لاہور اور ملتان سمیت پنجاب کے کئی اضلاع نومبر کے پہلے ہفتے سے ہی بدترین سموگ کی لپیٹ میں ہیں۔ بعض شہروں میں ائیرکوالٹی انڈکس (اے کیو آئی) دو ہزار کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کیا گیا ہے۔
کچھ ماہرین کے مطابق فروری 2025ء تک صوبے کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم اس کے تدارک کے لیے حکومت کئی اقدامات کر رہی ہے۔
صوبائی دارالحکومت کے علاوہ ضلع قصور، ننکانہ، گوجرانولہ، گجرات، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، نارروال، فیصل آباد، چنیوٹ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ملتان، لودھراں، وہاڑی اور خانیوال میں 17 نومبر تک تعلیمی ادارے (پرائمری سے ہائر سکینڈری سکولز)، میوزیم اور تفریح گاہیں بند کر دی گئی ہیں۔
لاہور، ملتان، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں شاپنگ مالز اور دکانیں رات آٹھ بجے بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جبکہ اس سب سے بڑھ کر لاہور کے کچھ علاقوں میں 'گرین لاک ڈاؤن' بھی لگا دیا گیا ہے۔
ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب نے اس گرین لاک ڈاؤن کا نوٹیفکیشن 29 اکتوبر کو جاری کیا تھا جن میں ڈیوس روڈ، ایجرٹن روڈ، ڈیورنڈ روڈ، کشمیر روڈ، ایبٹ روڈ (شملہ پہاڑی سے گلستان سینما )، ایمرپس روڈ (شملہ پہاڑی تا ریلوے ہیڈکوارٹرز)، گڑھی شاہو، کوئین میری روڈ اور اطراف کے علاقے شامل کیےگئے۔
اس نوٹیفکیشن کے تحت ان علاقوں میں چنگ چی رکشوں، بھاری ٹریفک کےداخلے، دھواں چھوڑنے والے جنریٹرز چلانے، اوپن فوڈ کوکنگ، باربی کیو بنانے، لکڑیاں اور کوئلہ جلانے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ سرکاری و نجی دفاتر میں ملازمین کی حاضری 50 فیصد کردی گئی ہے۔
شادی ہالز اور مارکیز میں رات 10 بجےکے بعد تقریبات پر پابندی کے علاوہ لاہور شہر میں ہفتہ اور اتوار کی شب بھاری گاڑیوں کا داخلہ بند ہے۔ جبکہ گرین لاک ڈاؤن والے علاقوں میں تعمیراتی کام روک دیے گئے ہیں۔
مخصوص علاقوں میں گرین لاک ڈاؤن کے فوائد تو ابھی تک سامنے نہیں آئے مگر اس کے نقصانات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
اسد محمود گڑھی شاہو کے رہائشی ہیں جو ایک باربی کیو ریسٹورنٹ پر یومیہ اجرت پر ملازم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اوپن فوڈ کوکنگ پر حکومتی پابندی کی وجہ سے ریستوران مالکان نے کام ہی عارضی طور پر بند کر دیا ہے جس کے باعث وہ ایک ہفتے سے بیروزگار بیٹھے ہیں۔
صرف اسد محمود ہی نہیں گرین لاک ڈاؤن کے علاقوں میں پارکنگ سٹینڈز، لوڈنگ ان لوڈنگ اور تعمیراتی سیکٹر وغیرہ میں دہاڑی پر کام کرنے والے تمام مزدور روزی روٹی سے محروم ہو گئے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے علاقوں کا انتخاب کیسے کیا گیا؟
سیکرٹری ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب راجہ جہانگیر انور بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے لیے علاقے میں ٹریفک کے رش اور ان سے نکلنے والے دھویں، ائیرکوالٹی کی شرح، تعمیراتی کاموں، جنریٹرز کے استعمال، تعلیمی اداروں کی تعداد، پارکنگ سٹینڈز اور مارکیٹوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں فضائی آلودگی کی سرگرمیوں کو مدنظررکھتے ہوئے 12 'ہاٹ سپاٹ ایریاز' منتخب کیے گئے جہاں گرین لاک ڈاؤن لگایا گیا۔ اب مزید 11 علاقوں میں لاک ڈاؤن لگانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔
