پاک بھارت دشمنی کے جال میں برسوں سے پھنسے سندھ کے غریب مچھیرے

postImg

اشفاق لغاری

postImg

پاک بھارت دشمنی کے جال میں برسوں سے پھنسے سندھ کے غریب مچھیرے

اشفاق لغاری

2017 میں یوم پاکستان (23 مارچ) کے دن سرکریک کے علاقے میں مچھلیاں پکڑتے میر جت اور ان کے آٹھ ساتھیوں کو بھارتی بحری فورسز نے گرفتار کیا۔ چھ سال بعد انہیں بھارت کے یوم جمہوریہ (26 جنوری، 2023) پر رہائی ملی۔

ان مچھیروں کا تعلق سندھ کے ضلع سجاول کے علاقے چچھ جہاں خان سے ہے۔ ماہی گیری ان کا جدی پیشہ ہے اور گرفتاری کے وقت وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع سمندری علاقے سرکریک کی ایک کھاڑی کاجھر کریک میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔

میر جت کہتے ہیں کہ اس دن جب وہ روزی کمانے گھر سے نکلے تو انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ آئندہ چھ سال اپنے گھر والوں سے دور جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاریں گے۔ قید کاٹنے کے بعد واپسی پر ان کے لیے بہت کچھ بدل چکا تھا۔ وہ کہتے ہیں "میرے والد ہماری گرفتاری کے پانچ ماہ بعد اسی صدمے میں دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ ان کے بعد میری ساس کا بھی انتقال ہو گیا۔ میری غیرموجودگی میں بچوں کی شادیاں ہو گئیں اور میں دادا، نانا بھی بن گیا ہوں۔"

ان کے ساتھی مچھیروں کا کہنا ہے کہ جب وہ گرفتار ہوئے تو ان کے بچے بہت چھوٹے تھے جو اب بڑے ہو چکے ہیں۔ چھ سال کے بعد جب انہوں نے اپنے بچوں کو پہلی مرتبہ دیکھا تو ان کے چہرے پہچاننا بھی دشوار تھا۔

میرجت بتاتے ہیں کہ قید کے دوران انہیں بھارتی ریاست گجرات کی جیلوں بھوج جوائنٹ انٹیروگیشن سنٹر، پالارا اور راجکوٹ میں رکھا گیا۔ جیل حکام کہتے تھے کہ رہائی کے لیے انہیں بھارت کے کسی قومی دن کا انتظار کرنا ہوگا۔ قید سے آزاد ہونے کے بعد انہیں واہگہ بارڈر پہنچایا گیا جہاں وہ کچھ دن پاکستان میں زیر حراست میں رہے جس کے بعد فلاحی ادارے ایدھی نے انہیں کراچی پہنچایا۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی جیلوں میں قید بیشتر مچھیرے اپنی سزا پوری کر چکے ہیں اور رہائی کے منتظر ہیں۔

پانی میں لکیر کون کھینچے؟

سرکریک بھارت کے علاقے رن آف کچھ اور پاکستان میں صوبہ سندھ کے درمیان 60 میل طویل ایک دلدلی ساحلی پٹی ہے جس پر دونوں ممالک اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس علاقے میں 17 سمندری کھاڑیاں ہیں جنہیں پاکستان اپنی ملکیت قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اس میں سے نصف رقبے پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔

آبی حیات، معدنی ذخائر اور دفاعی اعتبار سے دونوں ممالک کے لیے اس جگہ کی خاصی اہمیت ہے۔

1914 میں برطانوی حکومت نے ریاست کچھ کے مہاراجہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے یہ علاقہ سندھ کا حصہ قرار پاتا ہے لیکن بھارتی حکومت اسے تسلیم نہیں کرتی۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کی صورت میں بھارت کو اپنے زیر قبضہ 250 مربع میل کا رقبہ بھی خالی کرنا پڑے گا۔

