کوئٹہ کی گلیوں سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر: باغوں کے شہر کا تعفن کیسے ختم ہو گا؟

postImg

مطیع اللہ مطیع

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

کوئٹہ کی گلیوں سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر: باغوں کے شہر کا تعفن کیسے ختم ہو گا؟

مطیع اللہ مطیع

loop

انگریزی میں پڑھیں

کوئٹہ کے محمد ایاز چار سال تک گھر کا کوڑا گلی کی نکڑ میں رکھے کچرا دان میں پھینکتے رہے ہیں۔ تاہم اب انہیں یہ کچرا معاوضہ دے کر اٹھوانا پڑتا ہے کیونکہ دو سال پہلے یہ کچرا دان اٹھا لیا گیا تھا اور لوگوں کو اس کا کوئی متبادل بھی مہیا نہیں کیا گیا۔

ایاز کہتے ہیں کہ یہ کچرا تعفن اور بیماریاں پھیلا رہا ہے۔ جب ہوا چلتی ہے پلاسٹک کے بیگ اور دیگر کوڑا کرکٹ ان کے گھر کے سامنے جمع ہو جاتا ہے جس پر مکھیاں بھنبھاتی رہتی ہیں اور خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں ان لوگوں کو بہت مشکل پیش آتی ہے۔

میونسپل کارپوریشن نے شہر کے گلی کوچوں میں بڑے کچرا دان رکھنے کا سلسلہ دو برس قبل ختم کر دیا تھا۔ اب لوگ عموماً گلی کے کسی ایک مقام پر کچرا پھینک جاتے ہیں جسے کارپوریشن کی چھوٹی گاڑیاں اٹھا لے جاتی ہیں۔

میٹرو پولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کے ایڈمنسٹریٹر عبدالجبار بلوچ کا کہنا ہے کہ کارپوریشن کے پاس کچرا اٹھانے کے لیے 95 ڈمپر اور 78 چھوٹی گاڑیاں ہیں۔ اس کے علاوہ صفائی کرنے اور نکاسی آب کے لیے تقریباً 400 مستقل اور اتنے ہی دیہاڑی دار ملازم بھی تعینات ہیں جن کی مدد سے روزانہ سات سو ٹن کچرا ٹھکانے لگایا جاتا ہے جبکہ باقی اسی ماحول میں رہ جاتا ہے۔ اس کے لیے کارپوریشن چھ ماہ یا ایک سال بعد خصوصی صفائی مہم شروع کرتی ہے تاہم مالی بحران کی وجہ سے گزشتہ ڈیڑھ سال سے یہ مہم نہیں چلائی جا سکی۔

عبدالجبار کہتے ہیں کہ 1994ء میں اس وقت کی آبادی کے مطابق کچرا پھینکنے کی جگہ یا ڈمپ سائٹ کا تعین کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد آبادی تو بڑھتی رہی لیکن اس سائٹ کے رقبے میں اضافہ نہ ہو سکا۔

میٹرو پولٹین کارپوریشن کے سابق ایڈمنسٹریٹر طارق جاوید مینگل کے مطابق شہر میں روزانہ 16 سے 17سو ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ مشرقی بائی پاس کے قریب پہاڑی کے دامن میں 60 ایکڑ پر مشتمل ڈمپ یارڈ کچرے سے تقریباً بھر چکا ہے۔

عبدالجبار کے مطابق 2008ء میں کچرے کی ری سائیکلنگ کا پلانٹ لگایا گیا تھا۔ یہ پلانٹ نامیاتی جیسا کہ کچن کے کچرے کی ری سائیکلنگ کرتا ہے۔ تاہم مطلوبہ کچرا نہ ملنے کے باعث پلانٹ بند ہو گیا کیونکہ اس کوڑے کا بڑا حصہ کچرا چننے والے لے جاتے ہیں۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے پاس کچرا چننے والوں کو روکنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔

طارق جاوید مینگل کہتے ہیں کہ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق کوئٹہ کی آبادی 22 لاکھ ہے لیکن حقیقی آبادی تقریباً 40 لاکھ ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے لیے کارپوریشن کو عملے اور مشینری کی کمی کا سامنا ہے۔ کارپوریشن کے پاس جو وسائل ہیں وہ 22 لاکھ آبادی کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے بھی کافی نہیں۔

