فیصل آباد میں چھ سال کے دوران پولیس مقابلوں میں 400 فیصد اور جرائم کی شرح میں 600 فیصد اضافہ

postImg

نعیم احمد

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

فیصل آباد میں چھ سال کے دوران پولیس مقابلوں میں 400 فیصد اور جرائم کی شرح میں 600 فیصد اضافہ

نعیم احمد

loop

انگریزی میں پڑھیں

"پولیس نے انہیں گاڑی روک کر گولیاں ماریں۔اتنی بیدردی سے کوئی کسی کو نہیں مارتا۔ دو اہلکار موٹرسائیکل چلا رہے تھے اوران کے پیچھے بیٹھے دو اہلکار فائرنگ کر رہے تھے۔ یہ جعلی پولیس مقابلہ تھا۔"

یہ الزام فیصل آباد میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے مبینہ ملزم خرم شہزاد کے بھائی محمد شفیق نے عائد کیا ہے۔

27 مئی 2023ء کی رات دونوجوان مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ خرم شہزاد اور ان کے کزن محمد افضال ڈی ٹائپ کالونی کے رہائشی تھے۔ پولیس کے مطابق دونو ں ملزم پوش علاقے ڈی گراونڈ کے قریب راہزنی کے بعد کار میں فرار ہو رہے تھے کہ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔

مقتولین کے ورثا نے اس مقابلے کو جعلی قرار دیا۔ انہوں نے پہلے چن ون روڈ اور پھر اگلے روز ضلع کونسل چوک میں احتجاج کیا۔ محمد شفیق دعویٰ کرتے ہیں کہ خرم اپنے کزن افضال کے ساتھ الائیڈ ہسپتال دوائی لینے جا رہے تھے۔

"وہ نو بجے گھر سے گئے تھے اور دس بجے انہیں پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔ میں ڈی گراؤنڈ میں پھلوں کی ریڑھی لگاتا ہوں۔ اتفاق سے میں اس وقت وہاں سے گزر رہا تھا۔ میں نے ہی گھر فون کر کے بتایا ہے کہ یہ واقعہ ہو گیا ہے۔”

شفیق بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس پولیس مقابلے کی شفاف انکوائری کے لیے سی پی او ، آر پی او ، آئی جی پنجاب اور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کو درخواستیں دی ہیں لیکن ابھی تک کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیس مقابلے کے بعد انہیں بھائی کی لاش کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

"پہلے لاش نہیں دے رہے تھے۔ ہمیں ڈرایا دھمکایا گیا۔ بہت زیادہ پولیس ساتھ آئی تھی۔ ساڑھے بارہ بجے ہمیں لاش دی گئی ہے اور سوا ایک بجے جنازہ کرا دیا گیا۔”

خرم کی موت کے بعد ان کی بیوہ حنا اور تین بچوں کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو گئی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر پاپڑ بنانے کا کام کرتے تھے۔ پہلے بھی بمشکل گزارا ہو رہا تھا اور اب تو وہ بالکل ہی خالی ہاتھ ہیں۔

"میرے بچے سکول میں پڑھتے تھے لیکن فیس نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سکول سے نکال دیا گیا۔ مکان کرائے کا تھا جسے مالک مکان نے اس واقعے کے اگلے روز ہی خالی کرا لیا تھا۔ اب میں لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنے بچے پال رہی ہوں۔ "

احتجاج اور شہریوں کی شدید تنقید کے بعد پولیس نے یہ موقف اختیار کیا کہ خرم شہزاد چار اور محمد افضال دو مقدمات میں ریکارڈ یافتہ تھے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق جن مقدمات میں خرم شہزاد اور محمد افضال کو ریکارڈ یافتہ بتایا گیا ہے وہ چوری اور راہزنی کی وارداتیں ہیں جن میں ملزم نامعلوم تھے۔

دوسری طرف حنا کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر پر پہلے کبھی ایف آئی ار در ج ہوئی نہ ہی وہ کبھی گرفتار ہوئے تھے۔

"میں کہتی ہوں اگر انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو پکڑ لیتے ۔اس طرح راہ چلتے کسی کو مارنے کا پولیس کو کس نے اختیار دیا ہے۔"