چونکہ یہ علاقہ سندھ کے ضلع سجاول میں تحصیل جاتی اور ضلع بدین میں تعلقہ گولارچی/ شہید فاضل راہو کے سنگم پر واقع ہے اسی لیے پاکستانی حکام اسے دریائے سندھ کا معاون ہونے کے ناطے اپنا علاقہ کہتے ہیں۔

بھارت اس علاقے میں سر نامی ایک بڑی کھاڑی کے مرکز کو دونوں ممالک کے مابین سرحد بنانے پر اصرار کرتا ہے جبکہ پاکستان کھاڑی کے جنوب مشرقی کنارے کو سرحدی مقام بتاتا ہے۔

پہلے یہ علاقہ بان گنگا کہلاتا تھا۔ 1965 میں دونوں ممالک کے مابین اس علاقے کی ملکیت پر جنگ بھی ہو چکی ہے۔ جنگ کے بعد 1968 میں ایک عالمی ٹریبونل نے دونوں ممالک کے مابین تصفیہ کرایا جس کے تحت پاکستان کو رن آف کچھ کا 350 مربع میل کا علاقہ دیا گیا جبکہ پاکستان اس خطے میں 3,500 مربع میل پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔

بھارت کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد کا تعین سرکریک کے درمیان سے ہونا چاہیے۔ دوسری طرف پاکستان عالمی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ پانی کے درمیان سرحد کا قانون جہاز رانی کے قابل آبی راستوں پر ہوتا ہے جبکہ یہ علاقہ عام گزرگاہ نہیں ہے۔

سرحدی حدود کا تعین نہ ہونے کے باعث اس علاقے میں دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز ایک دوسرے کے ماہی گیروں کو گرفتار کرتی رہتی ہیں۔ اس وقت بھی ٹھٹھہ، بدین اور سجاول اضلاع کے درجنوں ماہی گیر بھارت کی جیلوں میں قید ہیں جبکہ بھارت کے بیسیوں ماہی گیر بھی پاکستان کی حراست میں ہیں۔ دونوں ممالک سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ میں بھی سرکریک کا سرحدی تنازع حل نہیں کر سکے جس کی سزا دونوں اطراف کے مچھیروں کو بھگتنا پڑتی ہے۔

<p>احمد کی بیوی اپنے بیٹے زاہد کی بیوی اور اپنے پوتے زوہیر علی کے ساتھ<br></p>

احمد کی بیوی اپنے بیٹے زاہد کی بیوی اور اپنے پوتے زوہیر علی کے ساتھ

قید کا بدلہ قید؟

پاکستان فشر فوک فورم کے وائس چیئرمین نور محمد ملاح پچھلے 28 سال سے سندھ کے ساحلی علاقے میں مچھیروں کے حقوق کی جدوجہد میں سرگرم ہیں۔ ان کے ادارے نے انہیں بھارت میں قید مچھیروں کی فہرست بنانے کی ذمہ داری سونپی ہوئی ہے۔ نور محمد کے مطابق اس وقت سندھ کے 94 مچھیرے بھارت کی قید میں ہیں جن میں سے 59 کا تعلق ٹھٹہ اور سجاول سے ہے جبکہ باقی 35 کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری اور علی اکبر شاہ ولیج کے رہنے والے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی کی سینٹرل اور ملیر جیل میں بھارت کے چھ سو سے زیادہ ماہی گیر قید ہیں۔

2008 میں دونوں ممالک کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت ہر سال یکم جنوری اور یکم جولائی کو ایک دوسرے کے قیدی رہا کیے جانا تھے لیکن اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔

