گوجرانوالہ میں ڈبل شاہ ایپ 'آئی ڈی اے' لوگوں کے کروڑوں روپے لوٹ کر غائب

postImg

احتشام احمد شامی

postImg

گوجرانوالہ میں ڈبل شاہ ایپ 'آئی ڈی اے' لوگوں کے کروڑوں روپے لوٹ کر غائب

احتشام احمد شامی

گوجرانوالہ میں ڈیجیٹل ایپ کے ذریعے شہریوں سے ایک بڑے فراڈ کا کیس سامنے آیا ہے۔ یہ فراڈ دس بیس لوگوں کے ساتھ نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں سے کیا گیا ہے اور اس کے متاثرین وسطی پنجاب میں ہر جگہ ملتے ہیں۔

ان متاثرین میں دکاندار بھی ہیں اور سرکاری ملازمین بھی حتیٰ کہ کئی پولیس اہلکاروں نے بھی اس فراڈ کا نشانہ بننے کا انکشاف کیا ہے تاہم سرکاری نوکری میں انکوائری کے ڈر سے وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتے۔

کسی سرکاری ادارے نے تاحال اس فراڈ کی باضابطہ تحقیقات تو شروع نہیں کیں تاہم اندازہ ہے کہ اس ایپ کے ذریعے کروڑوں روپے کی رقم لوگوں سے ہتھیا لی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر فراڈ کی مجموعی رقم کو اربوں روپے کہا جارہا ہے لیکن ابھی اس بارے کوئی بھی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔

 اس فراڈ کا ذریعہ بننے والی آئی ڈی اے نامی ایپ ایک سال پہلے متعارف کروائی گئی تھی جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ سرمایہ کاری کے لیے بنائی گئی ایپ ہے۔ اس ایپ پر سرمایہ کاری کی سات سکیمیں یا درجے متعارف کروائے گئے جن پر کم از کم 121 ڈالر سے لے کر ہزاروں ڈالر تک سرمایہ کاری کی جا سکتی تھی۔

ممبر یا انویسٹر کو ایپ اوپن کرکے ایک دن میں 30 کلک کرنا ہوتے تھے جس سے اس کے ایپ اکاؤنٹ میں ڈالر "آتے" تھے۔ ڈالر ملنے کی شرح سرمایہ کاری کے تناسب سے ہوتی تھی یعنی آپ نے جتنی زیادہ سرمایہ کاری کی ہوتی ہر کلک پر اتنے ہی زیادہ ڈالر ملتے تھے۔

یہی نہیں بلکہ ہر نئے ممبر کو تین تا پانچ نئے ممبرز یا انویسٹرز بھی بنوانا ہوتے تھے جن کو ناصرف اپنی سرمایہ کاری کا منافع ملتا تھا بلکہ نئے ممبر بنوانے کا منافع بھی حاصل ہوتا تھا۔

سردار کاشف نامی ایک ممبر کا کہنا ہے کہ جب وہ ایپ پر کام شروع کرتے تو ان پر ڈالروں کی برسات ہونے لگتی تھی۔

"یوں لگتا کہ جیسے اب زندگی شان و شوکت سے گزرے گی اور کوئی مالی مسائل نہیں ہوں گے، لیکن کسے پتہ تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟"

سردار کاشف نے بتایا کہ جب سے ایپ بند ہوئی ہے وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں۔

" کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کِسے پکڑیں کیونکہ سامنے کچھ نہیں، جن دوستوں نے مجھے ممبر بنایا تھا وہ خود رو رہے ہیں کیونکہ ان کے بھی ہزاروں ڈالر ڈوب گئے ہیں"۔

<p>فراڈ کا ذریعہ بننے والی آئی ڈی اے نامی ایپ ایک سال پہلے متعارف کروائی گئی تھی<br></p>

فراڈ کا ذریعہ بننے والی آئی ڈی اے نامی ایپ ایک سال پہلے متعارف کروائی گئی تھی

اس ایپ میں سرمایہ کاری کرنے والے لوگ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے لالچ میں منافع کےطور پر حاصل شدہ رقم نکلوانے کی بجائے نئی سرمایہ کاری پر لگا دیتے تھے تاکہ منافعے کی شرح بڑھتی رہے۔

