راستے بند، تجارت بند: پاک بھارت سرحد پر کام کرنے والے سیکڑوں پانڈی بے روزگار

postImg

آصف محمود

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

راستے بند، تجارت بند: پاک بھارت سرحد پر کام کرنے والے سیکڑوں پانڈی بے روزگار

آصف محمود

loop

انگریزی میں پڑھیں

پینتیس سالہ محمد ریاض لاہور کے ایک سرحدی گاؤں میں رہتے ہیں۔ وہ واہگہ بارڈر سے جلوموڑ تک چنگ چی رکشہ چلا کر روزی کماتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ آٹھ سال تک واہگہ ریلوے سٹیشن اور پاک بھارت سرحد پر بطور پانڈی (سامان اٹھانے والا/قلی) کا کام کرتے رہے ہیں لیکن اب یہ کام بند ہو گیا ہے۔

وہ بتاتےہیں کہ 2019ء میں پاک بھارت تجارت، دوستی بس اور سمجھوتہ ایکسپریس بند ہوئیں تو سیکڑوں افراد بیروزگار ہوگئے تھے۔ واہگہ پر تقریباً ایک ہزارپاکستانی مزدور کام سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں وہ خود بھی شامل تھے۔

واہگہ میں ایک ڈھابے پر کام کرنےوالے شبیر حسین بھی پہلے سرحد پر مزدوری کر کے اپنا گھر چلاتے تھے۔ شبیر حسین کئی ماہ تک بیروزگار رہے اور روزانہ یہ امید لے کر سرحد پر آ جاتے تھے کہ شاید تجارت یابس سروس بحال ہوجائے لیکن انہیں ہمیشہ مایوسی کا سامنا ہے۔ بالاآخر انہیں شہر کے قریب ایک فرنس مل میں دیہاڑی پر مزدوری مل گئی۔ گھرکا چولہا جلانے کے لیے وہاں چندماہ کام کیا جس سے وہ آٹھ سو سے ہزار روپے روزانہ کمالیتے تھے مگر گاؤں سے مل تک کرایہ بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے کام چھوڑ دیا۔

اب چند ماہ سے وہ ڈھابے پر کام کرتے ہیں جس سے انہیں دو وقت کا کھانا اور اتنی اجرت مل جاتی ہے کہ گھر کا گزارا ہو سکے۔

فروری 2019 ء میں پلوامہ میں انڈین فوجی قافلے پر حملے کے بعد بھارت نے پاکستان سے آںے والی اشیا پر دو سو فیصد ڈیوٹی عائد کر دی۔ پھر اگست میں مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اقدام کیا تو پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ باہمی تجارت، دوستی بس سروس اور سمجھوتہ ایکسپریس بھی معطل ہو گئی۔

 چار برس بعد بھی یہ رابطے بحال نہیں ہو سکے۔ اس سارے عمل میں سرحد پر کام کرنے والے یہ سیکڑوں پانڈی سب سے زیادہ متاثر ہوئے جن میں سے بیشتر اب بھی بےروزگار ہیں۔

واہگہ سے پاک بھارت تجارت بند ہے تاہم یہاں سے افغانستان انڈیا ٹرانزٹ ٹریڈ ہو رہی ہے۔ اسی طرح دوستی بس اور سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین بند ہیں لیکن دونوں ملکوں کے شہریوں کی  واہگہ بارڈر کے راستے پیدل آمدورفت جاری ہے۔

واہگہ سے آنے جانے والے مسافروں کی سہولت کے لیے یہاں اب 50 کے قریب پانڈی کام کرتے ہیں۔ خادم حسین انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ روزانہ صبح 9 بجے یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کوئی پاکستانی بھارت جانے کے لیے یہاں پہنچتا ہے یا وہاں سے کوئی مسافر آتا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں۔

خادم کا کہنا ہے کہ ان کی روزی روٹی انہی مسافروں سے چلتی ہے۔ وہ ان کے سامان کی کسٹمز کلیئرنس میں مدد کرتے ہیں انہیں گاڑی تک پہنچاتے ہیں اور اسی طرح پاکستانیوں کاسامان زیرو لائن پر بھارتی پانڈیوں کے سپرد کرتے ہیں۔

خادم حسین کے مطابق وہ روزانہ پانچ سو سے ایک ہزار روپے تک کما لیتے ہیں۔سب مزدوروں نے آپس میں باری مقرر کررکھی ہے۔ بعض اوقات سارا دن بھی کئی پانڈیوں کی باری نہیں آتی اور وہ خالی ہاتھ گھر جاتے ہیں۔ بارڈر پر کچھ لوگ مسافروں کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرتے تھے۔ اب ان کا کاروبار نہ ہونے کے برابرہے۔