سینئر قانون دان امتیاز احمد وینس کہتے ہیں کہ کسی ملزم کے مجرم ہونے کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہوتا ہے۔ کسی کا ریکارڈیافتہ ہونا اسے پولیس مقابلے میں مارنے کا جواز نہیں بن سکتا۔

خرم اور افضال کی موت پہلا واقعہ نہیں جس میں پولیس پر شہریوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس سے قبل 20جنوری 2021ء کو فیصل آباد کی سمندری روڈ پر مبینہ پولیس مقابلے میں سمندری شہر کا رہائشی وقاص ہلاک ہو گیا تھا۔

اس واقعے میں پولیس کا موقف تھا کہ پنجاب ہائی وے پولیس کے انچارج اے ایس آئی شاہد منظور اور ان کی ٹیم نے چار کار سواروں کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ گاڑی نہ روکنے پر پولیس نے فائرنگ کر دی۔ گاڑی کا ڈرائیور وقاص سینے پر گولی لگنے سے ہلاک اور دیگر تین افراد زخمی ہو گئے تھے۔

مقتول کے لواحقین بتاتے ہیں کہ وقاص اپنے دوستوں کے ساتھ فیصل آباد شہر سے خریداری کے بعد واپس آ رہا تھا اور پولیس نے انہیں ناجائز قتل کیا۔

 اس واقعے کے وقاص کے ورثاء نے تھانہ ڈجکوٹ کے سامنے اور سمندری روڈ پر احتجاج کیا تھا۔ بعد ازاں پولیس کی ابتدائی انکوائری میں بھی اہلکاروں کو اختیارات سے تجاوز کا مرتکب قرار دے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

اسی طرح اگست 2018ء میں تھانہ ملت ٹاؤن کے پولیس اہلکاروں نے دو طلبہ کو موٹرسائیکل نہ روکنے پر عقب سے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

لواحقین کے مطابق عثمان اور ارسلان دونوں میٹرک کے طالب علم تھے اور رات کو کھانا کھانے باہر گئے تھے۔

حال ہی میں کھرڑیانوالہ پولیس نے سی آئی اے پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر اسحاق اور اسکے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ان پر ایک کباڑیے کو اغوا کر کے نجی ٹارچر سیل میں تشدد کرنے اور بھتہ لینے کا الزام ہے۔

متاثرہ شہری نے پولیس ملازمین پر الزام لگایا ہے کہ ملزمان اس پر تشدد کرتے اور "پولیس مقابلہ میں پار" کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔

فیصل آباد پولیس نے پولیس مقابلوں اور ان کی جوڈیشل انکوائری سے متعلق معلومات کے حصول کے لئے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (آر ٹی آئی ایکٹ) کے تحت درخواست پر معلومات فراہم کرنے کی بجائے 'اس نمائندے' ہی کے سمن جاری کر دیے تھے۔

تاہم پنجاب انفارمیشن کمیشن کے حکم پر فیصل آباد پولیس نے سمن منسوخ کر دیا اور تحریری معذرت کے علاوہ درکار معلومات بھی فراہم کر دی تھیں۔

فیصل آباد پولیس سے ملنے والی معلومات بتاتی ہیں کہ 2018ء سے 2023ءکے دوران چھ سال میں 270 پولیس مقابلے ہوئے ۔ان میں 120 افراد ہلاک اور 387 زخمی یا گرفتار ہوئے۔ ان واقعات پولیس کے دو اہلکار شہید اور دس زخمی ہوئے۔

پولیس کے مطابق 2018ء میں 19 پولیس مقابلوں میں آٹھ مبینہ ملزم ہلاک، 25 زخمی ہوئے۔ دو پولیس اہلکار مارے گئے اور نو زخمی ہوئے تھے۔

کُل 270 میں سے 78 پولیس مقابلوں کی جوڈیشل انکوائری کے احکامات جاری کئے گئے تھے ۔ان میں سے 12 کا ٹرائل جاری ہے جبکہ 28 جوڈیشل انکوائریوں کا فیصلہ ہو چکا ہے اور تمام فیصلے پولیس کے حق میں ہوئے ہیں۔

فیصل آباد پولیس کے پبلک انفارمیشن آفیسرشہزاد علیانہ نے بتایا ہے کہ سی پی او نے خرم شہزاد کی ہلاکت کی جوڈیشل انکوائری کے لیے درخواست آئی جی پنجاب کو بھجوائی ہوئی ہے۔

