ایک وقت تھا جب علاقے کے ہر امیر غریب کی خواہش تھی کہ ان کے بچے کا داخلہ کسی بھی طرح "گورنمنٹ ہائی سکول نارنگ نمبر ون" میں ہو جائے۔ کیوں کہ اس زمانے میں یہ سکول نہ صرف نصابی بلکہ غیرنصابی سرگرمیوں میں ضلع شیخوپورہ میں ایک ممتاز مقام رکھتا تھا۔
نارنگ منڈی ایک چھوٹا کا قصبہ ہے اور آج سے دو دہائیاں پہلے تک اس کی آبادی بھی کوئی اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ ان دنوں جب سکول میں چھٹی ہوتی تھی تو اطراف کی سڑکیں جام ہو جایا کرتی تھیں۔ گلیوں اور بازاروں میں ہر طرف دیہات جانے والے بچوں کی سائیکلیں، رکشے اور ویگنیں نظر آتی تھیں۔
یہ سکول 1895ء میں پرانی سبزی منڈی میں بنا تھا جو شروع میں پرائمری تک کی تعلیم کے لیے تھا۔ 1922ء میں اس کو مڈل کا درجہ دیا گیا پھر 1950ء میں اس کی عمارت کو نارنگ منڈی میں قائم ایک ہندو ڈاکٹر بیساکھی رام کی ڈسپنسری کی جگہ (جو چار کنال پر محیط تھی) منتقل کرکے ہائی سکول کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد اپ گریڈیشن ہوئی تو اس سکول کو 25 کنال (تقریبا تین ایکڑ) رقبہ مل گیا۔
اب بھی سکول کے 16 کنال رقبے پر کھیلنے کے لیے میدان ہیں اور نو کنال رقبے پر 30 کلاس رومز۔
1952ء میں اس گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم بشیر احمد جٹھول کہتے ہیں کہ ان کی کلاس کے تمام بچے بہترین نمبروں سے پاس ہوئے تھے۔
"وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سکول میں طلبا کی تعداد بڑھتی ہی چلی گئی کیوں کہ یہ سکول اچھی پڑھائی کے ساتھ ساتھ بیت بازی، نعت خوانی اور کھیلوں میں بھی بہت آگے تھا۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں تو اس سکول میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد تین ہزار سے بھی زیادہ ہوا کرتی تھی۔"
وہ بتاتے ہیں کہ اس ادارے نے بہت سے ایسے نام پیدا کیے ہیں جو پاکستان کے بڑے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں یا پھر ابھی بھی کام کر رہے ہیں۔
"سابق آئی جی اسلام آباد مروت شاہ، سابق ایڈیشنل آئی جی اسلام آباد افتخار سیہول، اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹرنل اکاؤنٹبلٹی برانچ آئی جی آفس شیخ زاہد محمود، پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے نثار احمد پنوں اسی سکول سے پڑھے ہیں۔
سابق ڈائریکٹر آئی ایس آئی راشد معین، سابق ممبر صوبائی اسمبلی و پارلیمانی سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اعجاز احمد سیہول، معروف صحافی اطہر مسعود اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر منڈی بہاؤالدین رضا صفدر کاظمی نے بھی اسی سکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔"
لیکن اب اس سکول میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد محدود ہو کر رہ گئی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں مزید کمی آ رہی ہے۔
محمد نعمان جو اسی سکول سے پڑھے اور پچھلے 14 سال سے یہاں پڑھا رہے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ چھٹی کلاس سے دسویں کلاس تک اب تقریباً 600 بچے زیر تعلیم ہیں حالانکہ آج سے کچھ سال پہلے تک تو صرف ایک کلاس میں بچوں کی اتنی تعداد ہوا کرتی تھی اور ہر کلاس کے پانچ سے چھ سیکشن بنائے جاتے تھے۔
سکول کے پرنسپل محمد شفقت چھٹہ بتاتے ہیں کہ سکول میں 42 تجربہ کار اور اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ ہیں جن میں ایک پی ایچ ڈی باقی ایم فل اور مختلف سبجیکٹس سپیشلسٹ ہیں۔
