عظمت مہر چند ماہ بعد محکمہ ریلوے سے ریٹائر ہونے والے ہیں۔ان کا خیال تھا کہ اب وہ بھاری اوزاروں سے بھرا بیس کلو وزنی تھیلہ اپنے کندھے سے اتار کر آرام کریں گے لیکن انہیں لگتا ہے کہ آرام ان کے نصیب میں نہیں ہے۔
عظمت کا تعلق سندھ کے ضلع گھوٹکی سے ہے جہاں وہ میرپور ماتھیلو ریلوے اسٹیشن پر گینگ مین کی حیثیت سے مستقل ملازم ہیں۔
گینگ مین کا کام ریل کی پٹڑی کی مرمت کرنا اور اسے فعال رکھنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے قدیم زمانے کے اوزاروں کا تھیلا اٹھائے دن بھر پٹڑی کے ساتھ ساتھ کئی کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں ٹریک کی مرمت والی جگہ تک پہنچنے کے لیے پٹڑی پر چلنے والی گاڑی تو مل جاتی ہے لیکن انگریزوں کے زمانے کی اس ہتھ گاڑی کو بھی خود دھکیلنا پڑتا ہے جو بجائے خود ایک کڑی مشقت ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں ریل کا نظام جدید ہو رہا ہے لیکن پاکستان ریلوے کے گینگ مین اب بھی پرانے طریقوں سے کام کرتے ہیں۔ خستہ حال پٹڑی کو اکھاڑنا ہو، اس کی مرمت کرنی ہو یا نئی پٹڑی بچھانی ہو، گینگ مین یہ کام انہی اوزاروں کے ذریعے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ یہ کام بھاری ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد احتیاط کا بھی تقاضا کرتا ہے کیونکہ ذرا سی غلطی حادثے کا باعث بن سکتی ہے۔
عظمت کا جواں سال بیٹا کام کے دوران اسی طرح کے ایک حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اب اسکی بیوا اور ایک معذور بیٹی سمیت اس کے تین چھوٹے بچوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری بھی عظمت کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ اپنی معمولی سی پنشن میں اپنے خاندان کو کیسے پالیں گے۔
عظمت تو ریلوے کے مستقل ملازم ہیں لیکن ان کا بیٹا کنٹریکٹ پر عارضی ملازم تھا۔ اگرچہ اس کی وفات ڈیوٹی کے دوران ہوئی لیکن محکمے نے اس کے اہلخانہ کی کوئی مالی معاوضہ یا امداد نہیں دی۔
گینگ مین دوسرے پے سکیل کا ملازم ہوتا ہے۔ اس سے اوپر کی مین کا عہدہ ہے جسے تیسرا سکیل ملتا ہے جبکہ پانچویں سکیل میں کام کرنے والا میٹ گینگ مین کا انچارج ہوتا ہے۔
جو ملازمین مستقل بنیادوں پر بھرتی ہوتے ہیں ان کی تنخواہ میں سالانہ اضافہ ہوتا ہے اور انہیں سنیارٹی کی بنیاد پر یا تو اگلے سکیل میں ترقی ملتی ہے یا اس کے عوض ان کی تنخواہ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن کنٹریکٹ پر کام کرنے والے یا 'کچے' ملازموں کو بس ماہانہ 25 ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں اور کوئی مراعات نہیں دی جاتیں۔
کنٹریکٹ ملازمین کو نہ تو تنخواہ باقاعدگی سے ملتی ہے اور نہ ہی اوور ٹائم دیا جاتا ہے
گھوٹکی اسٹیشن پر تعینات گینگ مین احسان علی بتاتے ہیں کہ وہ پچھلے بارہ سال سے کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں اور انہیں ماہانہ تنخواہ بھی باقاعدگی سے نہیں ملتی۔ وہ چار بچوں کے باپ ہیں اور کرایے کے مکان میں رہتے ہیں۔ غربت کے باعث وہ اپنے دو بچوں کو ہی پڑھا لکھا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی حادثے میں کوئی کنٹریکٹر ملازم ہلاک ہو جائے تو اسے یا اس کے اہلخانہ کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ دوران ڈیوٹی حادثوں میں معذور ہونے والوں کے لیے بھی کچھ نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں محکمہ انہیں نوکری سے نکال دیتا ہے۔
صرف گھوٹکی میں پچھلے ایک سال میں پانچ گینگ مین حادثات کا شکار ہو چکے ہیں جن میں عظمت کا بیٹا تو زندگی ہی ہار گیا جبکہ باقی چار عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔
وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ گینگ مین کو کام کے دوران کسی قسم کا حفاظتی سامان جیسے ہیلمٹ، مخصوص جوتے اور یونیفارم بھی میسر نہیں ہوتا۔
پکی ڈیوٹی، کچے ملازم
پنوعاقل سے صادق آباد تک ریل کی پٹڑی پر 200 گینگ مین ملازم ہیں۔ عام طور پر ان کے کام کا دورانیہ آٹھ گھنٹے ہوتا ہے لیکن ہنگامی حالات میں انہیں چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے تک بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ اپنے کام کے علاوہ ان سے پٹڑی کی نگرانی کرنے کی اضافی ذمہ داری بھی لی جاتی ہے حالانکہ اس کام کے لیے ریلوے پولیس بھی موجود ہے۔
