ملتان میں شجاع آباد روڈ کے علاقے میں رہنے والے محمد آصف کو ایک فیملی کیس کے سلسلے میں اکثر ضلع کچہری آنا ہوتا ہے۔ یہاں انہیں اپنے مقدمے اور اس سے متعلقہ مسائل پر اتنی کوفت نہیں ہوتی جتنی پارکنگ کی جگہ نہ ہونے سے اٹھانا پڑتی ہے۔
کچہری کا پارکنگ سٹینڈ اس کے سامنے سے گزرتی دو رویہ سڑک پر ایک فلائی اوور کے نیچے قائم ہے۔ یہاں جگہ بہت کم ہے جس کی وجہ سے وکیل اور سائل اپنی گاڑیاں سڑک پر ہی کھڑی کر دیتے ہیں جس سے ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔
ضلع کچہری میں سول و سیشن عدالتوں کے ساتھ بڑی تعداد میں وکلا کے چیمبر واقع ہیں۔ اس کے علاوہ ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، کالونی برانچ، جنرل برانچ ، بہبود فنڈ اور ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس کے دفاتر بھی یہیں قائم ہیں۔
مقدمات کی سماعت اور محکمانہ امور نپٹانے کے لیے ہزاروں لوگ اس جگہ آتے ہیں۔ یہاں سے دو سڑکیں شہر کے گنجان مرکزی حصے کی جانب جاتی ہیں۔ کچہری کے مغرب میں خواتین یونیورسٹی اور جنوب میں گورنمٹ سول لائنز کالج واقع ہے جبکہ پولیس لائنز بھی یہاں سے قریب ہے۔ طلبہ اور عملے کے جانے آنے کے اوقات میں سڑک پر ٹریفک بہت زیادہ ہو جاتی ہے اور غلط پارکنگ کے باعث گزرنے کی جگہ نہیں رہتی۔
کچہری کے پارکنگ سٹینڈ میں تقریباً 95 گاڑیاں کھڑی کرنےکی گنجائش ہے۔ اسی طرح موٹر سائیکلوں کے لیے مخصوص جگہ پر بارہ سے تیرہ سو تک موٹر سائیکلیں کھڑی کی جا سکتی ہیں جبکہ یہاں آنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اس پارکنگ سٹینڈ کا انتظام ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے ہاتھ میں ہے۔ گزشتہ سال اس سٹینڈ کا ٹھیکہ دو کروڑ تین لاکھ روپے میں جبکہ 2021ء میں دو کروڑ 10 ہزار روپے میں نیلام ہوا تھا۔
یہاں کار پارک کرنے کے لیے 50 روپے کا ٹوکن لینا پڑتا ہے اور موٹر سائیکل کھڑی کرنے کی فیس 30 روپے ہے۔ سرکاری نرخ نامے کے مطابق یہ فیس بالترتیب 30 اور 20 روپے ہونی چاہیے۔
سرکاری نرخ سے زیادہ فیس وصول کئے جانے اور کروڑوں روپے آمدنی کے باوجود اس پارکنگ سٹینڈ میں گاڑیوں کی حفاظت کا مناسب بندوبست نہیں ہے جس کی وجہ سے چوری کے واقعات تواتر سے پیش آتے رہتے ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران کاروں اور موٹرسائیکلوں کی چوری کی آٹھ ایف آئی آر درج کرائی گئی ہیں۔
سائیکل سٹینڈ کی آمدنی کے بارے میں میونسپل کارپوریشن کے ایک افسر نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ کنٹونمنٹ اور ضلع کچہری سمیت ملتان کے تمام پارکنگ سٹینڈ میونسپل کارپوریشن کے پاس ہیں اور ان کے ٹھیکوں سے موصول ہونے والی رقم بھی قومی خزانے میں جاتی ہے۔ لیکن کچہری کے فلائی اوور کے نیچے والا پارکنگ سٹینڈ کارپوریشن کے بجائے بار ایسوسی ایشن کے زیرانتظام چل رہا ہے جس کی رقم بھی سرکار کو نہیں دی جاتی۔
"محکمے کے اعلیٰ افسروں نے ضلعی انتظامیہ کو متعدد بار ضلع کچہری کا پارکنگ سٹینڈ واگزار کرانے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کے لیے کہا لیکن جواب میں ہمیشہ یہی بتایا گیا کہ یہ وکلا کا معاملہ ہے اس لیے دور رہنا ہی بہتر ہے۔"
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے سیکرٹری سید علی الطاف گیلانی کہتے ہیں کہ بار کو یہ پارکنگ سٹینڈ 2008 میں اس وقت کی حکومت نے دیا تھا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم وکلا کی بہبود پر خرچ ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
فیصل آباد میں غیرقانونی پارکنگ سٹینڈ: 'کوئی سرکاری محکمہ اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں'۔
ٹریفک کے مسئلے کی بابت ان کا کہنا تھا کہ پہلے وکلا کی گاڑیاں تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے کچہری کے اندر ہی پارک ہو جاتی تھیں۔ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے اور وکیلوں کے چیمبر کی تعمیر کے بعد یہاں جگہ کم پڑ گئی ہے۔
پارکنگ سٹینڈ کے مسئلے پر ضلعی انتظامیہ کے ترجمان وسیم یوسف سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ وکلا کو پارکنگ کی متبادل جگہ فراہم کرنے کے لئے بار کے عہدیداروں اور انتظامی افسروں سے مشاورت جاری ہے اور اس سلسلے میں کچہری کے اندر ایک عارضی پارکنگ سٹینڈ بھی بنا دیا گیا ہے۔
ٹریفک کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے حکومت پنجاب اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے احکامات پر کچہری کی عمارت کے اندر چار منزلہ پارکنگ سٹینڈ بھی تعمیر کیا جا رہا ہے جو تین سال میں دستیاب ہو گا۔
فلائی اوور کے نیچے پارکنگ سٹینڈ کے باعث پیدا ہونے والے ٹریفک مسائل کے بارے میں ٹریفک پولیس آفس کا موقف لینے کے لئے اس کے ترجمان محمد عدنان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ "یہ وکیلوں کا معاملہ ہے اور ہم اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہتے۔"
تاریخ اشاعت 11 مئی 2023