سکول میں فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، الیکٹریکل اور ایئرکنڈیشنڈ کمپیوٹر لیب موجود ہیں۔ دو ہزار کتابوں پر مشتمل لائبریری اور 30 روشن اور ہوا دار کمرے، وسیع میدان اور سکول میں سکیورٹی کیمرے تک لگے ہوئے ہیں۔
"اتنی سہولیات ہونے کے باوجود موجودہ تعداد کے حساب سے اس سکول میں ہر ایک کوالیفائیڈ استاد کے حصے 14 بچے آتے ہیں اور ہر 20 بچوں کے لیے ایک کمرہ ہے۔"
چیف ایگزیکٹو آفیسر ایجوکیشن ضلع شیخوپورہ علی احمد سیان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ضلع بھرکے سرکاری سکولوں، خصوصی طور پر گورنمنٹ ہائی سکول نارنگ کی مینجمنٹ کو اس سیشن چھٹی اور نہم کلاس میں داخلہ بڑھانے اور چیک اینڈ بیلنس کے لیے خصوصی ٹاسک دے دیا گیا ہے۔ امید ہے اس سے کافی بہتری آئے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعداد میں کافی اضافہ ہو گیا ہے اس وجہ سے سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد میں کافی کمی دیکھی گئی ہے۔
سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد کم ہونے کی کہانی صرف نارنگ منڈی کی نہیں بلکہ پورے ملک کے ایک لاکھ 74 ہزار 96 سرکاری سکولوں کی آج کل یہی صورتحال ہے۔
وزارت تعلیم کے زیر کنٹرول کام کرنے والے ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کے 2022ء کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں پانچ کروڑ 48 لاکھ 70 ہزار 964 طالب علم زیر تعلیم ہیں جن میں سے دو کروڑ 87 لاکھ 55 ہزار 946 یعنی 52.4 فیصد سرکاری سکولوں میں اور دو کروڑ 55 لاکھ 11 ہزار 588 (46.5 فیصد) بچے نجی سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔
دیگر پبلک سکولوں میں بھی چھ لاکھ تین ہزار 430 بچے زیر تعلیم ہیں۔ جو کل تعداد کا 1.1 فیصد ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سکول جانے کی عمر کے دو کروڑ 62 لاکھ بچے سکول نہیں جارہے ہیں۔ صرف صوبہ پنجاب میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ 17 لاکھ 30 ہزار ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 70 سے 80 فیصد سکول ایسے ہیں جہاں پر بجلی، پانی، واش رومز اور چار دیواری سمیت اہم اور بنیادی سہولیات موجود ہیں۔
2018-19ء میں سرکاری سکولوں میں دو کروڑ 94 لاکھ97 ہزار 275 بچے زیر تعلیم تھے لیکن 2021-22ء میں ان کی تعداد کم ہوکر دو کروڑ 87 لاکھ 55 ہزار 946 رہ گئی جبکہ نجی سکولوں میں سال 2018-19ء میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد دو کروڑ 32 لاکھ 54 ہزار 395 تھی جو 2021-22ء میں بڑھ کر دو کروڑ 55 لاکھ 11 ہزار 588 تک پہنچ گئی۔
پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم کا احساس برتری
سابق سکول ٹیچر اور سماجی کارکن نثار احمد مغل کہتے ہیں کہ نجی سکول نمود و نمائش پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
"والدین اور بچے ان سکولوں کی طرف نہ چاہتے ہوئے بھی راغب ہو رہے ہیں حالانکہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں گورنمٹ سکول میں نجی سکول سے زیادہ سہولیات ہیں۔ سرکاری سکولوں میں کوالیفائیڈ اساتذہ ہیں۔ جبکہ نجی سکولوں کی اکثریت ایک، دو کمروں پر مشتمل وہاں پر سوائے رٹا لگانے کے کچھ نہیں سکھایا جاتا۔"
ان کے خیال میں سرکاری سکولوں پر لوگوں کے عدم اعتماد کے پچھلے تعلیم اور معیار نہیں بلکہ جیسے ملک میں مڈل کلاس بڑھ رہی ہے تو ان کا "سو کالڈ" معیار بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری سکول ان کے سٹینڈر کے مطابق نہیں ہیں، یہاں پر مادری زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ لوگ اردو اور انگلش کو ترجیح دیتے ہیں۔