گرین لاک ڈاؤن سےائیر کوالٹی میں کتنا فرق پڑا؟
شملہ پہاڑی اور گردونواح کے تقریباً ایک کلومیٹر علاقے میں گرین لاک ڈاؤن لگایا گیا۔ اس لاک ڈاؤن سے پہلے اور بعد کے ائیرکوالٹی کا جائزہ لیں تو خرابی میں اضافہ ہی نظر آتا ہے۔
گرین لاک ڈاؤن سے قبل شملہ پہاڑی ایریا کا ائیرکوالٹی انڈکس (ای پی اے پنجاب)
تاریخ | 27 اکتوبر | 28 اکتوبر | 29 اکتوبر | 30 اکتوبر | 31 اکتوبر |
شملہ پہاڑی | 246 | 362 | 272 | 249 | 170 |
لاہور(اوسط) | 262 | 353 | 324 | 248 | 192 |
گرین لاک ڈاؤن کے بعد شہر اور شملہ پہاڑی کا ائیرکوالٹی انڈکس
لاہور اوسط اے کیو آئی
تاریخ | ای پی اے | اے آئی ائیر | شملہ پہاڑی |
5 نومبر | 309 | 509 | 262 |
6 نومبر | 447 | 729 | 405 |
7 نومبر | 607 | 730 | 532 |
8 نومبر | 588 | 698 | 521 |
9 نومبر | 559 | 664 | 492 |
اے کیو آئی تو یہی ظاہر کرتا ہے کہ گرین لاک ڈاؤن سے سموگ اور فضائی آلودگی میں کوئی کمی نہیں آسکی۔ البتہ ان علاقوں میں لوگوں کی زندگیاں ضرور متاثر ہو رہی ہیں اور دہاڑی دار پریشان ہیں۔
پنجاب کے چار ڈویژنوں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان میں ہائرسکینڈری سطح تک تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے 17 نومبر تک بند کیے گئے ہیں اور بچوں کو آن لائن پڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ڈیوس روڈ کی رہائشی ثمینہ جاوید سکولوں کی بندش کو مضحکہ خیز اقدام قرار دیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اول تو سرکاری سکولوں میں آن لائن سٹڈی کی سہولت ہی نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو غریب آدمی اپنے بچوں کو کیسے آن لائن پڑھائے گا۔
"میرے چار بچے ہیں اور شوہر کی ماہانہ آمدنی 45 ہزار روپے ہے جبکہ ہم کرایہ کے گھر میں رہتے ہیں۔ حکومت نے تو کہہ دیا کہ بچے آن لائن سٹڈی کریں لیکن ہم انہیں موبائل یا لیپ ٹاپ کہاں سےلے کر دیں؟ اور پھر انٹرنیٹ بھی چاہیے ہوگا۔"
سیکرٹری ماحولیات راجہ جہانگیر انور تسلیم کرتے ہیں کہ گرین لاک ڈاؤن کےخاطر خواہ نتائج نہیں مل سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ بھارتی شہروں چندی گڑھ، سہارن پور، نئی دہلی، ہریانہ، جالندھر، جے پور، جودھ پور وغیرہ سے آنے والی ہوائیں لاہور، ملتان اور ملحقہ پاکستانی علاقوں میں فضائی آلودگی بڑھا رہی ہیں۔ یہ صورتحال آئندہ چند روز تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔
ایشیئن کنسلٹنگ انجینئر اور ماحولیاتی ماہر علیم بٹ سمجھتے ہیں کہ انڈسٹری چلنے اور سڑکوں پر ٹریفک کے رش کی وجہ سے گرین لاک ڈاؤن کا زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ سموگ کی سب سے بڑی وجہ ٹرانسپورٹ کا دھواں ہے۔
"یقینی اور بہتر نتائج کے لیے حکومت کو مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جانا ہوگا۔ جس طرح ہم نے ماضی میں دیکھا کہ جب کورونا (کوڈ-19) آیا تھا تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے ائیرکوالٹی پر بہت فرق پڑا تھا۔"
