ڈاکٹر کاشف علی چنڑ سندھ میں منہ کے کینسر کے مریضوں میں مسلسل اضافے پر پریشان ہیں۔ وہ جامشورو کی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (لمس) کے شعبہ سرجری برائے منہ اور جبڑا کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ گذشتہ سال ان کے ہسپتال میں اس مرض کے نو سو مریض ریکارڈ کیے گئے تھے اور اس سے پچھلے برس چار سو لیکن اس سال کے پہلے تین مہینوں میں ہی چار سو مریض ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔
"پہلے 40، 50 سال کے لوگ اس مرض کے ساتھ آتے تھے لیکن اب تو 20، 20 سال کے اور اس سے بھی کم عمر مریض آ رہے ہیں۔ ایک ہی خاندان کے دو، دو، تین، تین مریض ساتھ آتے ہیں۔ باپ، بیٹا، بھائی، سب۔ اور سبھی گٹکے اور مین پڑی کھانے کے عادی ہوتے ہیں"۔
سندھ میں یہ سستا نشہ عام محنت کش افراد میں کافی عرصے سے مقبول ہے۔ گو اس کے اجزاء ترکیبی کے بارے میں کوئی تجزیاتی رپورٹ دستیاب نہیں لیکن عام خیال یہی ہے کہ یہ تمباکو، چونا اور چھالیہ کا مرکب ہوتا ہے جس میں خوشبو کے لیے الائچی اور لونگ بھی شامل کی جاتی ہے۔ اجزا اور ان کے تناسب میں ردوبدل کر کے اس کو مختلف ناموں جیسے مین پڑی، گٹکا وغیرہ سے بیچا جاتا ہے۔
زیریں سندھ ان کے بہ کثرت استعمال کے حوالے سے بدنام ہے اور ٹھٹہ کو اس کا گڑھ مانا جاتا ہے اور سندھ میں منہ کے کینسر کے سب سے زیادہ مریض بھی اسی ضلع میں ہیں۔
ٹھٹہ کے ایڈیشنل چیف ڈینٹل سرجن ڈاکٹر شیام کمار نے لوک سجاگ کو بتایا کے سول ہسپتال کے دانتوں کے شعبے میں 2021ء میں منہ کے کینسر کے 261 مریض رپورٹ ہوئے تھے جبکہ 2022ء میں یہ تعداد 475 تک جا پہنچی اور رواں سال جنوری سے مارچ تک 90 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان مریضوں میں 30 فیصد خواتین شامل ہیں جبکہ زیادہ تر مریضوں کی عمر 30 سے 40 سال تک ہے۔
یہ بھی پڑھیں
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی: ٹھٹہ میں گٹکے کے عادی افراد میں کینسر کے مرض میں روز بروز اضافہ۔
مین پڑی اور گٹکے کی کھلے عام دستیابی کے بارے میں سندھ کے شہری کئی بار آواز بلند کر چکے ہیں۔
محکمہ صحت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل نے نومبر 2019ء میں سندھ ہائی کورٹ، کراچی میں ایک کیس کے سلسلے میں رپورٹ جمع کروائی تھی جس کے مطابق 2015ء سے اکتوبر 2019ء تک صوبہ میں منہ کے کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 76 ہزار سات سو 14 تھی۔
سندھ اسمبلی نے 18 دسمبر 2019ء کو مین پڑی اور گٹکے کی تیاری، خرید و فروخت اور ذخیرہ کرنے اور کھانے کے خلاف ایک قانون منظور کیا جو 22 جنوری 2020ء سے پورے صوبے میں لاگو ہوگیا۔ قانون کے تحت مین پڑی اور گٹکے کی فروخت اور استعمال میں ملوث افراد کو تین سال قید اور دو لاکھ روپے سے زائد جرمانے کی سزا ہے۔
اس قانون کے اطلاق کے بعد مین پڑی اور گٹکے کی سر عام دستیابی کم ہو گئی اور یہ کاروبار زیرزمین چلا گیا۔
