وہ مرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں: شمالی وزیرستان میں قدرتی گیس کی دریافت پر مقامی لوگ ناخوش کیوں؟

postImg

کلیم اللہ

postImg

وہ مرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں: شمالی وزیرستان میں قدرتی گیس کی دریافت پر مقامی لوگ ناخوش کیوں؟

کلیم اللہ

اِس سال جون کے آغاز میں تقریباً 60 نوجوانوں نے پاک-افغان سرحد سے 20 کلومیٹر مشرق میں قدرتی گیس کے نو دریافت شدہ ذخائر کے پاس ایک احتجاجی مظاہرہ شروع کیا۔ یہ احتجاج اگلے 24 روز جاری رہا۔ 

اُن مظاہرین کا تعلق مسمون خیل قبیلے کی چار ذیلی شاخوں سے تھا جو خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے صدرمقام میران شاہ سے 50 کلومیٹر شمال کی جانب شیوا نامی علاقے میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اُس علاقے میں دریافت ہونے والی گیس ان کے گھروں کو بھی فراہم کی جائے، اس کی آمدن سے مقامی سطح پر ترقیاتی کام کیے جائیں اور مسمون خیل قبیلے کے ارکان کو گیس نکالنے والی کمپنی میں نوکریاں دی جائیں۔

ان مظاہرین میں شامل 27 سالہ محمد اسماعیل کا کہنا ہے کہ یہ مطالبات تسلیم کرنا تو دور کی بات ہے سرکاری حکام نے انہیں اپنا احتجاج جاری رکھنے کی بھی اجازت نہ دی۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح "24 جون کو رات اٹھ بجے (نیم فوجی سرکاری ادارے) فرنٹیئر کور کے اہل کار ہمارے احتجاج کے مقام پر آئے اور ہمیں کہا کہ ہم کہیں اور چلے جائیں"۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "ہمارا اصرار تھا کہ ہم اپنے مطالبات تسلیم ہونے تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے"۔ ان کے مطابق فرنٹیئر کور کے اہل کاروں نے اس اصرار پر "نہ صرف ہمیں گالیاں دیں بلکہ زدوکوب بھی کیا اور خوف زدہ کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی"۔ 

تاہم مقامی انتظامیہ کا موقف ہے کہ احتجاج کے شرکا نے غیرقانونی طور پر گیس کے ذخائر کو جانے والا راستہ بند کیا اور سرکاری اہل کاروں اور اور ان کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ چنانچہ مقامی پولیس نے ان کے خلاف ان الزامات پر مبنی ایک ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) بھی درج کر لی۔ 

محمد اسماعیل کا کہنا ہے کہ اُس روز یہ تنازعہ اس قدر بڑھا کہ ایک قریبی چوکی میں متعین فوجی افسران کو بھی اس کی خبر پہنچ گئی۔ چنانچہ انہوں نے احتجاج کے شرکا اور گیس نکالنے والی کمپنی، ماڑی پٹرولیم، کے عہدے داروں کو ایک ساتھ بٹھایا تاکہ وہ اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے طے کر سکیں۔

نتیجتاً مظاہرین نے اپنا احتجاج ختم کر دیا جبکہ کمپنی نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کے تمام مطالبات پورے کرے گی۔ 

ان دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور چند روز بعد میران شاہ میں منعقد ہوا جس میں پاکستان آرمی کے ساتویں ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل نعیم اختر بھی موجود تھے۔ انہوں نے مسمون خیل قبیلے کے لوگوں کو یقین دلایا کہ ماڑی پٹرولیم ان کے تمام جائز مطالبات منظور کرے گی۔

محمد اسماعیل کا کہنا ہے کہ اس مذاکراتی دور کے اختتام پر ایک تحریری معاہدہ تیار کیا گیا جس میں واضح طور پر لکھا گیا کہ کمپنی گیس کی تلاش کے لیے درکار زمین کا باقاعدہ معاوضہ ادا کرے گی اور مقامی لوگوں کو نوکریاں بھی دے گی۔ اس معاہدے پر دستخطوں کے بعد ایک طرف تو میجر جنرل نعیم اختر اس پر عمل درآمد کے ضامن بنے اور  دوسری جانب مسمون خیل قبیلے، ماڑی پٹرولیم اور مقامی سول اور فوجی حکام پر مشتمل ایک 20 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کام مرحلہ وار مذاکرات کے ذریعے یہ طے کرنا تھا کہ لوگوں کے مطالبات پر کیسے عمل درآمد کیا جائے۔

لیکن محمد اسماعیل کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ کیے گئے زیادہ تر "وعدے تاحال پورے نہیں ہوئے"۔ ان کے مطابق کمپنی نے تین سو مقامی لوگوں کو ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا تھا جبکہ "ابھی تک صرف 70 افراد کو ہی نوکریاں دی گئی ہیں"۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ "مقامی لوگ ایک بار پھر احتجاج کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں"۔

سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

جب 2020 میں پہلی بار شیوا میں گیس کے ذخائر کا پتہ چلا تو مسمون خیل قبیلے کے عمائدین کو ایک قریبی فوجی چیک پوسٹ پر بلایا گیا۔ ان عمائدین میں شامل 42 سالہ ملک سمیع اللہ کہتے ہیں کہ اس چیک پوسٹ پر متعین ایک کرنل کی موجودگی میں انہوں نے 30 ایکڑ زمین ماڑی پٹرولیم کو لیز پر دینے کا معاہدہ کیا جس کے بدلے میں کمپنی نے انہیں ہر سال 40 ہزار روپے فی ایکڑ کرایہ ادا کرنے کی حامی بھری (جسے اس سال کے وسط میں ہونے والے احتجاج کے بعد بڑھا کر 70 ہزار روپے فی ایکڑ کر دیا گیا ہے)۔ تاہم ان کہنا ہے کہ کمپنی نے اس اراضی کے علاوہ "ایک ہزار ایکڑ مزید رقبے کو گھیر کر اس کے گرد حفاظتی چوکیاں بنا دی ہیں حالانکہ اس اضافی زمین کے حصول کے لیے نہ تو مقامی لوگوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا گیا ہے اور نہ ہی انہیں اس کے بدلے میں کوئی رقم دی جا رہی ہے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ "اگر ہماری گائیں یا بھیڑ بکریاں غلطی سے اس ایک ہزار ایکڑ اراضی میں چلی جائیں تو ہم ان کی تلاش میں وہاں نہیں جا سکتے کیونکہ وہاں جگہ جگہ سکیورٹی اداروں نے اپنی چوکیاں بنا رکھی ہیں"۔ ان چوکیوں سے گزرنے کے لیے مقامی لوگوں کو اپنے علاقے میں متعین فوجی افسروں سے اجازت لینی پڑتی ہے "جو بڑی مشکل سے ملتی ہے"۔ نتیجتاً ان کے اکثر جانور ادھر ہی رہ جاتے ہیں۔ 

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسمون خیل سے تعلق رکھنے والے لوگ گھروں میں جلانے کے لیے درکار لکڑی بھی اسی زمین پر کھڑے درختوں سے حاصل کرتے ہیں جو اب کمپنی کے استعمال میں ہے۔ وہ اپنے حجرے میں بیٹھے ایک مقامی شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی آمدن کا واحد ذریعہ اسی طرح اکٹھی کی گئی لکڑیوں کی فروخت تھا لیکن اب وہ بالکل بے روزگار ہو گیا ہے۔ 

انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ اس ایک ہزار ایکڑ اراضی پر بنائی گئی چوکیاں اتنی بلندی پر واقع ہیں کہ ان کی وجہ سے پستی میں واقع آبادیوں میں خواتین اپنے ہی گھروں میں آزادانہ طور پر گھوم پھر نہیں سکتیں تاکہ کہیں چوکیوں میں متعین اہل کار انہیں دیکھ نہ لیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "ہم نے اس حوالے سے کئی دفعہ کمپنی اور فوج دونوں کے اہل کاروں کو آگاہ کیا لیکن انہوں نے اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی"۔ چنانچہ مقامی لوگوں نے "اپنی مدد آپ کے تحت چندہ جمع کر کے یا تو اپنے گھروں کی دیواروں کو اونچا کر لیا یا ان پر کپڑے کے پردے لگا دیے"۔ 

اپنے علاقے میں ماڑی پٹرولیم کی موجودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ایک اضافی پیچیدگی کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں مقامی برادریوں میں اختلافات بھی جنم لے رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ کمپنی کو اب 65 ایکڑ ایسی زمین درکار ہے جس کے بارے میں مسمون خیل کی ذیلی شاخ ممق خیل کا کہنا ہے کہ یہ پورے قبیلے کی اجتماعی ملکیت نہیں بلکہ صرف اسی کی ملکیت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "اس تنازعے کی وجہ سے مقامی لوگ تقسیم ہوگئے ہیں"۔ 

لیکن ملک سمیع اللہ شکایت کرتے ہیں کہ جب بھی وہ ان مسائل کے حل کے لیے "ماڑی پٹرولیم سے رابطہ کرتے ہیں تو اس کے اہل کار جواب دیتے ہیں کہ وہ ہم سے تنہا نہیں بلکہ صرف فوج کی موجودگی میں ہی ملاقات کر سکتے ہیں"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "مسمون خیل کے عمائدین کا ایک وفد جون 2022 کے شروع میں اسلام آباد بھی گیا جہاں اس نے 15 روزہ قیام کے دوران سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی سے لے کر وزارت پیٹرولیم کے سیکرٹری تک کئی لوگوں سے ملاقاتیں کیں لیکن وہاں بھی ماڑی پیٹرولیم کے حکام نے ہمیں وقت نہیں دیا"۔ 