تاہم ماہر ماحولیات بدر منیر مربوط اور ٹھوس اقدامات پر زور دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ برطانیہ اور چین کو ماضی میں شدید سموگ کا سامنا رہا لیکن وہاں حکومتوں نے ٹھوس اقدامات کیے جس کی وجہ سے فضائی آلودگی میں واضح کمی آئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ دسمبر 1952ء میں لندن پانچ روز تک سموگ کی لپیٹ میں رہا جسے 'دی گریٹ سموگ آف لندن' بھی کہاجاتا ہے۔ ان دنوں میں وہاں 10 ہزار اموات ہوئیں اور لوگ گھروں و تہہ خانوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔
ان کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ نے 1956ء میں قانون سازی کی، کلین ائیر ایکٹ کے تحت آلودگی کنٹرول کرنے کے لیے شہریوں اور صنعت کاروں کو سبسڈیز دی گئیں تاکہ معیاری ایندھن کا استعمال یقینی بنایا جا سکے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بھاری جرمانے کیے گئے اور زیادہ پرانی گاڑیوں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
بدرمنیر کا کہنا ہے کہ برطانوی اقدامات کا نتیجہ سامنے ہے۔ چینی شہر بیجنگ میں بھی سموگ میں کمی کے لیے کئی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اگرچہ بیجنگ میں ابھی آلودگی ختم نہیں ہوئی لیکن وہاں پچھلے برسوں کی نسبت کمی ضرور آئی ہے۔
پنجاب حکومت سموگ میں کمی کے لیے مصنوعی بارش برسانے کا بھی سوچ رہی ہے لیکن ماہرین اسے مالی اور کلائمیٹ چینج کے اعتبار سے 'مہنگا سودا' قرار دیتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی بتاتے ہیں کہ نومبر کے پہلے دو ہفتوں میں مصنوعی بارش ممکن نہیں کیونکہ اس کے لیے بادلوں کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم جنوری میں مصنوعی بارش ممکن ہو گی اور یہ بہت مہنگی پڑتی ہے۔
وہ تجویز دیتے ہیں کہ مصنوعی بارش کی بجائے لاہور کی جن سڑکوں پر ٹریفک کی آلودگی زیادہ ہے وہاں پانی کا چھڑکاؤ کیا جائے۔ ایسے شاورنگ ٹرک چلائے جائیں جو 80 سے 90 فٹ تک چھڑکاؤ کر سکتے ہیں۔اس سے فضا میں موجود دھویں کے ذرات پانی کے ساتھ نیچے گر جاتے ہیں۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی کہتے ہیں کہ سنٹرل اور مشرقی پنجاب میں سموگ کی ایک وجہ فصلوں کی باقیات کو لگائی جانے والی آگ ہے۔ تاہم انٹرنیشنل سنٹرفار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (آئی سی آئی موڈ) نے پاکستان میں سموگ پر ریسرچ کے لیے 10 ملین ڈالر کا ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے۔
"اس منصوبے کے تحت پاکستانی و بھارتی ماہرین ماحولیات مل کر سموگ کے اصل سورس کا درست تعین کر سکتے ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب شہروں میں سینسرز لگا کر ائیرکوالٹی کو مانیٹر کیا جاسکتا ہے جس سے یہ بھی فوراً معلوم ہو جائے گا کہ آلودگی کہاں سے پیدا ہورہی ہے۔ تاہم اس کے لیے دونوں اطراف کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔"
وزیراعلیٰ مریم نواز بھی سموگ کے معاملے پر بھارت سے ماحولیاتی ڈپلومیسی شروع کرنے کی بات کر چکی ہیں۔ اس سلسلے میں پنجاب حکومت نے وزارت خارجہ کو ایک خط بھی لکھا ہے کہ بھارتی حکومت سے ماحولیات پر بات کی جائے۔
حکومت فضائی آلودگی میں کمی کے لیے مربوط اور ٹھوس اقدامات کرے تو بہتر ہے۔ ورنہ کووڈ کا لاک ڈاؤن ہو یا گرین لاک ڈاؤن، اس کے منفی نتائج غریب طبقات، دہاڑی دار مزدوروں کو بیروزگاری اور ان کے بچوں کو تعلیم سے محرومی کی شکل میں بھگتنے پڑتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 14 نومبر 2024