2018ء کے عام انتخابات میں بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے 37 خواتین نے جنرل نشستوں پر الیکشن لڑا تھا جن میں سے 24 سیاسی جماعتوں کی نامزد اور دیگر آزاد امیدوار تھیں۔ اس الیکشن میں صرف ایک خاتون امیدوار کامیاب ہوئیں۔
بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16 نشستوں پر چھ خواتین امیدوار سامنے آئیں جنہوں ںے کل 52 ہزار 666 ووٹ لیے۔ ان میں زبیدہ جلال کے 33ہزار 462 ووٹ تھے صرف یہی الیکشن جیت سکیں۔
خواتین امیدواروں کا ڈالے گئے ووٹوں (18 لاکھ 42 ہزار 844 ) میں سے حصہ 2.8 تھا۔
صوبائی اسمبلی میں جنرل نشستوں پر لڑنے والی خواتین کے نتائج اس سے بدتر تھے۔
بلوچستان اسمبلی کے لیے 31 خواتین میدان میں اتری تھیں جنہوں نے کل ملا کر 31 ہزار 439 ووٹ حاصل کیے جو ٹوٹل ڈالے گئے ووٹوں ( 17 لاکھ 90 ہزار 754) کا محض 1.76 فیصد بنتا ہے۔
پچھلے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر چناؤ میں ملک بھر سے 183 خواتین امیدواروں نے حصہ لیا تھا مگر صرف آٹھ ہی پارلیمان تک پہنچ سکی تھیں۔
الیکشن کمیشن کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ قومی اسمبلی کے لیے خواتین امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد پہلی بار انتخابی میدان میں اتری تھی۔ مگر خواتین امیدواروں کے حوالے سے نتائج حوصلہ افزا نہیں تھے۔
عالمی رینکنگ میں پاکستان 'بدترین صنفی امتیاز' والے ملکوں میں آتا ہے۔ تاہم پچھلے دس سال کے دوران اس فرق میں 5.1 فیصد کمی آئی ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کا جینڈر گیپ انڈکس 2023ء بتاتا ہے کہ پاکستان دنیا کے 146 ممالک کی فہرست میں سے 142ویں نمبر پر آتا ہے جہاں برابری کی شرح 57.5 فیصد ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش 72.2 فیصد کے ساتھ اس فہرست میں 59ویں اور بھارت 64.3 فیصد کے ساتھ 127ویں نمبر پر آتا ہے۔
صنفی امتیاز کے خاتمے کےلیے تعلیم اور معاشی خود مختاری کے ساتھ خواتین کو سیاسی طور پر بااختیار بنانا سب سے زیادہ اہم مانا جاتا ہے جس کے لیے پاکستان میں بھی کچھ اقدامات کیے گئے۔ اسمبلیوں میں خواتین کی17 فیصد نامزدگی اور جنرل نشستوں پر پانچ فیٖصد کوٹا اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ مگر کوششوں کے باوجود پیشرفت کی رفتار بہت سست ہے۔
2018ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 272 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 577 سمیت مجموعی طور 849 جنرل نشستیں تھیں۔
الیکشن کمیشن ریکارڈ کے مطابق پیپلز پارٹی نے قومی اور صوبائی حلقوں کےلیے کل 642 پارٹی ٹکٹ جاری کیے تھے جس نے خواتین امیدواروں کو سب سے زیادہ یعنی 43 ٹکٹ جاری کیے تھے۔
اسی طرح دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی تھی جس نے کل 769 میں سے 42 ٹکٹ خواتین امیدواروں کو دیئے تھے۔ ن لیگ نے 639 میں سے 37 اور متحدہ مجلس عمل نے 538 امیدواروں میں سے 33 خواتین کو امیدوار نامزد کیا تھا۔
بظاہر سیاسی پارٹیوں کے خواتین امیدواروں کو جاری کردہ ٹکٹس پانچ فیصد سے زیادہ تھے۔ تاہم اکتوبر 2018ء کے پہلے ہفتے میں الیکشن کمیشن نے پیپلز پارٹی، ن لیگ اور متحدہ مجلس عمل سمیت چھ پارٹیوں کو نوٹسز جاری کیے تھے جن میں خواتین کو کوٹے (پانچ فیصد) کے مطابق امیدوار نامزد نہ کرنے پر وضاحت مانگی گئی تھی۔
الیکشن ایکٹ 2017ء کہتا ہے کہ "پارٹی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) بشمول صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت کے لیےجنرل نشستوں پر کم از کم پانچ فیصد امیدوار خواتین میں سے منتخب کیے جائیں گے"
نوٹسز کے جواب میں سیاسی جماعتوں کا موقف تھا کہ انہوں نے کوٹے(5 فیصد) سے بھی زیادہ خاتون امیدواروں کو ٹکٹیں جاری کی ہیں۔
سیاسی ورکروں کا خیال ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء میں ابہام ہے۔ قانون میں قومی اور صوبائی حلقوں کے لیے الگ الگ کوٹے کا تعین نہیں کیا گیا۔ اس ابہام کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کی وضاحت قبول کرنا پڑی۔