"اب تو یہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے جن کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں، انہیں رشتہ دار یہ احساس دلاتے ہیں کہ شاید وہ غریب ہیں اور ایسی صورتحال میں کوئی بھی اپنے بچے کو احساس کمتری میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا اور مجبور ہو کر نجی سکول بھیج دیتا ہے۔"
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمدشاہد سرویا بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ طبقاتی فرق اور نام نہاد احساس کمتری ناصرف دیہی علاقوں بلکہ شہروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ والدین کو لگتا ہے کہ جتنا زیادہ مہنگا سکول ہو گا انہیں اتنا ہی زیادہ ایلیٹ گروپ میں گنا جائے گا۔
ان کے مطابق یہ طبقاتی فرق مصنوعی طور پر پیدا کیا جا رہا ہے اور اس من گھڑت احساس کم تری یا برتری نے پورے سرکاری نظام کو متاثر کیا ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں معاشیات کے استاد ڈاکٹر فیصل باری اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تاثر عام ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، تو ہی آپ سرکاری سکول جاتے ہیں۔ پیسے ہیں تو نجی سکول جائیں گے۔
"والدین کے نجی سکولوں کی طرف رجحان کے پیچھے طبقاتی برتری کے احساس کے علاوہ کوئی اور بڑی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔ویسے بھی بہتر، معیاری تعلیم اور اچھی تربیت کی بات کرنا شاید اب مناسب نہیں رہا ہے، کیوں کہ سکول کوئی بھی ہو سب رٹا ہی لگواتے ہیں۔"
کیا پرائیویٹ سکول بہتر ہیں؟
فیصل باری کہتے ہیں کہ سوائے چند بڑے نجی سکولوں کو چھوڑ کر باقی سرکاری اور نجی سکولوں میں تعلیم کے معیار کا موازنہ کیا جائے تو اس میں بھی کوئی اتنا بڑا فرق نہیں ہے۔
" کچھ سال پہلے تک جب پانچویں اور آٹھویں جماعت کا بورڈ کا امتحان ہوا کرتا تھا تو تب بھی کوئی ایسی بڑی مثال سامنے نہیں آئی تھی کہ نجی سکولوں میں پڑھنے والے بچوں نے غیر معمولی کارکردگی دکھائی ہو۔"
وہ کہتے ہیں کہ ہاں ایک کام جو نجی سکولوں کو بخوبی آتا ہے وہ والدین اور بچوں کو ہر حال میں خوش رکھنے کا ہے، جس کے لیے انھوں نے روازنہ کی بنیاد پر سٹار دینے اور امتحانات کے نتائج پر انعام و کرام کا سلسلہ شروع رکھا ہے۔
" ایک تو ہمارے ہاں انگریزی کو ہوا بنا دیا گیا ہے۔ تعلیم اب ایک جنس(کموڈٹی) بن چکی ہے۔ اس کی مارکیٹنگ ہو رہی اور دیگر کموڈیٹیز کی طرح اس میں ملاوٹ بھی ہو رہی ہے۔"
حال ہی میں پاکستان اینول سٹیٹس آف ایجوکیشن(اثر) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کے دیہی علاقوں کے سرکاری سکولوں میں تیسری جماعت کے 44 فیصد بچے اور نجی سکولوں کے 43 فیصد بچے اردو اور سندھی فقرے پڑھ سکتے ہیں جبکہ پانچویں جماعت میں سرکاری سکولوں کے 45 فیصد اور نجی سکولوں کے 49 فیصد بچوں کو اردو/سندھی میں کہانی پڑھنی آتی ہے۔
انگلش سرکاری سکولوں میں تیسری جماعت کے 48 فیصد اور نجی سکولوں کے 52 فیصد بچے انگریزی حروف کو پڑھ سکتے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے پانچویں جماعت کے 42 اور نجی سکولوں کے 51 فیصد بچوں کو انگریزی فقرے پڑھنے آتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری سکولوں کے تیسری جماعت کے 39 فیصد اور نجی سکولوں کے 43 فیصد بچے کم از کم جمع تفریق کر لیتے ہیں۔ پانچویں جماعت کے سرکاری سکولوں کے 35 فیصد اور نجی سکولوں کے 41 فیصد بچے تقسیم کرنا جانتے ہیں۔
"نئے سرکاری سکول نہیں بن رہے"
