سولر پینل توانائی کے حصول کا بہترین متبادل ذریعہ ثابت ہوا ہے جس کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم گنجان آباد اور کثیر المنزلہ عمارتوں کے مکینوں کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا مشکل ہے۔انہیں مہنگی بجلی لینے کے سوا کوئی آپشن نظر نہیں آ رہا۔
محمد عمران، اندرون موچی گیٹ لاہور کی پرانی چار منزلہ عمارت کے دوسرے فلور پر رہتے ہیں۔ وہ یہاں تین کمروں اور برآمدے پر مشتمل پورشن میں اپنی فیملی کے ساتھ 25 سال سے مقیم ہیں۔ نیچے والے حصے میں ان کے والدین جبکہ اوپر والی دومنزلوں میں ان کے دو بھائی رہائش پذیر ہیں
محمد عمران بھی دیگر عام شہریوں کی طرح بجلی کے بھاری بل کی وجہ سے پریشان ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سولرپینل لگوالیں لیکن ان کے گھر کی چھت پر سولر لگانے کے لیے جگہ ہی نہیں ہے۔
"چھت پر ایک بھائی نے کبوتروں کے لیے جنگلا بنا رکھا ہے، دوسرا یہ کہ ہمارے گھر کے دونوں طرف اونچی عمارتیں ہیں جن کی وجہ سے یہاں سورج کی براہ راست روشنی بہت کم آتی ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں سولرپینل نہیں لگ سکتے اور بجلی کا کوئی متبادل سمجھ ہی نہیں آ رہا۔"
سید باقرحسین اندرون شہر کے رہائشی ہیں، وہ بھی خواہش کے باوجود اپنے گھر میں سولر سسٹم نہیں لگا سکتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا گھر چھوٹا ہے۔ چھت پر وہ لوگ گرمیوں میں چارپائیاں ڈال کر سوتے ہیں۔ یہیں پر ایک طرف واش روم اور دوسری طرف کچن بھی بنا ہوا ہے۔
"چھت پر اتنی جگہ ہی نہیں کہ سولر پینلز لگائے جا سکیں۔ اس کے علاوہ ہمارے گھروں کے اطراف کثیر منزلہ پلازے اور عمارتیں ہیں جن کی وجہ سے یہاں دھوپ ہی نہیں پہنچتی۔"
اگست 2023 ء میں کیے گئے 'گیلپ اینڈ گیلانی پاکستان' سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ ملک میں تب تک ہر پانچ میں سے ایک پاکستانی خاندان اپنے گھروں پر سولر پینل لگا چکا تھا۔
اس سروے میں ملک بھر سے 929 بالغ مردوں اور خواتین نے حصہ لیا جن سے پوچھا گیا کہ "کیا آپ نے اپنے گھر میں سولر پینل لگائے ہیں چاہے وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں؟"
جواب میں 20 فیصد نے 'ہاں ' اور 79 فیصد نے 'نہیں' کہا جبکہ ایک فیصد نے لاعلمی کا اظہار کیا یا کوئی جواب نہیں دیا۔
ماہرین شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے سولرپینل کی مناسب جگہ پر تنصیب کو انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔
انرجی کمپنی 'سولرمیٹ 'کے سینیئر سسٹم انسٹالر رمضان اشرف بتاتے ہیں کہ سولرپینل کی تنصیب کے لیے سب سے پہلے یہی دیکھا جاتا ہے کہ جہاں سولرپینل نصب کیا جا رہا ہے آیا وہاں سورج کی روشنی براہ راست پہنچی ہے؟ اس کے علاوہ سولر پینلز کے ڈھانچے کا وزن، تیز ہوا سے حفاظت اور اطراف کی عمارتوں یا درختوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کوئی جتنا بھی قیمتی اور جدید سولر پینل لگائے اگر اس پر سورج کی روشنی براہ راست نہیں پڑتی تو وہ بیکار ہے۔
"گنجان آباد علاقوں میں ایک تو چھتیں چھوٹی ہوتی ہیں دوسرے وہاں دھوپ نہیں پہنچتی۔ بعض علاقوں میں چھت کے قریب بجلی کے تار گزر رہے ہوتے ہیں جن سے سولر سسٹم اور گھر کو خطرہ رہتا ہے۔"
ہدایت اللہ خان ، گلبرگ لاہور سے متصل کچی آبادی (خان کالونی) میں رہتے ہیں۔ انہوں نے دومنزلہ گھر کا گراؤنڈ فلور کرائے پر لے رکھا ہے جبکہ اوپر والے حصے میں مالک مکان رہائش پذیر ہیں۔ ہدایت اللہ کا کہنا ہے کہ مالک مکان انہیں گھر کی چھت پر پینلز لگانے کی اجازت نہیں دے رہے ورنہ بہت پہلے سولر سسٹم لگا چکے ہوتے۔