اندازاً ہر دس میں سے نو افراد ایسے تھے جن کے اکاؤنٹ میں ہزاروں ڈالر منتقل ہوئے لیکن انہوں نے رقم نکلوانے کے بجائے اسی سے مزید سرمایہ کاری کی اور اچانک ایپ بند ہو جانے سے ان سب کی رقم ڈوب گئی۔ بعض لوگوں نے دکانیں بیچ کر سرمایہ کاری کی، بعض نے بیویوں کے زیور بیچ ڈالے تھے۔

آئی ڈی اے کی ایپ نے صرف ایک سال کام کیا لیکن اس ایک سال میں کتنا سرمایہ ملک سے باہر گیا یہ کوئی نہیں جانتا۔

ایپ پر سرمایہ کاروں کی فوج چند مہینوں میں تیار ہوگئی اور لوگوں نے دھڑا دھڑ انویسٹمنٹ کرنا شروع کردی۔ ایک ممبر پانچ نئے لوگوں کو ممبر بناتا اور نئے ممبر مزید پانچ ممبر بناتے اور اس طرح مختصر وقت میں یہ تعداد ہزاروں لاکھوں تک پہنچ گئی۔

ممبر شپ کی بنیادی شرط کم از کم 121 ڈالر سے سرمایہ کاری کا اکاؤنٹ کھلوانا تھا جو کہ پاکستانی روپوں میں تقریبا 35 سے 37 ہزار روپے کے درمیان بنتے ہیں۔

شیخ ابراہیم نامی ایک ممبر نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں ںے شروع میں 121 ڈالر سے سرمایہ کاری کی تھی لیکن انہوں نے دیکھا کہ وہ روزانہ تیس کلک کرکے چھ ڈالرز کماتے ہیں جبکہ ان کے بعض دوست روزانہ تیس کلک کر کے ڈیڑھ سے دو سو ڈالر کما لیتے ہیں تو انہوں ںے اپنی دکان بیچ کر سرمایہ کاری بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

ابراہیم کہتے ہیں کہ لکڑ والا پُل بازار میں ان کی کپڑے کی دکان اچھی خاصی چل رہی تھی جسے انہوں نے ساٹھ لاکھ روپے میں فروخت کیا اور ساری رقم کی سرمایہ کاری کردی جو اس وقت 20 ہزار ڈالر بنتے تھے۔

اب ان کے اکاؤنٹ میں بھی روزانہ دو سو ڈالر گرنے لگے۔ انہیں یقین ہوگیا کہ پانچ چھ ماہ میں وہ اتنا منافع کما لیں گے  کہ اپنی بیچی ہوئی دکان دوبارہ خرید سکیں گے اور ان کی  بیس ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری بھی روزانہ کی بنیاد پر ڈالرز پیدا کرتی رہے گی۔

<p>ممبر شپ کی بنیادی شرط کم از کم 121 ڈالر سے سرمایہ کاری کا اکاؤنٹ کھلوانا تھا<br></p>

ممبر شپ کی بنیادی شرط کم از کم 121 ڈالر سے سرمایہ کاری کا اکاؤنٹ کھلوانا تھا

جب سے ایپ بند ہوئی ہے شیخ ابراہیم کے گھر میں سوگ کی سی کیفیت ہے وہ اس امید پر بار بار موبائل فون چیک کرتے ہیں شاید ایپ کھل جائے اور وہ اپنی تمام رقم یکمشت واپس نکلوا لیں گے۔

فراڈ ایپ کا آخری وار ، رقم فوری ڈبل کروائیں  

آئی ڈی اے نے جو آخری داؤ کھیلا وہ رقم فوری ڈبل کرنے سے متعلق تھا جس میں دراصل لوگوں کی نفسیات سے کھیلا گیا۔

چھ  اپریل جمعرات کے روز کیش ڈبل سکیم متعارف کروائی گئی جس کے مطابق "آپ سات اپریل سے جتنے ڈالرز بھجواؤ گے وہ فوری ڈبل ہو جائیں گے اور پانچ روز بعد آپ ڈالرز ودڈرا کروا سکیں گے۔"

اس سکیم کا آنا تھا کہ لوگوں نے دھڑا دھڑ ڈالر  بھجوانے شروع کردئیے۔ ہر طرف شور مچ گیا ، جس کے پاس جو رقم تھی وہ آن لائن جمع کرادی گئی۔  

اس سکیم کے شروع ہونے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد یعنی سات اپریل کی شام کو کیش ودڈرا کی آپشن بند کردی گئی۔ کچھ لوگوں کو اس پر کھٹکا ہوا  تاہم بیشتر  لوگ انجام سے بے پروا ہوئے بغیر مسلسل کیش بھجواتے رہے۔
بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