پچھلے 20 سال سے صحافتی شعبے سے وابستہ شاہد یوسف کہتے ہیں کہ سرکاری سکول میں پڑھانے والے اساتذہ نے پرائیویٹ سکول اور اکیڈمیاں بھی کھول رکھی ہیں اور سرکاری سکول کے طلباء اور والدین کو اپنے پرائیویٹ سکول میں پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ سرکاری سطح پر پابندی ہونی چاہیے کہ کوئی بھی سرکاری استاد اپنا پرائیویٹ سکول یا اکیڈمی نہیں کھول سکے گا۔
شاہد سرویا کہتے کہ ایک تو اساتذہ کی اکاؤنٹیبلٹی نہیں ہے، دوسرے مقامی لوگوں کی سرکاری سکولوں میں دلچسپی بھی کم ہے۔ بعض جگہوں پر سکول موجود نہیں ہیں یا پھر مڈل اور ہائی سکولوں کے فاصلے زیادہ ہیں جس کی وجہ سے بچے خاص طور پر لڑکیوں کا جانا مشکل ہوتا ہے۔ دوسری طرف نجی تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھ رہی ہے کیونکہ وہ قریب سے قریب تر بنائے جاتے ہیں۔
فیصل باری کا بھی یہی ماننا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ملک میں نئے سرکاری سکول کافی عرصے سے نہیں بنائے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
پنجاب کے پرائیویٹ سکولوں میں کیا ہو رہا ہے؟
"پہلے یہ طریقہ کار تھا کہ چار پرائمری سکولوں کے اوپر ایک مڈل سکول ہوتا تھا لیکن اب ان دیہات یا علاقوں کی آبادی دوگنا ہو گئی ہے تو طلب بھی بڑھ گئی ہے اور اس طلب کو نجی سکول پورا کر رہے ہیں۔"
کیا کوئی حل ہے؟
فیصل باری کہتے ہیں کہ آئین میں بھی یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ بچوں کی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ باقی ملکوں میں یہ ہو بھی رہا ہے اور اس کی بہت اچھی مثالیں بھی ہیں، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ممالک بھی عوام کو اچھے طریقے سے تعلیم دے رہے ہیں اور ایسا حکومتی اداروں کے ذریعے ہی کیا جارہا ہے۔
"بدقسمتی سے ہمارا سرکاری ایجوکیشن سسٹم ہم سے سنبھل نہیں رہا۔ اس کا فائدہ نجی شعبے نے اٹھایا ہے۔صاحب حیثیت اور پالیسی سازوں نے اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں میں ڈال دیے۔ انہیں تعلیمی شعبے کو ٹھیک کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔"
اب سوال یہ ہے کہ ہم جہاں کھڑے ہیں، کیا ہمیں بس انتظار کرنا چاہیے یا اس کا کوئی حل بھی ڈھونڈنا ہے؟
"بہت سے لوگ بپلک پرائیویٹ پارٹنر شپ جیسے آپشن تجویز کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو پہلے ہی بچوں کے لیے ٹرانسپورٹ، کتابوں کی چھپائی، یونیفارم یا کچھ دوسری چیزیں ایسی ہی شراکت داری سے چل رہی ہیں۔"
تاہم، وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا کرنا ضروری ہے تو اس کے لیے ایک قانونی طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہوگی۔ وہ یہ کہ سکول سرکاری ہی رہیں اور حکومت انہیں قلیل عرصے کے لیے ٹھیکے پر دیدے۔
"اس سے یہ تاثر بالکل نہیں دینا چاہیے کہ حکومت نے عوام کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ہے، اس عرصے میں حکومت اپنی صلاحیتوں کو بہتر کرے تاکہ وہ بچوں کو بہتر تعلیم مہیا کرنے لگے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد شاہد سرویا نشاندہی کرتے ہیں کہ پنجاب میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے حوالے سے پہلے ہی تجاویز زیر غور ہیں۔
پنجاب اور سندھ میں تو کچھ سکولوں میں یہ نظام ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے پہلے ہی چل رہا ہے، جس کے نتائج بہتر آئے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جہاں پر بھی صوبائی حکومتوں نے بہتر اقدامات کیے ہیں وہاں کے نتائج بھی اچھے ہی رہے ہیں۔
تاریخ اشاعت 13 اپریل 2024