"آئی جی پنجاب سے یہ درخواست ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھجوائی جائے گی۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ اسے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوائے گا اور ہائیکورٹ سےجوڈیشل انکوائری کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو احکامات بھجوائے جائیں گے۔"

ان کا کہنا تھا کہ ہر پولیس مقابلہ جس میں کوئی ملزم یا پولیس اہل کار مارا جائے اس کی جوڈیشل انکوائری لازمی کرائی جاتی ہے۔

پولیس حکام عموماً مقابلوں کو بڑھتے ہوئے جرائم میں کمی کے اقدامات کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مگر یہاں معاملہ مختلف نظر آتا ہے۔

 فیصل آباد پولیس مانتی ہے کہ رواں سال اب تک 36 پولیس مقابلوں میں 30 ملزم ہلاک اور 28 زخمی ہو چکے ہیں۔ ایک اہلکار بھی زخمی ہوا ہے۔ پولیس یہ بھی بتاتی ہے کہ رواں سال کے پہلے سات ماہ میں ڈکیتی کی 170، چوری کی چارہزار 741 اور راہزنی کی آٹھ381 وارداتیں ہو چکی ہیں۔

ان اعداد و شمار کے مطابق چھ سال کے دوران پولیس مقابلوں میں تقریباً400 فیصد اور جرائم کی شرح میں 600 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

نیوز چینل 24 سے وابستہ کرائم رپورٹر فرزانہ صدیق کہتی ہیں کہ جب بھی جرائم میں اضافے کی وجہ سے پولیس پر دباؤ آتا ہے تو پولیس مقابلوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

"پولیس سمجھتی ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں سے جرائم پیشہ افراد ڈر کر اپنی سرگرمیاں ختم یا محدود کردیں گے ۔لیکن ان مقابلوں میں زیادہ تر بیگناہ شہری ہی مارے جاتے ہیں۔"

نیوز چینل سٹی 41 کے سینئر کرائم رپورٹر طیب مقبول کاماننا ہے کہ پولیس اہلکار پہلے ہی ذہنی دباو کا شکار ہوتے ہیں۔

"آبادی میں اضافے اور غربت کے باعث جرائم کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ اسی تناسب سے پولیس کی نفری اور تفتیش کے لئے درکار وسائل میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے ۔"

ایچ آر سی پی کی ڈائریکٹر فرح ضیاء کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پولیس مقابلوں کو جرائم میں کمی کا ہتھیار سمجھ لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

وہاڑی 16 سالہ نوجوان کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت: 'پولیس کے پاس سزا دینے کا کوئی آئینی اختیار نہیں ہے'

"90 ءکی دہائی میں مقابلوں کے نام پر ماورائے عدالت قتل کو پالیسی کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی تقریباً اسی طرح جاری ہے۔ پولیس مقابلوں میں بے گناہوں کی ہلاکتیں تب ہی رک سکتی ہیں جب پولیس حکام خود اسے مسئلہ تصور کریں۔بدقسمتی سے پولیس مقابلوں کو پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جرائم کے خاتمے کے لئے ایک حل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔"

"ریوائزنگ پولیس لاز" کے عنوان سے کتاب لکھنے والے اسد جمال ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ پولیس میں موثر اور قابل اعتبار احتساب کا کوئی اندرونی یا بیرونی نظام موجود نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پولیس آرڈر 2002 ء میں پبلک پولیس سیفٹی کمیشنز اور پولیس کمپلینٹس اتھارٹی بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔یہ ادارے دو دہائیوں بعد بھی قائم نہیں کئے جا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے افراد کے لواحقین شاید ہی پولیس کے خلاف کارروائی کے لئے کھڑے ہو پاتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا کرے تو اسے ہراساں کر کے شکایت واپس لینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے یا پھر فریقین میں "صلح" ہو جاتی ہے۔

تاریخ اشاعت 28 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

نعیم احمد فیصل آباد میں مقیم ہیں اور سُجاگ کی ضلعی رپورٹنگ ٹیم کے رکن ہیں۔ انہوں نے ماس کمیونیکیشن میں ایم ایس سی کیا ہے اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.