چھتوں کے بغیر مکان اور گرد و گرما کا شہر ملتان

postImg

محمد علی شاہ

postImg

چھتوں کے بغیر مکان اور گرد و گرما کا شہر ملتان

محمد علی شاہ

" حضرات ایک ضروری اعلان سنیے۔

محمکہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق اس سال شدید بارشیں متوقع ہیں۔ جن عمارتوں کو خطرناک قرار دیا گیا ہے ان کے مکینوں سے گزارش ہے کہ وہ یہ عمارتیں چھوڑ دیں یا اپنے بچاؤ کا پیشگی بندوبست کر لیں۔ اعلان ختم ہوا۔"

بلدیہ ملتان کا عملہ ہر سال برسات سے پہلے مساجد میں منادی کراتا ہے لیکن اس تنبیہ پر آج تک کسی نے دھیان نہیں دیا۔

اسلم بدر بھی ہر سال یہ اعلان سنتے ہیں لیکن نظر انداز کر دیتے ہیں۔

وہ اندرون دہلی گیٹ کے رہائشی ہیں جو ملتان کاقدیم علاقہ ہے جہاں قیام پاکستان سے پہلے کے تعمیر شدہ مکانات بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

ان کے مکان کی چھت گری ہوئی ہے اور کمرے کی دیوار جھکی ہوئی ہے جسے انہوں نے شہتیر کا سہارا دیا ہوا ہے۔یہ ایسا مکان ہے کہ ان کے سر پر چھت ہونے کے باوجود کوئی چھت نہیں۔

گرمی ہو یا سردی، آندھی ہو یا طوفان وہ اسی مکان میں اسی حالت میں رہنے پر مجبور ہیں۔

ان کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ اس مکان کی مرمت کراسکیں یا کسی اور جگہ کرائے کامکان لے کر منتقل ہوسکیں۔

لیکن یہ صرف اسلم بدر کا مسئلہ نہیں۔

اندرون دہلی گیٹ میں بیٹی جی کے مندر میں رہنے والے بھی کم وبیش ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔عمر دراز، دلاور، احمد علی، محمد ربانی، بلال احمد اور سنی 75 برسوں سے اس مندر میں مقیم ہیں اور اس مندر کی حالت بھی کم وبیش اسلم بدرکے مکان جیسی ہے۔

میونسپل کارپوریشن کے ریکارڈ کے مطابق اندرون شہر 359 ایسی عمارتیں موجود ہیں جو اپنے مکینوں اور ارد گرد کے افراد کی زندگی کے لیے مستقل خطرہ ہیں اور کسی غیر معمولی قدرتی آفت کی صورت میں بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔

"ہم صرف وارننگ دے سکتے ہیں"

کارپوریشن کے بلڈنگ انسپکٹر محمد واجد بتاتے ہیں کہ ادارے نے ماہرین تعمیرات اور تجربہ کار انجینئروں پر مشتمل ٹیکنیکل کمیٹی بنا رکھی ہے جو خستہ حال عمارتوں کا جائزہ لے کر ان کی تفصیل جمع کرتی ہے۔

"کارپوریشن کی جانب سے متعدد بار اندرون شہر کا سروے کر کے رپورٹیں ضلعی انتظامیہ کو ارسال کی جاچکی ہیں۔ ہم شہریوں کو صرف وارننگ ہی دے سکتے ہیں"۔

وہ کہتے ہیں کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے الرٹ موصول ہونے کے بعد اہلکار شہریوں کو منادی کے ذریعے آگاہ کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے؟ چونکہ اندرون شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں رکشوں کا جانا ممکن نہیں اس لیے مسجدوں میں لاؤڈ سپیکر کے ذریعے مکینوں کو متنبہ کیا جاتا ہے۔

"ہم اعلان میں کہتے ہیں کہ آپ جن عمارتوں میں رہائش پذیر ہیں یہ موسلا دھار بارشوں یا طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔اس لیے یہ کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتی ہیں"۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود جو لوگ عمارتیں خالی نہیں کرتے اور انہیں جگہ چھوڑنے پرمجبور نہیں کیا جاسکتا۔

پرانے شہر کی کچھ عمارتیں بظاہر تو شکستہ دکھائی نہیں دیتیں لیکن درحقیقت وہ اپنی عمر پوری کر چکی ہیں۔

کارپوریشن کے ریکارڈ کے مطابق 45 سے 79 سال پرانی عمارتوں کی تعداد 277 ہے۔

80 سے 90 سال پرانی عمارتوں کی تعداد 74ہے۔ پانچ عمارتیں 100 سال سے زیادہ پرانی ہیں۔