نو اپریل اتوار کی صبح چار بجے یعنی سحری کے وقت جن لوگوں نے بھی وہ ایپ کھولنے کی کوشش کی انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، کیونکہ ایپ ہی بند کردی گئی تھی۔

تادم تحریر ایپ بند ہوئے دو روز ہوچکے ہیں اور ایپ نہ تو دوبارہ آن ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے اب آن ہونے کا کوئی امکان باقی بچا ہے۔

خیال ہے کہ سکیم کے آغاز میں ہی اتنا مال اکٹھا ہوگیا ہوگا کہ ایپ چلانے والوں نے بارہ تاریخ کا بھی انتظار نہیں کیا اور کیش ودڈرا کی آپشن بند ہو جانے کے بعد شور مچنے پر ایپ بند کرکے غائب ہو گئے۔

سیٹلائیٹ ٹاؤن مارکیٹ گوجرانوالہ کا سب سے بڑا بازار ہے جہاں دو ہزار سے زیادہ دکانیں ہیں۔ لوک سُجاگ نے متاثرین کی موجودگی کی اطلاع پر اس جگہ کا دورہ کیا تو انکشاف ہوا کہ یہاں تقریباً ہر دوسرا دکاندار اس ایپ کا متاثرہ ہے۔

یہاں ڈالر شاپ نامی دکان کے مینیجر طلحہ نے بتایا کہ آئی ڈی اے آٹو ٹرینڈنگ ایپلیکیشن تھی اور آٹو ٹرینڈنگ کے ذریعے ہی ان کے اکاؤنٹ میں ڈالر بھیجے جاتے تھے۔ سرمایہ کاری کرنے کے لیے کرپٹو کرنسی کی ایپ بائے نانس کے ذریعے رقم بھجوائی جاتی تھی۔ بائے نانس ایک ایسی ایپلیکیشن ہے جو کئی سال سے چل رہی ہے اور اس کے ذریعے ڈالر خرید کر مطلوبہ ایڈریس پر رقم بھجوائی جاتی ہے۔

"جب ہماری رقم پوری ہو جاتی تھی یا جب ہمیں منافع واپس لینا ہوتا تھا تو وہاں سے بائے نانس پر منافع منتقل کیا جاتا جہاں ڈالر کا جو ریٹ چل رہا ہوتا تھا اس ریٹ کے مطابق ڈالر فروخت کرکے اپنی رقم ایزی پیسہ ، جیز کیش یا کسی بھی بینک اکائونٹ میں منتقل کروائی جاتی تھی۔"

طلحہ نے بتایا کہ سات اپریل 2023 کو ایپ پر رقم ڈبل کرنے کی آفر کی گئی جس میں صارفین کو بتایا گیا کہ سات اپریل سے بارہ اپریل تک یعنی پانچ روز میں ان کی سرمایہ کاری پر سو فیصد منافع ملے گا۔ اس آفر کا آنا تھا کہ ہر فرد نے اپنا تمام تر سرمایہ ایپ پر منتقل کرنا شروع کر دیا۔ رقم ڈبل تو نہ ہو سکی لیکن اچانک ایپ ہی بند ہوگئی۔

محمد ایان اسی مارکیٹ میں کپڑا رنگائی کا کام کر کے روزانہ پانچ چھ ہزار روپے کماتے ہیں۔

ایک دکاندار نے انہیں ممبر بنانے کی آفر کی اور کہا کہ اگر آپ کو روزانہ پچاس ساٹھ ڈالر مل جائیں اور ساتھ میں کپڑا رنگائی کا کام بھی چلتا رہے تو کیا برا ہے؟ انہوں نے آفر قبول کر کے پانچ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کر دی۔

اس سرمایہ کاری سے جو منافع آتا اسے وہ نکلوانے کے بجائے اس میں مزید سرمایہ کاری کر دیتے تاکہ منافعے کی شرح بڑھتی رہے۔ یوں تین ماہ میں منافعے سمیت ان کی رقم دو گنا سے بھی زیادہ ہوچکی تھی۔ وہ اس امید پر سرمایہ کاری کیے جا رہے تھے کہ ایک سے ڈیڑھ سال میں اتنا منافع کما لیں گے کہ اپنی دکان شروع کرسکیں گے لیکن اچانک سب کچھ ختم ہوگیا۔

