کے دوسرے وسائل ختم تو ہوئے ہیں لیکن ان کے لئے تعلیم اور روزگار کے اچھے مواقع پیدا نہیں کیے گئے جبکہ دوسری طرف 'یہاں کان کنی کرنے والی کمپنیوں کے کھاتوں میں لاکھوں ڈالر کا اضافہ ہوا ہے'۔ اس 'واضح استحصال کے بعد یہاں کے مقامی لوگ ان منصوبوں کو آگ کیوں نہ لگائیں؟'
ایک مقامی صحافی کا بھی کم و بیش یہی کہنا ہے۔ ان کے مطابق ’مقامی لوگ ریکوڈک جیسے معدنیات سے مالا مال علاقے میں اس وقت سے آباد ہیں جب ابھی انگریز بھی برِصغیر میں نہیں آَئے تھے۔ ریاست کس طرح ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے انہیں غیر ملکی کمپنیوں کو بیچ سکتی ہے؟'۔
ریکو ڈک کیا ہے؟
کوہِ دلیل ریت کی ایک پہاڑی ہے جو بلوچستان کے جنوب مغربی حصے میں موجود ضلع چاغی میں واقع ہے۔ یہ جگہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تقریباً 1400 کلومیٹر دور ہے۔ کوہِ دلیل کے لوگ اگر کبھی اپنے مطالبات لے کر وفاقی دارالحکومت جانے کا ارادہ کریں تو بس یا ریل کے ذریعے انھیں وہاں پہنچنے میں کم از کم دو دن لگیں گے۔
لاہور سے کوہِ دلیل کا سفر بھی اسی طرح طویل اور دشوار ہے۔ اس کے لئے پہلے آپ کو 1000 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کر کے لاہور سے کوئٹہ جانا پڑتا ہے جس کے بعد کوئٹہ سے جنوب کی طرف جاتی ایک شاہراہ پر500 کلومیٹر کا تھکا دینے والا سفر طے کرنے کے بعد آپ کو نوکنڈی کا پسماندہ قصبہ دکھائی دیتا ہے۔ اس قصبے سے مغرب کی جانب مزید 90 کلو میٹر کا سفر آپ کو کوہِ دلیل پہنچا دیتا ہے۔
نوکنڈی اور کوہِ دلیل کے درمیان ایک لق و دق صحرا ہے جس میں پانی کی قلت کی وجہ سے کوئی انسانی آبادی نظر نہیں آتی۔
کوہِ دلیل کے مشرق میں واقع علاقہ سیاہ ریگ، یعنی کالی ریت، کہلاتا ہے۔ ہُمائی نامی گاؤں بھی اسی پہاڑی کے مضافات میں واقع ہے۔ اس گاؤں کے بیشتر رہائشی محمد زئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو گزر بسر کے لئے مال مویشی پالتے ہیں۔
دنیا کی حالیہ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہے جب ریاستوں اور عالمی اداروں نے قیمتی معدنیات حاصل کرنے کے لیے تشدد کی گھناؤنی ترین اقسام سے کام لیا اور معدنی وسائل تک ان کے حقیقی مالکان کی رسائی نہ ہونے دی۔
ہیرلڈ میگزین میں 2017 میں چھاپی گئی ایک رپورٹ کے مطابق اس علاقے میں پانی کی شدید کمی ہے۔ جب کبھی بھی خشک سالی کا دور آتا ہے تو مقامی لوگوں کے مویشی بڑی تعداد میں ہلاک ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات یہاں کے رہنے والے لوگوں کو آگ جلانے کے لئے درکار خشک لکڑی جیسی عام سی چیز حاصل کرنے کے لئے بھی سرحد عبور کر کے افغانستان جانا پڑتا ہے۔
اس خطے کا موسم گرمیوں میں انتہائی گرم اور سردیوں میں انتہائی سرد ہوتا ہے جو ان لوگوں کے لئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے جو یہاں کے رہائشی نہیں ہیں۔ یہاں ریت کے طوفان اس قدر تند و تیز اور گرم ہوتے ہیں کہ ان کی لپیٹ میں آنے والے لوگوں کو جان بچانے کے لئے فوری طور پر پناہ ڈھونڈنا پڑتی ہے۔ یہاں کی نہایت گرم اور تیز ہوا کو اسی وجہ سے ’گورچ‘ یا دوزخ کی ہوا کہا جاتا ہے۔
ان سخت حالات سے خود کو بچانے کے لئے مقامی باشندے بکریوں اور بھیڑوں کی جِلد سے بنے ہوئے خصوصی خیمے استعمال کرتے ہیں جنھیں ’گِدان‘ کہا جاتا ہے۔