مافیا کیسے کام کرتا رہا ہے؟
لوک سجاگ نے اس خفیہ کاروبار کی اندرونی کہانی جاننے کے لیے ٹنڈوالہیار میں مین پڑی کے ایک بڑے بیوپاری سے بات چیت کی۔ انہوں نے معلومات اپنی پہچان ظاہر نہ کرنے کی شرط پر شیئر کیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 20 سال اس مضر کاروبار سے وابستہ رہے لیکن گذشتہ ماہ سے وہ اسے ترک کر چکے ہیں۔
تحصیل چمبڑ میں اس کاروبار کے مرکزی کردار کا کہنا ہے کہ یہ کاروبار قانون نافذ کرنے والوں کی درپردہ مدد بلکہ اجازت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ "2013ء تک وہ ہم سے ماہانہ بھتہ لیتے تھے اور اس کے بعد ہفتہ کے حساب سے"۔
مین پڑی اور گٹکے کی فروخت اور استعمال میں ملوث افراد کو تین سال قید اور دو لاکھ روپے سے زائد جرمانے کی سزا ہے
مختصر جملے بولنے اور بار بار شک کی نگاہ سے ادھر ادھر دیکھنے والے ان سابقہ بیوپاری نے بتایا کے مقامی پریس کلب کے نمائندوں اور صحافیوں کو بھی ہر ہفتہ پیسے دیے جاتے ہیں۔ "اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے اس لیے کئی مقامی شخصیات جو سوشل میڈیا پر شہرت رکھتی ہیں (انفلوانسرز)، وہ بھی اپنا حصہ لیتی تھیں"۔
ان کے بقول مارچ میں پولیس نے نہ صرف بھتہ لینا بند کردیا بلکہ ان پر پرچہ بھی کردیا۔ وہ اب ضمانت پر ہیں اور یہ بات دھراتے ہیں کہ اب وہ یہ سب کچھ چھوڑ چکے ہیں۔
ان کے کارخانے میں آٹھ مزدور ، پانچ سو روپے روزانہ اجرت پر کام کرتے تھے۔ "ایک مین پُڑی پر 17 سے 20 روپے تک لاگت آتی ہے۔ جو کھوکھے والے کو 30 روپے میں بیچی جاتی ہے اور وہ گاہکوں کو 40 سے 50 روپے میں بیچتا ہے"۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی 25 ہزار مین پڑیاں تحصیل چمبڑ کے پان اور سگریٹ کے کھوکھوں پر روزانہ فروخت ہوتی تھیں۔ اور وہ مقامی پولیس، میڈیا اور کچھ خاص اداروں کو آٹھ لاکھ روپے فی ہفتہ تک بھتہ دیتے تھے۔
ان کے بقول ٹنڈو الہیار میں ایک دن میں کل 60 ہزار سے زیادہ مین پڑیاں فروخت ہوتی تھیں۔ "پولیس کو ہفتہ وار بھتہ دیکر کام جاری رکھنے کو ہم موکل (اجازت) کہتے ہیں۔ جب لین دین طے ہو جائے تو بھتہ دینے والے کو ایک مقرر مدت تک کاروبار کرنے کی موکل (اجازت) ہے"۔
"مین پڑی کی سپاری (چھالیہ) کوئٹہ سے کراچی یا سکھر کے راستے آتی ہے، جو ٹنڈو الہیار شہر میں ایک مرکزی بیوپاری کے کارخانے پر رکھی جاتی ہے۔ پولیس ضلع کے تمام بیوپاریوں کو اس بات کا پابند بناتی ہے کہ وہ سپاری اس سے ہی لیں۔ مرکزی بیوپاری پولیس کو ہفتے کے 30 لاکھ روپے دیتا تھا۔ باقی اداروں اور صحافیوں کو خاموش رکھنے کے لیے اضافی 10 لاکھ روپے ہفتہ دیے جاتے تھے۔ پورے سندھ میں پولیس کی طرف سے یہ ہی نظام لاگو ہے۔ یعنی ایک مرکزی بیوپاری مقرر کیا جاتا ہے۔ پولیس ان بیوپاریوں کی حدود مقرر کرتی ہے، جن سے آگے اور پیچھے کوئی نہیں جاتا، اگر جائے تو پکڑا جاتا ہے"۔
'میں اسے روکنے میں 70 فیصد کامیاب ہوا ہوں'