گھوٹکی میں گینگ مین کی حیثیت سے کام کرنے والے عملے کے انچارج اختر علی کلہوڑو ان ملازموں کے حالات کار کو 'جبری مشقت' قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گھوٹکی کے علاقے گنگی سے پنجاب میں صادق آباد تک 70.73 کلومیٹر ٹریک پر ایک سو 26 گینگ مین کام کر رہے ہیں جن میں 46 عارضی کنٹریکٹ ملازم ہیں۔ اتنے لمبے ٹریک کے لیے زیادہ ملازمین کی ضرورت ہے لیکن پچھلے دس سال میں کوئی نیا ملازم بھرتی نہیں کیا گیا اور کام کا فاضل بوجھ بھی موجودہ ملازمین ہی اٹھا رہے ہیں۔
کنٹریکٹ پر کام کرنے والے گینگ مین غالب حسین کہتے ہیں کہ ان جیسے ملازمین کو نہ تو تنخواہ باقاعدگی سے ملتی ہے اور نہ ہی اوور ٹائم دیا جاتا ہے۔ ڈیوٹی کے دوران ملازمین کو اپنے کھانے کا انتظام بھی خود کرنا پڑتا ہے اور سرکاری کام سے آنے جانے کے لیے کرایہ بھی اپنی جیب سے ادا کرنا ہوتا ہے۔
جو گینگ مین اپنے شہر سے باہر ڈیوٹی دیتے ہیں انہیں محکمے کی طرف سے رہائش کی سہولت بھی نہیں ملتی اور انہیں کرایے کے مکانوں میں رہنا پڑتا ہے۔ میرپور ماتھیلو ریلوے سٹیشن پر گینگ مین کے طور پر کام کرنے والوں کے لیے انگریز دور میں بنائے گئے کوارٹر تو موجود ہیں لیکن یہ اس قدر خستہ حال ہو چکے ہیں کہ ان میں رہنا ممکن نہیں ہے۔ کرایے کے مکانوں میں رہنے والے ان مزدوروں کو کسی طرح کا کوئی رہائش الاؤنس بھی نہیں دیا جاتا۔
قانون کے مطابق جو ملازم 90 روز تک کنٹریکٹ پر کام کر لیتا ہے وہ مستقل ملازمت کا حق دار ہو جاتا ہے
ریلوے ملازموں کی تنظیم پریم یونین کے مرکزی سیکرٹری جنرل خیر محمد تونیو کو شکوہ ہے کہ ہر حکومت وعدہ کرتی ہے کہ وہ ریلوے مزدوروں مستقل کر دے گی لیکن بات وعدے سے آگے نہیں بڑھتی۔ ریلوے کے سابق وزراء شیخ رشید اور ان کے بعد خواجہ سعد رفیق یہ وعدہ کر چکے ہیں جو تاحال ایفا نہیں ہوا۔ ان کے مطابق ریلوے میں بڑی تعداد میں اسامیاں خالی ہیں اور اگر تمام عارضی ملازموں کو مستقل کر دیا جائے تب بھی بہت سی اسامیاں خالی رہیں گی۔
خیرمحمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ قانون کے مطابق جو ملازم 90 روز تک کنٹریکٹ پر کام کر لیتا ہے وہ مستقل ملازمت کا حق دار ہو جاتا ہے۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ جو گینگ مین دس دس سال سے کام کر رہے ہیں انہیں بھی مستقل نہیں کیا جا رہا۔
سندھ ہائی کورٹ کے لاڑکانہ بینچ میں کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کا مقدمہ چار سال سے زیرسماعت ہے جس پر ابھی تک فیصلہ نہیں آیا۔
'ہماری وزارت حساس ہے'
گینگ مینوں کے حالت کار اور ان کی ضرورت سے کم تعداد صرف چند ملازمین کے حقوق کی پامالی کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ریلوے ٹریک کو خستہ حال بنانے کا ذمہ دار بھی ہے جس سے ریل حادثوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
7 جون 2021 کو گھوٹکی کے ریتی اسٹیشن کے قریب پٹڑی خراب ہونے کی وجہ سے پیش آنے والے حادثے میں 66 افراد ہلاک اور 130 زخمی ہو گئے تھے۔ اس حادثے کی انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسٹیشن کے قریب پٹڑی ٹوٹ گئی تھی جسے درست طریقے سے جوڑا نہیں گیا تھا۔ چنانچہ جب ٹرین وہاں سے گزری تو بوگیاں ٹریک سے اتر گئیں۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ روہڑی سے ملتان کے درمیان 13 جگہوں پر پٹڑی انتہائی خستہ حال ہے۔ اسی ٹریک پر 17 دسمبر 2022 کو گھوٹکی میں ایک مال بردار ٹرین کا انجن اور تین بوگیاں پٹری سے اتر گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں
حادثوں کا ہجوم: پاکستان ریلوے میں بد انتظامی اور نا اہلی نے ریل کے سفر کو کتنا غیر محفوظ کر دیا ہے۔
ٹرینوں کو زیادہ تر حادثات پٹڑی خراب ہونے کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ ریلوے کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں ملک بھر میں ٹرینوں کے حادثات کی تعداد 152 تھی جو 22-2021 میں کم ہو کر 56 پر آ گئی۔
گینگ مینوں کے نمائندے کہتے ہیں اس بہتری میں ان کا خون پسینہ بھی شامل ہے لیکن انہیں کبھی اس کا صلہ نہیں ملتا اور ان کی حالت جوں کی توں ہی رہتی ہے۔
کنٹریکٹ ملازمین کو استحقاق کے باوجود مستقل نہ کیے جانے کی وجوہات جاننے کے لیے جب سکھر کے ڈویژنل سپریٹنڈنٹ ریلوے کے آفس سے رابطہ کیا گیا تو وہاں سے جواب ملا کہ ''ہماری وزارت حساس ہے اور اسی لیے ہمیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔''
تاریخ اشاعت 4 فروری 2023