1980 کی دہائی تک یہ علاقہ ایک پسماندہ صوبے کے ایک دور دراز اور ویران مقام کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتا تھا تاآنکہ کان کنی کے ماہرین نے یہ انکشاف کیا کہ سیاہ ریگ اور اس کے آس پاس کا علاقہ دراصل ٹیتھیان میگمیٹک کوریڈور کا حصہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تانبے اور سونے سے مالا مال ہے۔ یہ کوریڈور ہنگری، بلغاریہ، رومانیہ اور یونان سے شروع ہوتا ہے اور ترکی، ایران اور پاکستان سے ہوتا ہوا میانمار، ملائشیا، انڈونیشیا اور پاپوا نیو گِنی تک جاتا ہے۔
اس دریافت کے نتیجے میں اس علاقے کا نام تبدیل ہو کر ریکو ڈیک ہو گیا جس کا مطلب ہے ریت اور (سونے کے) ٹیلے۔ 13000 مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلے ہوئے اس علاقے میں کم از کم 12 ارب ٹن تانبہ اور 20 ملین اونس سونا پائے جانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو ان دونوں دھاتوں کا دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔
ہیرلڈ میگزین میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق بی ایچ پی نامی کمپنی جب 1993 میں پہلی دفعہ اس علاقے میں کھدائی کرنے آئی تو ریت کے ایک سخت طوفان نے اسکے عملے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس عملے کو یہاں چلنے والی طوفانی ہوا کا اندازہ نہیں تھا لہٰذا اس کے ارکان اس سے نمٹنے کے لئے بالکل تیار نہیں تھے۔ انہیں طوفانی ہواؤں میں پھنسا دیکھ کر مقامی لوگوں نے ان کے لئے اپنے مکانات خالی کر دیے اور خود خیموں میں منتقل ہو گئے۔
بیشتر پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ریکوڈک ایک ایسا اثاثہ ہے جو ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
کچھ عرصے بعد جب کمپنی کی سرگرمیاں باضابطہ طور پر شروع ہوئیں تو یہی مقامی افراد اس میں مزدوروں اور سیکیورٹی گارڈوں کی حیثیت سے کام کرنے پر مجبور ہو گئے جس کے عوض وہ ماہانہ تقریبا 20000 روپے تک کماتے تھے۔ تقریبا دو دہائیوں بعد جب کان کنی کا کام بند ہوا تو کچھ مقامی لوگوں کو اپنا علاقہ مستقل طور پر چھوڑنا پڑا کیونکہ کمپنی کے کیمپ ان کے لئے بہتے پانی کا واحد ذریعہ تھے۔
معدنی وسائل رحمت کے بجائے زحمت کیوں بن جاتے ہیں؟
ریکو ڈیک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی دریافت نا تو بلوچستان میں قیمتی دھاتوں کی پہلی دریافت ہے اور نہ ہی یہ پہلا موقع ہے کہ مقامی لوگوں کو ان کے وسائل کی قیمت اور قسمت کے بارے میں اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے۔ حالیہ تاریخ میں ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں جہاں ریاستوں اور بین الاقوامی کمپنیوں نے دنیا کے مختلف علاقوں سے مقامی لوگوں کی مشاورت کے بغیر قیمتی معدنیات اور دھاتیں نکال لیں۔ اگر انہیں اس عمل میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے تشدد کا استعمال بھی کیا۔
یہ بھی پڑھیں
ریکوڈک کے سونے کے ذخائر: 'بد انتظامی اور مقامی عدلیہ کے ناقص فیصلے پاکستان پر بھاری جرمانہ عائد ہونے کا سبب بنے'۔
