اس وقت پاکستان کو بہت سے اہم مسائل کا سامنا ہے۔ توانائی کی لاگت میں مسلسل اضافے سے لے کر موسمیاتی تبدیلی اور شدید معاشی چیلنجوں تک، ہمیں توانائی، ماحولیات اور معیشت کو آپس میں جوڑنے والے عوامل کے پیچیدہ ربط سے نمٹنا ہے۔
پاکستان میں توانائی، گھروں اور صنعتوں کے لیے بجلی کی فراہمی سے بڑھ کر ہے، اسے معیشت کی نبض سمجھا جا سکتا ہے۔
ہمارا سب سے بڑا چیلنج سستی بجلی کی مستقل پیداوار ہے کیونکہ بجلی سے ہی گھر روشن اور کارخانے چلتے ہیں۔مگر بجلی پیدا کرنے کے روایتی طریقے بہت مہنگے اور ناکافی ہیں۔ ایسی صورت حال میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع امید کی ایک کرن ہیں۔
پاکستان نے نہ صرف توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے بلکہ حقیقی طور پر تبدیلی لانے والے انداز میں سماجی اور معاشی ترقی کے لیے اپنے توانائی کے منظرنامے کو تبدیل کرنے کی ضرورت کو پہلے ہی تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔
توانائی کی منتقلی کے اہم محرک
پاکستان ایئر کوالٹی انیشی ایٹو کے شریک ڈائریکٹر داور حمید بٹ نے سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دیگر ممالک کی طرح قابل تجدید توانائی کے نئے ذرائع کی طرف تیزی سے آگے نہیں بڑھا۔
"ہمارے منصوبہ ساز بنیادی طور پر فوسل فیول اور ہائیڈرو پاور پر انحصار کرتے ہیں جو ہمیں ضرورت سے آدھی بجلی فراہم کرتے ہیں۔ سولر اور ونڈ کےسستے پراجیکٹ مہنگی بجلی کا توڑ ہیں۔"
اگرچہ حکومت نے 2060ء تک قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے 2016ء میں پیرس معاہدے میں نیشنل ڈیٹرمینڈ کنٹریبیوشنز(این ڈی سی) کو پورا کرنے کا عزم کیا ہے، لیکن ایسا ہونے کا امکان کم نظر آتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور واٹر مینجمنٹ کے سینئر ماہر ڈاکٹر شکیل حیات کے مطابق اس منتقلی میں تیزی سے پیش رفت نہیں ہو رہی کیونکہ ملک میں ایسا سازگار ماحول نہیں ہے جو توانائی کے حصول کے روایتی طریقوں سےقابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف جانے پر مائل کرتا ہو۔
رینیوایبلز فرسٹ کے سی ای او ذیشان اشفاق ڈاکٹر شکیل کی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران صرف 2.6 گیگاواٹ قابل تجدید توانائی قومی گرڈ میں شامل کی جا سکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ قابل عمل پالیسی اور ریگولیٹری فریم ورک کی غیر یقینی صورتحال، کمزور گرڈ انفراسٹرکچر، محدود مالی وسائل اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان قابل تجدید توانائی کی مارکیٹ کی ترقی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
اگرچہ توانائی کی منتقلی میں مثبت رفتار کا فقدان ہےلیکن موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے سندھ کے شیوا رام کے مطابق بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
ان کے مطابق صوبے میں شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے، خاص طور پر تھر جیسے علاقوں میں، قابل تجدید توانائی کے وسائل کو بروئے کار لانے میں پیش رفت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
سماجی و اقتصادی فوائد
توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب منتقلی سے روزگار کے زیادہ مواقع، مقامی صنعتوں کی حوصلہ افزائی، فضائی معیار میں بہتری اور انرجی سیکورٹی کو تقویت کی امید کی جاتی ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس طرح کے سماجی اور معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے؟
انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی ایجنسی(IRENA) کے اندازوں کے مطابق، قابل تجدید توانائی کا حصہ دوگنا کرنے سے جی ڈی پی میں 0.2 سے 4 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے اور فوسل فیول ٹیکنالوجی کے مقابلے میں دوگنا ملازمتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ایندھن کی درآمدات مجموعی درآمدات پر غالب ہیں، بچت کے مواقع زیادہ ہیں۔
داور بٹ کا بھی یہی کہنا ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع کے فروغ سے یوٹیلیٹی بلوں میں کمی سے لے کر صحت عامہ کی بہتری تک فوائد حاصل ہوں گے۔
سولر انرجی کے حوالے سے خدمات مہیا کرنے والی کمپنی سمپل انرجی کے سربراہ رضا مجید کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں اپنے دفاتر کھولنے اور مینوفیکچررز کی جانب سے مقامی افراد کو بھرتی کرنے سے معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
"سماجی محرومیوں سے عبارت ہمارے موجودہ پس منظر میں بے روزگاری حالات کو مزید بدتر بنا دے گی۔ توانائی کے عدم تحفظ نے ان چیلنجوں کو مزید بڑھا دیا ہے، جس سے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر دیہی اور نیم شہری علاقوں میں توانائی کے عدم استحکام کی وجہ سے معاشی صورتحال غیر یقینی ہو گئی ہے۔ناکافی توانائی اور کم تعلیمی وسائل کی وجہ سے ترقیاتی رکاوٹوں کا شکار یہ علاقے پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کی آفات سے نمٹنے میں فرنٹ لائن پر ہیں۔
قابل تجدید ٹیکنالوجی کو مربوط کرنا
قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی کو اپنانے کا براہ راست تعلق گھریلو بجٹ اور اخراجات کے طریقوں میں تبدیلیاں لانے سے ہے۔ شمسی اور توانائی کے دیگر صاف ذرائع کے استعمال سے بجلی کے بلوں میں کمی آئی ہے۔ پاکستان کے کچھ دور افتادہ دیہات میں، جہاں بجلی تک رسائی کبھی ایک خواب تھا، قابل تجدید توانائی روشنی اور امید لا رہی ہے۔ سولر مائیکرو گرڈ تنصیبات نہ صرف گھروں کو بجلی فراہم کر رہی ہیں بلکہ افراد کو بھی بااختیار بنا رہی ہیں۔
ضلع عمرکوٹ کے ریوو کولہی گاؤں میں کمیونٹی کے ایک رہنما بتاتے ہیں کہ شمسی توانائی کو اپنانے سے گاؤں کے لوگوں کے گھریلو بجٹ میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ لوگ بجلی اور مٹی کے تیل پر اٹھنے والے اخراجات کی بچت کرنے لگے ہیں۔
ثنا اللہ خان خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے گاؤں صدری جدید کے مقامی بوائز سکول میں استاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بجلی کے بے تحاشہ بلوں اور لوڈ شیڈنگ کے مسائل کے دن گزر چکے۔ سولر پینلز کی بدولت، گاؤں کے گھروں نے اب توانائی کے حوالے سے خود مختاری حاصل کر لی ہے۔
اگرچہ توانائی کے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی توانائی کی منتقلی کی کوششیں سست ہیں لیکن اس کے باوجود کئی کچھ علاقوں میں متبادل توانائی کے منصوبوں کے فوائد دیکھنے میں آئے ہیں۔
ثناء اللہ نے انکشاف کیا کہ ان کے گاؤں میں دفاتر، مساجد اور سکولوں کو خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے سولر پینل دیے گئے ہیں۔
شہری آبادیوں میں چھتوں پر شمسی تنصیبات تیزی سے عام ہوتی جارہی ہیں۔ سولر پینل پر یہ منتقلی گرڈ پر انحصار کو کم کرنے اور صارفین کے لیے بجلی کے بلوں کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے۔
رضا مجید کے بقول قابل تجدید توانائی اور مائیکرو گرڈ ان علاقوں میں لائف لائن بن سکتے ہیں اور یہاں تعلیم، صحت، غذائی تحفظ، پیداوار اور کمیونٹی کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
ذیشان اشفاق کا کہنا ہے کہ ملک کی 20 فیصد سے زیادہ آبادی اب بھی گرڈ سے منسلک نہیں ہے۔ قابل تجدید توانائی ملک بھر میں مساوی بجلی کی رسائی حاصل کرنے کے لیے بہتر متبادل پیش کرتی ہے مگر اس کی قیمتیں اب بھی زیادہ ہیں۔
