سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز سے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کو سات سال گزر گئے ہیں لیکن ان کا مقدمہ تاحال انجام کو نہیں پہنچ سکا۔
قندیل بلوچ کو 15 اور 16 جولائی 2016 کی درمیانی شب ملتان کے علاقے مظفرآباد میں ان کے گھر میں گلا گھونٹ کر قتل کر دیا تھا۔
اس قتل کا الزام قندیل کے بھائی وسیم اور پانچ دیگر ملزموں پر عائد کیا گیا۔ وسیم نے ناصرف اس قتل کا میڈیا کے سامنے اعتراف کیا بلکہ علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان بھی ریکارڈ کرایا تھا کہ اس نے غیرت کے نام پر اپنی بہن کو قتل کیا ہے۔
علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت سے شروع ہونے والا یہ کیس سیشن کورٹ کے بعد ہائیکورٹ تک چلا اور اب اس کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
قتل کے اس مقدمے کی پہلی سماعت 24 اکتوبر 2016ء کو ہوئی تھی اور 27 ستمبر 2019ء کو ملتان کی سیشن کورٹ نے محمد وسیم کو تمام گواہوں اور ثبوتوں کی روشنی میں جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی۔ وسیم نے اپنے والدین کی جانب سے راضی نامی بھی عدالت میں پیش کیا جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔
عدالت نے ٹرائل کیس میں قندیل بلوچ کے بھائی اسلم شاہین، مفتی عبدالقوی، حق نواز، عبدالباسط اور محمد ظفر حسین کو عدم شواہد کی بنیاد پر بری کردیا تھا۔
سعودی عرب میں مقیم قندیل کے تیسرے بھائی محمد عارف کو عدالت پیش نہ ہونے پر اشتہاری قرار دیا گیا۔
ان کی گرفتاری انٹرپول کے ذریعے عمل میں آئی اور سیشن کورٹ میں ٹرائل کے بعد انہیں بھی بری کر دیا گیا۔
یہ مقدمہ دو سال 11 ماہ اور تین دن زیر سماعت رہا۔ اس دوران پانچ ججوں نے یہ کیس سنا اور 146ویں سماعت میں فیصلہ سنایا گیا۔ مقدمے کی سماعت تقریباً 30 مرتبہ وکلا اور گواہوں کی عدم موجودگی کے باعث ملتوی ہوئی۔
مرکزی ملزم وسیم نے اپنے والدین کے ساتھ راضی نامے کی بنیاد پر لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ میں میں سزا کے خلاف اپیل کی۔ چودہ فروری 2022ء کو ملتان بینچ نے اس راضی نامے اور ملزم کے اعتراف جرم پر مبنی بیان میں قانونی نقائص کو بنیاد بناتے ہوئے اسے بری کر دیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ میں تعینات ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر محمد عبدالودود کہتے ہیں کہ ملزم وسیم کو جن وجوہات کی بناءپر ہائی کورٹ نے بری کیا وہ حیران کن ہیں۔
ہائی کورٹ نے والدین کی جانب سے وسیم کو معاف کرنے کی بنیاد پر انہیں بری کیا گیا تھا لیکن عدالت میں کوئی نیا راضی نامہ جمع نہیں کروایا گیا اور یہ وہی راضی نامہ تھا جسے سیشن کورٹ نےمسترد کر دیا تھا۔
قندیل بلوچ کے والد محمد عظیم ماہڑہ اس اپیل کے فیصلے سے قبل ہی وفات پا گئے تھے۔ اس طرح قندیل کے بری ہونے والے دوسرے بھائی حق نواز ان کے وارث ٹھہرے لیکن ان کی جانب سے بھی راضی نامے کا کوئی بیان عدالت میں جمع نہیں کرایا گیا۔
انہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 19 فروری 2022 کو پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو رائے بھجوائی گئی جس کی بنیاد پر اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔
ماہر قانون ثنا اقرار کے مطابق ہائی کورٹ نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ ٹرائل کورٹ نے راضی نامے کے بیان کو مسترد کرکے ملزم وسیم کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 311 (فساد فی الارض) کے تحت سزا سنائی تھی۔ ہائیکورٹ اس کیس کو 311 سے 302 یعنی (قتل عمد) میں بدل سکتی تھی۔
ابتدائی ایام میں اس مقدمے کی پیروی کرنے والی وکیل ثمرہ بلوچ کے مطابق کیس میں بیسیوں گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں۔ حتٰی کے ملزم محمد وسیم کا اعتراف جرم کا بیان ریکارڈ کرنے والے جوڈیشل مجسٹریٹ محمد سرفراز انجم نے بھی حلفیہ بیان میں تمام پس منظر سیشن عدالت کے روبرو بطور گواہ پیش کیا۔
"ہائی کورٹ نے اس نکتے پر اعتراض اٹھایا کہ ملزم کو اعتراف جرم کے بعد پولیس کی تحویل میں دینے کی بجائے جیل بھجوایا جانا چاہیے تھا جبکہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اعتراف جرم کے بعد ملزم کو پولیس تحویل میں دینا اقبالی بیان کے رضاکارانہ ہونے کے خلاف ثبوت نہیں ہوسکتا"۔
یہ بھی پڑھیں
غیرت کے نام پر قتل: 'جب تک معاشرہ ایسے جرائم کی حوصلہ شکنی نہیں کرے گا تب تک یہ واقعات ہوتے رہیں گے'
قندیل بلوچ کو پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا سیلیبرٹی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان کے ایک غریب خاندان سے تھا۔ان کا اصل نام فوزیہ عظیم تھا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے بے باک انداز کی وجہ سے شہرت پائی اور یہی بعد میں ان کی قتل کا سبب بنی۔
قندیل بلوچ کے قتل کے بعد اکتوبر 2016 میں پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل سے متعلق قانون میں ترمیم کی جس کے تحت مقتول کے لواحقین کی جانب سے معاف کیے جانے کے باوجود قاتل کو عمر قید کی سزا ہو گی۔
اس سے پہلے غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر مقدمات میں مقتول کے ماں باپ یا بہن بھائی مقدمے کے مدعی بن کر قاتل کو معاف کر دیتے تھے اور اس طرح ملزم بری ہو جاتے تھے۔
ملزم وسیم کی بریت کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی اپیل میں یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں حقائق کا درست انداز میں جائزہ نہیں لیا اس لیے عدالت عمر قید کی سزا کو بحال کرے۔
تاریخ اشاعت 16 جولائی 2023