ان معاملات میں ریاستوں کا طریقہ کار بہت ہی سادہ لیکن یکساں رہا ہے جس کی چند نمایاں خصوصیات میں لوگوں کو بے دخل کر کے ان کے وسائل پر قبضہ کرنا بھی شامل ہے۔ قبضہ کرنے والی قوت یا تو ریاست خود ہوتی ہے یا بڑی بڑی کمپنیاں یا دونوں کا گٹھ جوڑ۔ جبکہ بے دخل کئے جانے والے مقامی باشندے ہوتے ہیں جنہیں زمین سے بے دخل کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے کام لیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں پہلی ترجیح ان لوگوں کو اس بات پر قائل کرنا ہوتا ہے کہ بے دخلی کے باعث معجزانہ طور پر ان کی زندگی میں بہتری آ جائے گی۔ اس طریقے میں ناکامی کی صورت میں رشوت اور ترغیب کا استعمال کیا جاتا ہے اور اگر یہ طریقہ بھی کام نہ کرے تو جبر، تشدد اور اندھی طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر انڈیا میں کان کنی کرنے والی کمپنی ویدانتا 1990 کی دہائی میں اوڈیسہ کی ریاست میں موجود نیام گیری کے پہاڑیوں میں پائی جانے والی باکسائٹ کی دھات نکالنا چاہتی تھی جس کی مالیت دو ارب امریکی ڈالر سے زائد تھی۔ لیکن ڈونگریہ کندھا نامی ایک مقامی قبیلہ، جو ان پہاڑیوں کی زندہ دیوتا تصور کر کے ان کی پرستش کرتا ہے، ان کی فروخت پر کسی صورت میں بھی آمادہ نہیں تھا۔ جب ویدانتا نے انڈیا کی حکومت کے ساتھ مل کر مقامی لوگوں پر جبر اور تشدد کا استعمال کیا تو زمین کی ملکیت کے حقوق کے لئے پورے انڈیا میں ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی جو حکومت کی بے حد کوششوں کے باوجود ویدانتا کو کان کنی کرنے کا اختیار حاصل کرنے سے روکنے میں کامیاب ہو گئی۔
لیکن دنیا کے کئی دوسرےعلاقوں میں کان کنی کی کمپنیوں کو شاذ و نادر ہی اس طرح مقامی زمینوں پر قبضہ کرنے سے روکا گیا ہے۔ تقریبا تمام کا تمام برِ اعظم افریقہ اور لاطینی امریکہ عام طور پر اور کانگو، سیرا لیون، وینزویلا، بولیویا اور نائیجیریا جیسے ممالک خاص طور پر معدنی وسائل کے باعث خانہ جنگی، دھاندلی زدہ انتخابات، لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی، مہاجرین کے بحران اور بچوں کے جسمانی اور جنسی استحصال جیسے کئی مسائل کا سامنا کرتے رہے ہیں۔
ریکوڈک زمین سے قیمتی سونا اور تانبا نکالنے کے لیے کان کنی کا منصوبہ تھا۔
ان مسائل کی ظالمانہ نوعیت کو اجاگر کرنے کے لئے اکثر ’بلڈ ڈائمنڈز‘ یا خونی ہیروں جیسی خونچکاں اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح لوگوں کے وسائل پر قبضہ کرنے والی کمپنیاں طاقت اور منافع کے حصول کے لئے جبر و تشدد کی کسی بھی حد تک جانے پر تیار ہوجاتی ہیں۔
تاہم ان تمام علاقوں میں اٹھنے والا سوال ایک ہی رہا ہے: اگر لوگ صدیوں سے کسی زمین پر آباد ہیں تو کسی ریاست یا کمپنی کو اس علاقے پر قبضہ کرنے یا اس میں موجود وسائل کو حاصل کرنے کا کیا حق ہے؟ اسی سے ایک اور اہم سوال جنم لیتا ہے: وسائل سے مالا مال مقامات پر رہنے والے لوگ ان وسائل کے نکلنے پر اتنا فائدہ کیوں نہیں اٹھا پاتے جتنا فائدہ ریاستوں اور کمپنیوں کو ہوتا ہے؟
پاکستان میں بھی قدرتی اور معدنی وسائل کو زمین سے نکالنے کے لئے بنائے جانے والے گزشتہ کئی منصوبوں نے انہی سوالات کو جنم دیا ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال شمال مشرقی بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی میں پائے جانے والے قدرتی گیس کے ذخائر ہیں جو 1952 میں دریافت ہوئے۔ اس دریافت کے تین سالوں کے اندر اندر ریاست نے سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کے نام سے دو ادارے قائم کیے جن میں مقامی لوگوں کو محض ادنیٰ درجے کی نوکریاں ہی دی گئیں۔