ان میں 227 خطرناک قرار دی گئی ہیں جو کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتی ہیں۔ 44 عمارتیں مرمت شدہ اور 86 ایسی ہیں کہ مرمت کرانے کے بعد ان میں گزارہ ہوسکتا ہے۔

خستہ قرار دی گئی کُل 359 عمارتوں میں رہائشی مکان، دکانیں اور گودام شامل ہیں۔

پانچ سال میں 340 عمارتیں منہدم

ریسکیو 1122کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران شکستہ عمارتوں کے منہدم ہونے کے 340 سے زیادہ واقعات پیش آچکے ہیں۔ ان میں 148حادثات موسمیاتی حالات اور طوفان باد و باراں کے دوران پیش آئے۔

ان حادثوں میں 44 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھےاور 723 افراد زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں 460 مرد، 187 خواتین اور 76 بچے شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان حادثات میں 456 افراد مستقل معذوری کا شکار ہو گئے۔

اندرون شہر اپنے طرز تعمیر کے حوالے سے بھی انفرادیت کاحامل ہے۔ یہاں مکان اور گلیاں بہت تنگ و تاریک ہیں۔ بعض مقامات پر تو گلیوں میں سے سائیکل یا موٹرسائیکل گزارنا بھی مسئلہ بن جاتا ہے۔

کسی عمارت کے گرجانے سے نہ صرف راستے مسددود ہو جاتے ہیں بلکہ امدادی ٹیموں کا پہنچنا بھی محال ہوتا ہے۔

ریسکیو 1122 کے ترجمان ارشد بھٹہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ تنگ گلیوں کے باعث جائے حادثہ پر ہنگامی حالات سے نمٹنے والی مشینری اور ایمبولینس وغیرہ کی رسائی ممکن نہیں۔ "صرف مستعد افرادی قوت اور دستی اوزاروں سےہی  امدادی کارروائیاں سرانجام دینا ہوتی ہیں"۔

انہوں نے بتایا کہ طوفانی موسم میں بیک وقت کئی حادثات رونما ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں صورتحال انتہائی سنگین نوعیت اختیار کر لیتی ہے۔

لوگ خطرناک عمارتیں کیوں نہیں چھوڑتے؟

اندرون دہلی گیٹ میں جمیل کباڑیا، حاجی امتیاز یوسف اوران کے عزیز و اقارب بھی ایسی ہی خستہ حال عمارتوں میں مقیم ہیں۔ان کے خاندان قیام پاکستان سے پہلے سے ہی اس علاقے کے رہائشی ہیں۔

"ہمارے پاس سرمایہ نہیں کہ خستہ حال عمارتوں کو دوبارہ تعمیر کرا سکیں یا کسی اور جگہ منتقل ہو جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہمیں بلا سود قرضے فراہم کرے تاکہ ہم اپنی رہائش گاہوں کی مرمت کروا کے اپنی چھت بچا لیں۔

اندرون دولت گیٹ کی ایسی ہی خطرناک قرار دی گئی عمارت میں عمران اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ یہاں رہنے والی تیسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن آف پاکستان جیسے ادارے قرض کی کوئی بہتر سکیم جاری کریں تو ان کی مشکل آسان ہو سکتی ہے۔

 لوک سجاگ کے سروے کے مطابق اندرون و بیرون شہر میں خطرناک عمارتوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ ملتان والڈ سٹی بحالی کے منصوبے میں اندرون شہر کے مکینوں کو تحفظ دے کر قیمتی زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

مقامی سماجی شخصیت سید خالد جاوید بخاری کہتے ہیں کہ جب برسات کا موسم آتا ہے تو بلدیہ خستہ حال عمارتوں کی ایک فہرست نکال کر اس کی نوک پلک سنوارتی اور پھر مکینوں کو خالی کرنے کے اعلانات کرا دیتی ہے جس کے بعد مزید کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ خدا نخواستہ بارشوں یا کسی اور قدرتی آفت میں بیک وقت بہت سی عمارتیں گر جائیں تو ان اداروں کے پاس ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔ وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پرانی عمارتوں کے مالکان کو تعمیرومرمت کے لیے بلاسود قرضے دیے جائیں۔

تاریخ اشاعت 13 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد علی شاہ کا تعلق ملتان سے ہے۔ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ شہری مسائل، ماحولیات اور رسمی تعلیم ان کی دل چسپی کے موضوعات ہیں۔

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.