نور محمد کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت پاکستان میں قید اپنے ماہی گیروں کے خاندانوں کو ماہانہ 14 ہزار روپے وظیفہ دیتی ہے۔ پاکستان کی وفاقی یا صوبائی حکومت نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا۔ بھارتی قید سے رہا ہونے والے پاکستانی ماہی گیروں کو واہگہ بارڈر پر چھوڑا جاتا ہے جنہیں پاکستانی سکیورٹی ادارے ایک سے ڈیڑھ ماہ تک حراست میں رکھتے ہیں جس کے بعد انہیں سرکاری خرچ پر سندھ پہنچانے کا بھی کوئی انتظام نہیں کیا جاتا۔ رہائی پانے والوں کو گھر پہنچانے کا کام بھی ایدھی فاؤنڈیشن ادا کرتی ہے۔

مریاں کا انتظار ابھی ختم نہیں ہوا

مریاں کو سال اور تاریخیں یاد نہیں رہتیں۔ انہیں بس یہ معلوم ہے کہ ان کے شوہر احمد ملاح انہیں چاول کی فصل کی کٹائی پر چھوڑ کر سمندر میں جھینگوں اور کیکڑوں کا شکار کرنے کے گئے تھے جب انہیں اور ان کے ساتھی مچھیرے حمزہ کو بھارتی فورسز نے گرفتار کر لیا تھا۔

50 سالہ احمد ملاح کو 21 اکتوبر 2019 کو بھارتی فورسز  نے بین الاقومی سمندری حدود کو غیر قانونی طور پر پار کرنے کے الزام میں اپنی حراست میں لے لیا تھا۔

مریاں کو اگلے دن شام کو پتا چلا کہ احمد دوسرے ملک کی قید میں ہیں۔ وہ ساڑھے تین سال سے اپنے شوہر کی رہائی کا شدت سے انتظار کر رہی ہیں۔ "لوگ افواہ پھیلاتے ہیں کہ احمد انڈیا کے جیل میں مر گیا ہے"۔

کچھ عرصہ پہلے احمد نے بھارت سے رہائی پانے والے ایک پاکستانی ماہی گیر کو اپنا ایک خط اور اپنے بھائی کا نام اور موبائل نمبر دیا تھا جو وہ اپنے گلے کے تعویز میں ڈال کر پاکستان لایا اور  اسے احمد کے بھائی تک پہنچایا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کراچی کے ساحلی جزیروں پر تعمیرات کا منصوبہ: ماہی گیروں اور قدرتی ماحول کے لیے سنگین خطرہ۔

مریاں وہ خط دکھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ احمد زندہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار بھارت میں احمد کے وکیل نے ان کی اپنے بھائی سے فون پر بات بھی کروائی ہے۔ انہیں یقین ہے کہ ایک دن احمد رہا ہو کر اپنے گاؤں واپس آئے گا۔

ان کا گاؤں جڑیو تھیمور ضلع سجاول کے ساحلی علاقے میں ہے۔ روزگار کی بڑھتی ہوئی مشکلات کے باعث مریاں اپنا سسرال چھوڑ کر وہاں سے 20 کلومیٹر دور اپنے ماں باپ کے گاؤں اسحاق تھیمور آگئی ہیں اور یہیں اپنے چھ بچوں کے لیے جھونپڑی بنالی ہے۔

دو سال قبل انہوں نے اپنی ایک بیٹی اور ایک بیٹے کی شادی کر دی۔ اب وہ اور ان کا بیٹا مزدوری کرکے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں۔ اس علاقے میں کھیتوں میں کام کرنے کی مزدوری ڈھائی سو روپے یومیہ ہے اور مزدوری کے زیادہ مواقع فصلوں کی کٹائی کے موسم میں ہی دستیاب ہوتے ہیں۔

مریاں ملکی سرحدوں اور معاہدوں سے تو ناواقف ہیں مگر لفظ عیوضہ (کس شے کے بدلے میں) کو سمجھتی ہیں اور بار بار کہتی ہیں کہ حکومت احمد اور دیگر ماہی گیروں کو انڈیا کے ماہی گیروں کے عیوضے میں رہا کروائے۔

تاریخ اشاعت 16 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.