ان کمپنیوں نے سوئی سے نکلنے والی گیس پاکستان کے طول و عرض میں فراہم کرنا شروع کردی لیکن خود ڈیرہ بگٹی میں یہ سہولت آج تک میسر نہیں۔ سوئی قصبے میں گیس کے 87 کنویں اور 800 ملین فٹ گیس موجود ہے لیکن وہاں کے لوگ اب بھی اپنے چولہوں میں لکڑی اور کوئلہ جلاتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ سوئی کی گیس پاکستان کی قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر گئی کیونکہ یہ کراچی اور فیصل آباد کی فیکٹریوں کو چالو رکھنے کے ساتھ ساتھ لاہور اور اسلام آباد کے گھروں اور دفاتر کو گرم رکھنے کا سستا ترین ذریعہ تھی۔
تاہم بلاچستان کو گیس کی دریافت کے بعد جس خوشحالی کی امید تھی وہ پوری نہیں ہو سکی۔ اب تک اس صوبے کے 33 اضلاع میں سے صرف دس میں قدرتی گیس فراہم کی گئی ہے جبکہ ریاست نے ڈیرہ بگٹی سمیت یہاں کے کئی ضلعوں کو ایک ممنوعہ علاقے کی حیثیت دے رکھی ہے۔ غیر ملکی باشندے اور پاکستان کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ڈیرہ بگٹی میں حکومتی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے جبکہ یہاں کے مقامی لوگوں کو بھی اپنی شناختی دستاویزات ہر وقت اپنے پاس رکھنا پڑتی ہیں کیونکہ انہیں دکھا کر ہی وہ ضلعے میں قائم متعدد حفاظتی چوکیوں سے گزر سکتے ہیں۔
2006 سے ڈیرہ بگٹی میں چھوٹے پیمانے پر ایک شورش جاری ہے۔ اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب بگٹی قبیلے کے سربراہ اور بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور گورنر نواب اکبر بگٹی ایک فوجی کارروائی میں مارے گئے۔ وہ کئی دہائیوں تک ریاست کے ساتھ اس قدر تعاون کرتے رہے کہ انھوں نے اپنے ہی لوگوں کا استحصال کرنے میں ریاست کی مدد کی لیکن ریاستی اداروں کو ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان تمام باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
یہی حال سندھ میں موجود تھر کا ہے جو دنیا کا واحد زرخیز صحرا ہے۔ یہ علاقہ آج کل بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کا مرکز بنا ہوا ہے جن میں زیادہ تر کوئلے سے چلنے والے بجلی بنانے کے کارخانے شامل ہیں۔ ان منصوبوں کی وجہ سے باون سے زیادہ دیہات اور 10000 مربع کلومیٹر اراضی متاثر ہوئی ہے جو تھر کے کل رقبے کا باون فیصد ہے۔
کئی مقامی سماجی کارکن اور ماحولیات کے ماہرین اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ کوئلے کی کان کنی اور اس سے بجلی کی پیداوار کی وجہ سے مقامی لوگ، مویشی اور زراعت شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
سرکار کے زیرِ انتظام چلنے والے انسانی حقوق کے قومی کمیشن نے بھی ان مسائل کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے۔ اس کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تھر میں کوئلے کی کان کنی کے نتیجے میں پانی کی آلودگی اور گرد و غبار میں اضافے، نباتات کی تباہی اور جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کے ختم ہونے کا شدید خدشہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کان کنی اور بجلی گھروں کی تعمیر زمین کی ملکیت کے قوانین کی خلاف ورزی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
یہ سب مسائل ہمیں ایک بنیادی سوال کی طرف واپس لے کر آتے ہیں: کان کنی کے منصوبوں اور بجلی گھروں سے بنائے جانے والے اربوں ڈالروں میں سے کتنے پیسے تھر کے باسیوں کو ملیں گے؟ اسی طرح کیا کوہِ دلیل کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی زندگی میں بھی کبھی ریکو ڈک کے سونے کی وجہ سے خوش حالی آئے گی؟
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 2 دسمبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 10 جنوری 2022