ان قبائلی عمائدین کی اسلام آباد میں موجودگی کے دوران شیوا میں احتجاجی دھرنا بھی جاری تھا لیکن ماڑی پٹرولیم سے ان کی ملاقات نہ ہونے سے اس احتجاج میں اور بھی شدت آ گئی۔ لہٰذا اس میں شریک مظاہرین نے کمپنی کے مقامی دفاتر اور گیس کے ذخائر کو جانے والی سڑک ٹریفک کے لیے بند کر دی۔ 

مقامی لوگوں کو کیا ملا؟

حکومت پاکستان نے 2005 میں تُلو پاکستان (ڈویلپمنٹس) لمیٹڈ نامی ایک کمپنی کو شیوا میں گیس کے ذخائر دریافت کرنے کی اجازت دی لیکن شمالی وزیرستان میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کے پیش نظر اس منصوبے پر کام شروع نہ ہو سکا۔ بالآخر مارچ 2017 میں ماڑی پیٹرولیم، آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) اور زیور پٹرولیم کمپنی لمیٹڈ نے مل کر تُلو پاکستان (ڈویلپمنٹس) لمیٹڈ سے اس علاقے میں کام کرنے کا اجازت نامہ خرید لیا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بنوں کے وزیر قبائل کا احتجاجی دھرنا: 'جب تک ہمیں گیس کی فراہمی کی تحریری ضمانت نہیں دی جاتی ہم اپنے علاقے سے اس کی پائپ لائن نہیں گزرنے دیں گے'۔

ان میں سے او جی ڈی سی ایل کی مالک پاکستان کی وفاقی حکومت ہے جبکہ ماڑی پٹرولیم کے 40 فیصد حصص کا مالک افواج پاکستان سے منسلک کاروباری ادارہ فوجی فاؤنڈیشن ہے۔ تیسری کمپنی کے چیئرمین صدرالدین ہاشوانی ہیں۔ وہ ہاشو گروپ نامی کاروبای ادارے کے سربراہ ہیں جو پرل کانٹی نینٹل ہوٹل اور میریٹ ہوٹل بھی چلاتے ہیں۔

جون 2021 میں ماڑی پٹرولیم شیوا سے حاصل کیے گئے اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ اس علاقے میں چار ہزار نو سو 15 میٹر کی گہرائی پر تیل اور قدرتی گیس دونوں کے ذخائر موجود ہیں جن سے روزانہ دو کروڑ 50 لاکھ مکعب فٹ گیس اور تین سو بیرل تیل نکالا جا سکتا ہے۔ 

میران شاہ میں متعین ڈپٹی کمشنر شاہد علی کہتے ہیں اس علاقے میں مزید تیل اور گیس ملنے کی بھی توقع ہے جس کے لیے ابھی سروے کیے جا رہے ہیں۔ حفاظتی چوکیوں میں گھری ایک ہزار ایکڑ اراضی کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس میں اس وقت ایسے ہی سروے جاری ہیں۔

اس لیے، ان کے بقول، ماڑی پٹرولیم نے اس زمین پر مستقل قبضہ نہیں کیا بلکہ "جونہی اس کے ایک حصے پر سروے مکمل ہو جاتا ہے اور وہاں تیل اور گیس نہیں ملتے تو وہ حصہ مقامی لوگوں کو واپس کر دیا جاتا ہے"۔ لیکن اگر کسی قطعہِ زمین سے تیل اور گیس نکل آتے ہیں تو، ان کے مطابق، مقامی لوگوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کر کے اسے کمپنی کے حوالے کر دیا جائے گا۔  

ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ تیل اور گیس کی دریافت کے لیے استعمال کی جانے والی زمین پر بنائی گئی چوکیوں پر کوئی غیرمقامی فوجی اہل کار نہیں بلکہ مقامی قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی متعین کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماڑی پٹرولیم نے ابھی تک سکیورٹی اور محنت مزدوری کے شعبوں میں ایک سو 20 مقامی لوگوں کو غیرمستقل بنیادوں پر ملازمتیں دی ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ نے مسمون خیل کے علاقے میں ایک ڈسپنسری، ایک سکول اور پینے کے صاف پانی کی سہولت فراہم کرنے کے منصوبے بھی بنائے ہیں جن پر ساڑھے تین کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ ان کے مطابق ان منصوبوں پر "تیزی سے کام جاری ہے"۔

تاریخ اشاعت 10 نومبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کلیم اللہ نسلی و علاقائی اقلیتوں کو درپیش مخصوص مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی لاہور سے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس آنرز کیا ہے۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.