رشید چودھری فئیر اینڈ فری الیکشن نیٹ ورک ( فافن) میں نیشنل کوارڈینیٹر ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون میں کوئی ابہام نہیں۔
"قانون میں واضح طور پر قومی اسمبلی' اور' صوبائی اسمبلیوں' کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی پانچ فیصد خواتین امیدواروں کو قومی اور پانچ فیصد صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے ٹکٹوں کا اجرا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے چاروں صوبوں میں اپنے ٹکٹ ہولڈروں کا پانچ فیصد شئیر خواتین کے لیے مخصوص کرنا ضروری ہے"۔
تاہم، وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں چونکہ قومی اسمبلی کی کل 16 نشستیں ہیں اس لیے ایسی جماعتیں جو صرف بلوچستان تک محدود ہیں ان کے لیے خواتین کی کم سے کم پانچ فیصد نمائندگی کی شرط پوری کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ 16 فیصد کا پانچ فیصد اعشاریہ آٹھ بنتا ہے۔ قومی سطح کی دیگر جماعتوں کا یہ مسئلہ نہیں ہے"۔
رشید چودھری نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں قانون میں لکھی شرط " کم سے کم" پر اکتفا کرتی ہیں حالانکہ قانون تمام نشستوں پر خواتین امیدواروں کو کھڑا کرنے سے بھی نہیں روکتا۔
"جنرل نشستوں پر کوٹہ بڑھانے سے خواتین کی بہتر نمائندگی کا مقصد پورا کیا جاسکتا ہے"۔
وہ یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ شق نمبر 206 ترمیم کر کے پانچ فیصد کوٹے کے ساتھ ایک خاتون امیدوار کی شرط رکھی جائے۔
"مثلاً کسی جماعت نے ملک بھر میں 10 امیدوار ہی کھڑے کیے ہیں تو انہیں بھی کم سے کم ایک خاتون امیدوار کو ٹکٹ دینے کا پابند بنایا جائے"۔
عورت فاؤنڈیشن کی سابق ریذیڈنٹ ڈائریکٹر شبینہ ایاز کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں "صرف خانہ پری" کے لیے خواتین کو امیدوار نامزد کرتی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی اعتبار سے صنفی تفریق میں صوبہ بلوچستان کو سرفہرست بتایا جاتا ہے۔ الیکشن 2018ء پر ووٹر لسٹوں سے لے کر امیدواروں کی نامزدگی اور نتائج تک کے اعداد و شمار اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں۔
عالمی ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق گزشتہ عام انتخابات میں 60 فیصد سے زائد پاکستانی خواتین نے ووٹ ہی کاسٹ نہیں کیا تھا۔
جبکہ الیکشن کمشنر بلوچستان نے خود اعتراف کیا تھا کہ یہاں شناختی کارڈز نہ ہونے اور دیگر وجوہات کے باعث پانچ لاکھ سے زائد خواتین کے ووٹ درج ہی نہیں ہو پائے تھے اور خواتین کا ٹرن آؤٹ بھی انتہائی کم رہا۔
بلوچستان سے جیتنے والی واحد خاتون امیدوار زبیدہ جلال نے ماہر تعلیم وسماجی کارکن کے طور پر شہرت پائی، 1988ء سے سیاست میں ہیں اور کئی بار منتخب ہو چکی ہیں۔
راحیلہ حمید درانی پہلے وکالت اور صحافت سے وابستہ رہیں۔ لیکن 2008ء سے رکن اسمبلی چلی آ رہی ہیں۔ نیشنل پارٹی کی رہنما یاسمین لہڑی سماجی ورکر ہیں اور 2013ء سے 2018ء تک مخصوص کوٹے پر رکن اسمبلی رہ چکی ہیں۔
راحت جمالی کا تعلق ایک بڑے سیاسی گھرنے سے ہے۔ وہ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے پلیٹ فارم سے حلقہ پی بی 26 جعفرآباد سے کامیاب ہوئی تھیں۔ انہوں نے یہ انتخاب اپنے شوہر فائق جمالی کی نااہلی کے سبب لڑا تھا۔
اسی طرح بی این پی کی ڈاکٹر شہناز نصیر اور زینت شاہوانی جب الیکشن ہار گئیں تو پارٹی نے انہیں مخصوص نشستوں پر رکن اسمبلی بنا دیا تھا۔
شازیہ احمد لانگو نیشنل پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ نیشنل پارٹی کی قیادت گراس روٹ لیول سے ہے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔
"ہماری جماعت خواتین کو بھرپور نمائندگی فراہم کرتی ہے۔ مجھے پچھلے الیکشن میں پارٹی کی بھرپور مدد حاصل تھی"۔