اس وقت سولر پینل سسٹم کی لاگت تقریباً 15 لاکھ روپے ہے۔ یہ رقم بہت سے لوگوں، خاص طور پر متوسط طبقے اور کم آمدنی والے گھرانوں کی پہنچ سے باہر ہے۔
حکومت اور پالیسی ساز
2023 ء میں پاکستان کے کوپ 28 وفد نے ملک میں صاف توانائی کی منتقلی میں مدد کے لیے بین الاقوامی فنانسنگ حاصل کرنے پر زور دیا تھا۔ جسٹ انرجی ٹرانزیشن پارٹنرشپ (JETP) کو ترجیح دینے کا مقصد پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ڈی کاربنائزیشن کی کوششوں کو تیز کرنا ہے۔
تاہم بظاہر حکومت اس پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہے۔ پاکستان کا آگے بڑھنے کا راستہ مشکل ہے اور اس کے لیے داخلی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی موسمیاتی مالیات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کثیر سٹیک ہولڈرز کے تعاون کی ضرورت ہے۔
لیکن ٹھوس اقدامات کی عدم موجودگی میں پالیسی سازوں سے کی جانے والی توقعات میں کمی آ رہی ہے۔
ڈاکٹر شکیل کے مطابق یہ خدشات متبادل توانائی سے متعلق کاروبار( ہائیڈرو کاربن فیول، بیٹریاں اور جنریٹرز کی خرید وفروخت( میں سیاسی اشرافیہ کے غلبے کی وجہ سے ہوا ہے۔
البتہ سستی توانائی تک رسائی کے لیے کچھ کوششیں دیکھنے میں آئی ہیں۔
رضا مجید بتاتے ہیں کہ کے ایف ڈبلیو ڈیویلپمنٹ بنک اور ورلڈ بنک نے گرڈ تک محدود یا رسائی سے محروم کمیونٹیز کو سولر سسٹم فراہم کرنے کے لیے مل کر کام کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟
"پنجاب میں کچھ دیہی میونسپل کمپنیاں سولر انرجی کا استعمال کرتے ہوئے صفائی ستھرائی اور پانی کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ شمالی علاقوں میں مائیکرو ہائیڈل ٹربائن نصب کیے جا رہے ہیں۔"
دریا لیب کے بانی یاسر حسین کہتے ہیں کہ پالیسی سازوں کو پالیسی سازی سے بڑھ کر مختلف تکنیکی پہلوؤں پر سوچ بچار کرنا ہوگی۔
"نئے ڈیزائن، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے علم کو بہترین طریقے سے بروئے کار لاکر اہداف پورے کیے جاسکتے ہیں۔"
چیلنجوں سے نمٹنا
قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے بہتر انضمام کے لیے مناسب منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کا فقدان ہے۔ملک کے اندر مالی مشکلات، فعال اقدامات میں رکاوٹ اس کا اہم عنصر ہیں۔ توانائی کے ماہرین کے مطابق روایتی پاور پلانٹس کے پورے نظام کی تونائی کے متبادل ذرائع کی جانب منتقلی کے لیے بے پناہ مالی وسائل درکار ہیں جو فی الحال میسر نہیں۔
جب تک جی ڈی پی کی نمو اور توانائی کی طلب میں نمایاں تیزی نہیں آتی، اس بات کا امکان نہیں ہے کہ مطلوبہ سرمایہ کاری عمل میں آئے گی۔
رضا مجید کے مطابق، اس چیلنج کا ایک اور پہلو قابل تجدید ذرائع جیسے سولر اور ہوا کا ہر وقت دستیاب نہ ہونا بھی ہے۔ اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے تنصیب اور گرڈ میں ترمیم کے لیے کافی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ چوبیس گھنٹے توانائی کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔
بہرحال، ایک بات واضح ہے کہ ہوا اور ہائیڈل ذرائع کے مقابلے میں قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کے لیے شمسی توانائی زیادہ بہتر ہے۔
خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں بہت سے علاقوں میں توانائی کے نئے نظام نے پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا ہے اور ہنزہ اور چترال میں لڑکیاں ڈیجیٹل میڈیا کے میدان میں ترقی کر رہی ہیں۔
جیسے جیسے توانائی کا شعبہ پھل پھول رہا ہے، ویسے ویسے سماجی تبدیلی کے امکانات بھی بڑھ رہے ہیں۔
تاریخ اشاعت 20 مئی 2024