ماہر ماحولیات ڈاکٹرسلمان طارق بتاتے ہیں کہ شمسی توانائی سے آلودگی نہیں ہوتی۔ سولر پینل سورج کی روشنی کو براہ راست فوٹوولٹکس کے ذریعے یا بالواسطہ بجلی میں بدل دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شمسی توانائی اپنانے سے پاکستان کو فضائی آلودگی سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے جو کئی شہروں، خصوصا لاہور میں تشویشناک حد سے زیادہ ہے۔
متبادل توانائی بورڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع شمسی توانائی حاصل کرنے کے لیے انتہائی کارآمد ہے۔
یہاں سال میں 185 سے 290 دن دھوپ والے ہوتے ہیں جبکہ دن میں اوسطاً آٹھ سے ساڑھے آٹھ گھنٹے دھوپ رہتی ہے جو سولر انرجی کے حصول کے لیے بہترین ہے۔
پنجاب حکومت نے بھی مہنگائی اور ماحولیاتی مسائل کے پیش نظر شہریوں کو سولرپینل فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے دو ماہ قبل ماہانہ 100 یونٹ تک بجلی جلانے والے گھریلو صارفین کو مفت سولر پینل دینے کا اعلان کیا لیکن اب قرض پر سولر پینلز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے 'روشن گھرانہ پروگرام' کی اصولی منظوری دے دی ہے جس کے تحت صوبائی حکومت 50 سے 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے کروڑوں صارفین کو سولر سسٹم دے گی۔
"پینلز کی لاگت کا 90 فیصد حصہ پنجاب حکومت ادا کرے گی جبکہ 10 فیصد رقم صارف دے گا۔ سولر پینل پانچ سال کی آسان اقساط پر فراہم کیے جائیں گے اور سردیوں میں قسط کی رقم نسبتاً کم ہوگی۔ یہ پینل پہلے مرحلے میں غریب ترین گھرانوں کو دیے جائیں گے۔"
محمدعمران، سید باقرحسین اور ہدایت اللہ خان جیسے ہزاروں لوگ جواندرون شہر جیسے علاقوں، چھوٹے یا کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں اور ان کے لیے پینلز لگانا ممکن نہیں ہے، وہ اس حکومتی سکیم سے بھی محروم رہیں گے۔
ڈاکٹر فہیم گوہر اعوان، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں الیکٹریکل انجینئرنگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایسے لوگ جن کے گھروں کی چھت تک براہ راست دھوپ نہیں پہنچ سکتی وہ بھی سولر پینل سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
بےقابو لائن لاسز یا بجلی چوری کی سزا بل ادا کرنے والے کیوں بھگت رہے ہیں؟
"مقامی لوگ مل کر اپنے علاقہ میں کسی ایسی جگہ پر سولر پینل لگائیں جہاں سورج کی روشی میسر ہو۔لوگ جتنے زیادہ پینلز لگائیں گے اتنی زیادہ بجلی پیدا ہو گی۔"
وہ بتاتے ہیں کہ اس طریقہ کار کو سولر پارک، سولر فارم یا فوٹووولٹک پاور سٹیشن کہا جاتا ہے جس سے حاصل ہونے والی بجلی صارفین براہ راست یا الیٹکرک سپلائی کمپنی کے ذریعے استعمال کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر فہیم گوہر کہتے ہیں کہ گھریلو صارفین کو سولر پینل فراہم کرنے کا حکومتی فیصلہ قابل ستائش ہے۔ تاہم 100 سے 200 یونٹ ماہانہ بجلی جلانے والوں میں زیادہ تر غریب لوگ شامل ہیں جن کے پاس سولر پینل لگانے کے لیے جگہ نہیں ہوتی۔
انہوں نے تجویز دی کہ لوگوں کو الگ الگ پینل دینے کی بجائے حکومت گنجان آباد علاقوں کے لیے خود جگہ کا انتخاب کر کے سولر پارک بنائے جہاں سے صارفین کو بجلی فراہم کی جاسکے۔
"ہمارے ہاں ہر علاقے میں سرکاری اراضی اور عمارتیں موجود ہیں۔ حکومت صرف گنجان آبادیوں میں ہی نہیں دیہات میں بھی چھوتے سولر فارم بنا سکتی ہے۔"
تاریخ اشاعت 13 جولائی 2024