پاک بھارت تجارت بند ہونے سے سینکڑوں بھارتی خاندان بھی متاثر ہوئے ہیں۔

بھارتی صحافی اورتجزیہ کار سریندر کھوچر بتاتے ہیں کہ انہوں نے پاک بھارت تجارت، ٹرین اوربس سروس بند ہونے کے بعد ایک تفصیلی سروے کیا تھا ۔اس میں یہ بات سامنے آئی کہ دوطرفہ تجارت سے جڑے نو ہزار 354 خاندان متاثر ہوئے اور صرف امرتسر شہر کے تاجروں کے منافع میں 30 کروڑ (انڈین کرنسی) ماہانہ کمی آئی ہے۔

کریم خان بھارت کو جپسم اورنمک ایکسپورٹ کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان سےجپسم منگواتے تھے اور بارڈر کے قریب سٹورکر لیتے تھے۔پھر یہاں سے ڈیمانڈ کے مطابق اسے انڈیا بھیج دیتے تھے۔ جب دوطرفہ تجارت بند ہوئی تو برآمد کنندگان کا کروڑوں روپے کا ذخیرہ شدہ جپسم ضائع ہوچکا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جپسم کے نقصان سے وہ مقروض ہوچکے ہیں اور ان کے کاروبار سے وابستہ ڈیڑھ سو سے زیادہ خاندانوں کا روزگار ختم ہو گیا ہے۔

پاک بھارت تجارتی کی بحالی کے امکانات

پاکستان نے مئی 2022ء میں قمر زمان کو نئی دہلی کے پاکستانی ہائی کمیشن میں ٹریڈ منسٹر مقرر کیاتھا۔ یہ عہدہ پانچ سال سے خالی تھا۔اس تقرری سے سرحد کی دونوں جانب تاجروں ، مزدوروں اور ٹرانسپورٹروں میں امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید دو طرفہ تجارت بحال ہو جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

 ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا کہ اس وقت ملک میں نگران حکومت بھارت سے تجارت یا ڈائیلاگ کا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ یہ کام منتخب حکومت ہی کرے گی۔

وہ کہتی ہیں کہ تجارت اورتعلقات کی بحالی کے لیے ڈائیلاگ ضروری ہے۔ لیکن بھارت جس طرح ہر معاملے میں پاکستان کوموردوالزام ٹھہرانے اور اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو ایسی صورتحال تو مذاکرات کا کوئی امکان نہیں ہے۔

لاہورچیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری لاہور کے صدر کاشف انور کا ماننا ہے کہ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت ہونی چاہئے۔ بھارت سے پاکستان کو بہت سا سامان سستا مل سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستانی اشیا ہمسایہ ملکوں میں ایکسپورٹ کرنے پر لاگت کم آئے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستاں ہمسایہ ملکوں کی منڈیوں میں بہتر داموں پر اشیا فروخت کرسکتا ہے۔ دو طرفہ تجارت سے صرف کاروباری لوگوں کو ہی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ بارڈر کی دونوں جانب کام کرنے والے ہزاروں مزدوروں کو بھی روزگار ملے گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا: واہگہ بارڈر بند ہونے سے کھجور برآمد کرنے والے تاجر پریشان

ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے سی ای او زبیر موتی والا بھارت سے سوتی دھاگے کی درآمد کھولنے کا مطالبہ کر چکے ہیں تاہم اب ان کا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں بھارت سے تجارت پربات نہیں کی جاسکتی۔

نگران وفاقی وزیر تجارت اور کاروباری شخصیت گوہر اعجاز نے بتایا کہ نگران حکومت کے پاس بھارت کے ساتھ مذاکرات کا اختیار نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تیسرے ملک کے ذریعے تجارت ہو رہی ہے اور شاید ابھی یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔

 تحریک انصاف کے دورحکومت میں بھی بھارت سے تجارت بحال کرنے کی تجویز سامنے آئی تھی۔ تاہمم اسے اگلے ہی روز اسے واپس لے لیا گیا تھا۔

بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط سمجھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بحال ہونے کا فی الحال کوئی امکان نظرنہیں آتا۔ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں کرتا تب تک دو طرفہ تجارت یا ٹرین اور بس سروس کا سلسلہ بحال نہیں ہو گا۔

تاریخ اشاعت 9 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

آصف محمودکا تعلق لاہور سے ہے۔ گزشتہ 20 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ غیرمسلم اقلیتوں، ٹرانس جینڈرکمیونٹی، موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات، جنگلی حیات اور آثار قدیمہ سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.