ٹنڈو الہیار کے سینئر سپریڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) سید سلیم شاہ کہتے ہیں کہ جن پولیس اہلکاروں کی اس کاروبار میں ملوث ہونے کی نشاندہی ہو سکی ان کے خلاف محکمانہ کارروائی جاری ہے اور ان کو قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں گی۔
انہوں نے بتایا کے آئی جی سندھ کے منشیات کے خلاف احکامات سخت اور واضح ہیں۔ "میں ٹنڈو الہیار میں ڈیڑھ ماہ کے دوران مین پڑی اور گٹکے کے کاروبار کو روکنے میں 70 فیصد کامیاب ہوا ہوں"۔
انہوں نے کہا کے دیہات میں مین پڑی اور گٹکے کا کاروبار کرنے والے اپنی برادری کو پولیس کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں، اپنے دفاع میں خواتین اور بچوں کو سامنے لے آتے ہیں۔ "کچھ جگہوں پر تو اس مافیا نے معذور بچوں کو بھی اپنے کاروبار کے لیے استعمال کیا ہے"۔
سندھ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق صرف مارچ کے مہینے میں ضلع ٹنڈو الہیار میں منشیات بنانے، خریدنے اور فروخت کرنے والوں پر 145 مقدمات درج کر کے 263 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جن میں بڑی تعداد مین پڑی بنانے، بیچنے اور کھانے والوں کی ہے۔
ایس ایس پی صاحب کا ماننا ہے کہ مین پڑی اور گٹکے خلاف عوام میں شعوروآگاہی کی مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔ "پڑھے لکھے افراد، اساتذہ، مولوی حضرات، اسٹارز، مقبول شخصیات کو اس سلسلے میں آگے آنا چاہیے تاکہ لوگ یہ استعمال نہ کریں اور انہیں کینسر جیسے موذی مرض سے بچایا جا سکے۔
لوک سجاگ نے ٹنڈو الہیار کی یونین کونسل جارکی میں رام کولہی سے ملاقات کی جن کہ 20 سالہ بھائی منہ کے کینسر سے فوت ہو گئے تھے۔
رام کھیت مزدور/ہاری ہیں۔ انہون نے زمین پر بچھائی ہوئی رلی پر بیٹھے اپنے بھائی موہن داس کی تصویر دکھاتے ہوئے بتایا کہ اس کی شادی کو ابھی تقریباً ایک سال ہی ہوا تھا۔ "مین پڑی کھانے کی وجہ سے منہ میں چھالا ہوا اور پھر پتہ ہی نہیں چلا اور اس کی جان چلی گئی"۔
رام نے بتایا کہ موہن گھر والوں سے چھپ کر دوائی لینے جاتا تھا۔ "آہستہ آہستہ اس نے کھانا کم کر دیا، کمزور پڑنے لگا، ایک دن جب میں نے اس سے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے تب اس نے بتایا کہ اسے منہ کا کینسر ہو گیا ہے"۔
رام نے بتایا کہ انہوں نے بھائی کے علاج کے لیے 17، 18 لاکھ روپے قرض لے کر خرچ کیے۔ "حیدرآباد، جامشورو اور کراچی کی ہسپتالوں سے علاج کرایا مگر کینسر موہن کو کھا چکا تھا"۔
موہن کی اکلوتی بیٹی اب سات سال کی ہے۔ اپنے کچے گھر میں رام جہاں لوک سجاگ کو اپنے مرحوم بھائی کی کہانی سنا رہے تھے، وہاں پاس بیٹھے اکثر نوجوان مین پڑی اور گٹکا کھا رہے تھے۔
کہنے کو تو خود رام اب احتیاط کرتے ہیں مگر ان کے منہ اور دانتوں پر پڑے واضح نشانات ان کے اس دعویٰ کا ساتھ نہیں دے رہے تھے یا یوں کہہ لیں کہ ان کے اس عادت کو ترک کرنے کے ارادے کا منہ چڑا رہے تھے۔
تاریخ اشاعت 14 اپریل 2023