<p>کپڑا رنگائی کا کام کرنے والے محمد ایان نے اس ایپ میں پانچ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی<br></p>

کپڑا رنگائی کا کام کرنے والے محمد ایان نے اس ایپ میں پانچ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی

ایپ کے ایک اور ممبر محمد عامر پونڈانوالہ چوک میں موٹر سائیکلیں کرائے پر دینے کا کام کرتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ جب ایپ شروع ہوئی اور ان کے کچھ دوستوں نے سرمایہ کاری کی تو وہ سبھی کو منع کرتے رہے کہ ممکنہ طور پر یہ فراڈ ہو گا اور سبھی کی رقم ڈوب جائے گی۔

تاہم دو تین ماہ تک انہوں ںے ان لوگوں کو روزانہ ہزاروں روپے کماتے دیکھا تو خود بھی لالچ میں آ گئے۔

"میں ںے ابتدا میں جب 121 ڈالر کی سرمایہ کاری کی تو زیادہ منافع نہ ملا۔ پھر میں نے موٹر سائیکلیں فروخت کرکے ساری رقم کی سرمایہ کاری کرڈالی اور روزانہ سو تا سوا سو ڈالر اپنے اکاؤنٹ میں منتقل ہوتے دیکھتا رہا"۔

یہ سلسلہ تین ماہ سے زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور ایک دن ایپ پر 'کیش ودڈرا' کی آپشن اچانک بند ہوگئی۔ اس وقت ان کے اکاؤنٹ میں ساڑھے چار ہزار ڈالر موجود تھے جن میں سے پندرہ سو ڈالر ان کی ذاتی انویسٹمنٹ اور تین ہزار ڈالر منافع تھا۔

"اب میں یہ انتظار کر رہا ہوں کہ میری ذاتی انویسٹمنٹ ہی مجھے واپس مل جائے تاکہ میں موٹر سائیکلیں دوبارہ سے کرائے پر دینے کا کام شروع کرسکوں"۔  

گوجرانوالہ سمیت سیالکوٹ ، گجرات ، منڈی بہاوالدین ، حافظ آباد ، نارووال ، شیخوپورہ اور گردونواح کے اضلاع میں بھی اس ایپ کے متاثرین سامنے آ رہے ہیں۔

سید سبط الحسن المعروف ڈبل شاہ سے کون واقف نہیں جنہوں نے کئی سال پہلے وسطی پنجاب کے شہر وزیرآباد میں لوگوں کو رقم ڈبل کرنے کا لالچ دے کر لوٹاتھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گوجرانوالہ میں جعلی پیرس

ڈبل شاہ کو بعد ازاں نیب نے گرفتار کرلیا ، ان کی املاک ضبط کر لی گئیں اور ہزاروں متاثرین کو اربوں روپے واپس لوٹائے گئے۔ ڈبل شاہ کچھ سال پہلے وفات پاگئے تھے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ڈبل شاہ کے بعد یہ رقم ڈبل کرنے کا دوسرا بڑا فراڈ ہے۔

دونوں کے درمیان فرق صرف یہ ہے ڈبل شاہ ملک میں موجود رہ کر فراڈ کرتا تھا جبکہ اس ایپ کا تاحال کچھ پتہ نہیں کہ یہ کہاں سے چلائی جارہی ہے اور پاکستانیوں کی بھاری رقم کون لوٹ کر لے گیا ہے؟

لوک سُجاگ نے جب اس سلسلے میں ایک وفاقی تحقیقاتی ادارے کے افسر سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ مصدقہ طور پر اس ایپ کو بیرون ملک سے چلایا جارہا تھا اور یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آئی ڈی اے جیسی مزید چار ایپس چل رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ڈی اے بند ہونے کے بعد وہ ایپس بھی اب بند ہو جائیں گی کیونکہ وہاں سے لوگوں نے دھڑا دھڑ کیش ودڈرا کی آپشن استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔

جب ان سے ایسی ایپس کی انکوائری کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں ںے بتایا کہ تاحال اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی البتہ ایف آئی اے، سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور ایف بی آر اس سلسلے میں کارروائی کے مجاز ہیں اور یہی ادارے اس بارے میں کوئی قدم اٹھانے کا فیصلہ کریں گے۔

تاریخ اشاعت 11 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

سندھ: گندم کی سرکاری قیمت 4000، کسان 3500 روپے میں فروخت کرنے پر مجبور

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.