موسمیاتی تبدیلی و ماحولیات کے صوبائی سیکرٹری اسفندیار خان کاکڑ بتاتے ہیں کہ محکمہ ماحولیات نے لوکل گورنمنٹ کے ساتھ مل کر ایک ورکنگ گروپ بنایا تھا۔ اس نے صوبائی حکومت کو مختلف سفارشات بھیجی ہیں جن میں شہر اور اس کے آس پاس تین سے چار انجینئرڈ لینڈ فِل سائٹس کی نشاندہی کرنا اور جائزہ لینا بھی شامل ہیں۔ اس مقصدکے لیے ڈھائی کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ان سفارشات میں کچرے سے پانچ سے 10 میگاواٹ بجلی بنانے اور موجودہ ڈمپ سائٹ کو بائیو ڈائی ورسٹی پارک میں بدلنے کی فیزیبلٹی سٹڈی بھی دی گئی ہے۔

32 سالہ مرجان گل بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز میں پڑھاتے ہیں۔ وہ پچھلے پانچ سال سے کوئٹہ میں کچرے تحقیق کر رہے ہیں اور شہر کے لیے انجینئرڈ لینڈ فِل سائٹ بنانے کی وکالت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لینڈ فِل سائٹ زیر زمین پانی کے معیار اور ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے لیے اہم ہے۔

وہ تجویز دیتے ہیں کہ اس سائٹ کے لیے ایسی زمین کا انتخاب کیا جائے جو آبادی اور ائیرپورٹ سے دور ہو، چرند پرند متاثر نہ ہوں اور جہاں سے پانی زیرزمین ذخائر میں نہ جاتا ہو۔

مرجان گل کے مطابق ایک لینڈ فِل سائٹ پر کھلے میدان کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ کچرا ڈالا جا سکتا ہے۔ یہ سائٹ روزگار کے مواقع بھی پیدا کر سکتی ہے اور کچرے سے پیدا ہونے والی میتھین سے توانائی بجھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

لاہور میں پیدا ہونے والا ہزاروں ٹن کچرا: 'اس کوڑے کو سنبھالنے کے لئے مؤثر قانون اور مناسب پالیسی موجود نہیں'۔

ماہرین کے مطابق لینڈ فِل سائٹ انجینئرنگ کے قواعد اور معیارات کے مطابق بنائی جاتی ہے۔ اس کا مقصد زمین پر ایسی جگہ تیار کرنا ہوتی ہے جس میں پڑا کچرا ماحولیاتی آلودگی اور صحت عامہ کے لیے خطرہ نہ بنے۔ اس میں بجری، مٹی اور دیگر مواد سے بنی تہیں کچرے سے نکلنے یا گزرنے والے پانی کو زیرزمین جانے سے روکتی ہیں۔ کچرے میں بننے والی میتھین گیس کے اخراج کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔

جامعہ بلوچستان کے شعبہ انوائرمنٹل سائنسز سے وابستہ چنگیز خان سمجھتے ہیں کہ شہر کے لیے تین سے چار لینڈ فِل سائٹس کی تعمیر ضروری ہے۔

بارش میں ڈمپ سائٹ کے کھلے کچرے سے کیمیکل پانی کے ساتھ بہہ جاتے ہیں اور یہ پانی کسی دریا یا جھیل کا حصہ بن کر آبی حیات کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔

"ڈمپ سائٹ پر نامیاتی اور غیرنامیاتی دونوں اقسام کا کچرا پھینکا جاتا ہے۔ ان کے گلنے سڑنے یا جلنے سے خارج ہونے والی گیسیں فضائی آلودگی پپدا کرتی ہیں جبکہ لینڈ فِل سائٹس کے ذریعے ان تمام خطرات سے بچاؤ ممکن ہے۔"

تاریخ اشاعت 29 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مطیع اللہ مطیع کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی، خواتین اور بچوں کی حقوق سے متعلق مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.