تاہم راحیلہ حمید درانی کا تجربہ تھوڑا مختلف ہے۔
وہ 2018ء میں مسلم لیگ(ن) کی جانب سے کوئٹہ کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 265 پر امیدوار تھیں۔ ان کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے قاسم خان سوری کامیاب قرار پائے تھے۔
راحیلہ درانی کہتی ہے کہ مردوں کی اجارہ داری والے معاشرے میں خواتین کا الیکشن مہم چلانا آسان کام نہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں کئی مواقعوں پر امتیازی سلوک کا سامنا رہا۔
"میں نے اپنی الیکشن مہم میں درپیش مشکلات کا ذکر ہر فورم پر کیا۔ بالخصوص خواتین سے متعلق پروگرامز میں اور پھر کامیابی کے قصے بھی بیان کیے تاکہ خواتین کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ آگے بڑھیں"۔
وہ کہتی ہیں کہ ہار جیت کامعاملہ بعد کا ہے جس نے ہمت باندھی وہ جیت گئی۔
یہ بھی پڑھیں
شانگلہ: کیا آئندہ عام انتخابات میں خواتین کے ٹرن آؤٹ کا مسئلہ حل ہو پائے گا؟
شکیلہ نوید دہوار کے شوہر بی این پی کے سرگرم پارٹی کارکن تھے جن کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ شکیلہ نوید کو الیکشن ہارنے پر پارٹی نے رکن صوبائی اسمبلی منتخب کرا لیا تھا۔ دیگر پارٹی امیدواروں میں شازیہ احمد لانگو بھی نیشنل پارٹی کی پرانی کارکن ہیں۔
کوئٹہ میں پیپلزپارٹی کی رہنما ثناء درانی بتاتی ہیں کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ خواتین کو ان نشستوں پر امیدوار نامزد کیا جائے جہاں پارٹی مضبوط ہو مگر بدقسمتی سے بلوچستان میں گزشتہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے خواتین کو وہاں ٹکٹس دیے جہاں پارٹی کمزور تھی۔
ثناء درانی ایک سال قبل پی اے پی سے پیپلز پارٹی میں شامل ہوئی تھیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ سیاسی جماعتیں خواتین پر اعتماد نہیں کرتیں اس لیے انہیں مخصوص نشستوں تک محدود رکھا جاتا ہے۔
"ہمارے ہاں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین کو مرضی سے ووٹ دینے کا اختیار نہیں۔ گھر کا مرد جس کو کہے گا اسی کو ووٹ ڈال دیں گی۔"
وہ کہتی ہیں کہ انتخابی مہم میں پارٹی خاتون امیدواروں کو اتنی سپورٹ نہیں کرتی جتنی کرنی چاہیے۔ الیکشن اخراجات اور پارٹیوں میں آنے والی پیراشوٹرز بھی کارکن خواتین کے آگے بڑھنے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
عورت فاؤنڈیشن کے ریجنل ڈائریکٹر علاؤ الدین خلجی کا ماننا ہے کہ ویمن امپاورمنٹ کے لیے انتخابی قوانین کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ جنرل نشست پر خواتین کا کم از کم ٹرن آؤٹ 30 فیصد لازم قرار دیا جائے۔ اسی طرح تمام اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا کوٹہ 17 سے بڑھا کر 33 فیصد کیا جانا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا جائے کہ عام نشستوں پر کم از کم 15 فیصد ٹکٹس خاتون امیدواروں کو جاری کریں۔
"خاتون امیدواروں کے نصف انتخابی اخراجات سیاسی جماعتیں برداشت کریں۔ انتخابی منصوبہ بندی، ووٹرز اور پولنگ کی تربیت کے لیے مقامی سطح پر مکمل حمایت کو یقینی بنائیں۔ اسی طرح خواتین امیدواروں کے لیے سکیورٹی ڈیپازٹ بھی کم کیا جائے۔"
نگراں صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی پارلیمان میں خواتین کا کوٹا 33 فیصد کرنے سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سوسائٹی کے کمزور طبقات بالخصوص عورتوں کو سیاسی عمل میں شامل کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔ فیصلہ سازی میں خواتین کی شرکت کے بغیر وومن امپاورمنٹ ممکن نہیں ہو گی۔
ثناء درانی کہتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اگر خواتین امیدواروں کی مالی معاونت کریں اور بھر پور انتخابی مہم چلائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خواتین ووٹر پولنگ ڈے پر گھر سے نہ نکلیں۔
تاریخ اشاعت 23 دسمبر 2023