نوجوان خواتین کے ووٹر بننے میں حائل رکاوٹیں: 'ان کی زندگی ان کے گھر تک محدود ہوتی ہے'۔

postImg

مہرین برنی

postImg

نوجوان خواتین کے ووٹر بننے میں حائل رکاوٹیں: 'ان کی زندگی ان کے گھر تک محدود ہوتی ہے'۔

مہرین برنی

جنوبی لاہور کے علاقے چونگی امر سدھو کی ایک پسماندہ بستی کی رہائشی کوثر بی بی ایک ٹوٹی پھوٹی تنگ گلی میں رہتی ہیں جو سیوریج کے پانی سے اس قدر بھری ہوئی ہے کہ اس میں سے گزرنے کے لیے لوگوں نے جگہ جگہ اینٹیں رکھی ہوئی ہیں۔ 

وہ نہیں جانتیں کہ ان کی عمر کیا ہے۔ "شاید 50 سال؟" یہ کہتے ہوئے وہ اپنے شوہر کی طرف دیکھتی ہیں جو تصدیق کرتا ہے کہ وہ اسی عمر کی ہیں۔ 

ان کی سات بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں جن میں سے ایک لڑکی کے سوا سب 18 سال سے بڑی عمر کے ہیں۔ قانون کی رو سے ان کے آٹھوں بڑے بچوں کے پاس شناختی کارڈ ہونے چاہئیں لیکن حقیقت میں یہ کارڈ صرف ان کی 33 سالہ شادی شدہ بیٹی اور دونوں بیٹوں کے پاس ہیں۔ کوثر بی بی کہتی ہیں کہ ان کی باقی بیٹیوں کو کبھی ان کی "ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی"۔ 

انہوں نے اپنا شناختی کارڈ بھی صرف نو سال قبل اس وقت بنوایا تھا جب انہیں اپنے بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ بنوانا تھے۔ 

کوثر کے گھر میں ان کی کچھ پڑوسی خواتین بھی موجود ہیں۔ ان میں سے پروین نامی 42 سالہ خاتون نے صرف 10 سال پہلے اس وقت اپنا شناختی کارڈ بنوایا تھا جب نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی ایک گاڑی ان کے علاقے میں آئی تھی۔ ان کی سات بیٹیوں میں سے بھی صرف ایک شادی شدہ بیٹی کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی ایک پڑوسن نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ "لڑکیوں کو شادی کے بعد ہی یہ کارڈ بنوانا چاہیے"۔ 

ان خواتین میں شامل مصباح کی عمر اگرچہ صرف 26 سال ہے لیکن وہ پانچ بچوں کو جنم دے چکی ہیں (جن میں سے دو کا انتقال ہو گیا ہے)۔ ان کے پاس ابھی تک شناختی کارڈ موجود نہیں۔ یہ کارڈ بنوانے کے لیے انہیں اپنے والدین کی شناختی دستاویزات چاہئیں جو انہیں دستیاب نہیں کیونکہ ایک گھریلو جھگڑے کی وجہ سے ان کی اپنے والدین سے بات چیت بند ہے۔

تین بچوں کی ماں کرن کے پاس بھی شناختی کارڈ نہیں ہے حالانکہ ان کی عمر 28 سال ہو چکی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا شوہر سمجھتا ہے کہ انہیں شناختی کارڈ کی ضرورت ہی نہیں۔ شاہدہ نامی 36 سالہ خاتون نے بھی صرف پانچ سال پہلے اپنا شناختی کارڈ بنوایا اور وہ بھی اس لیے کہ انہیں اپنے بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ بنوانا تھے۔ 

ان میں سے زیادہ تر خواتین اور ان کی بیٹیوں نے کبھی ووٹ نہیں ڈالا اگرچہ ان میں سے ہر ایک کے ووٹ نہ دینے کی وجہ مختلف ہے۔ مثال کے طور پر شاہدہ کا کہنا ہے کہ ان کا ووٹ ایک ایسے حلقے میں رجسٹرڈ ہے جو ان کی رہائش گاہ سے بہت دور ہے جبکہ "صرف ووٹ دینے کی خاطر میلوں دور جانا میرے جیسے غریب لوگوں کے لیے آسان نہیں"۔

ان کے برعکس کرن چاہتی ہیں کہ وہ آنے والے انتخابات میں ضرور ووٹ ڈالیں۔ لیکن قانون کی رو سے اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے پاس شناختی کارڈ موجود ہو جسے بنوانے کے لیے انہیں نہ صرف اپنے شوہر کی اجازت چاہیے بلکہ اس کی مدد بھی درکار ہے۔ 

کوثر کے گھر میں موجود خواتین میں سے صرف 75 سالہ مجیدہ ایسی ہیں جو چار مرتبہ ووٹ ڈال چکی ہیں۔ وہ فخر سے کہتی ہیں کہ "میں نے دوسروں کی ہدایت پر چلنے کے بجائے ہمیشہ اپنی مرضی سے اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ دیا ہے"۔

ووٹر عورتیں مردوں کے مقابلے میں کم کیوں ہیں؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس سال نومبر میں ووٹروں کی رجسٹریشن سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن میں ووٹروں کو ان کی عمر، صنف اور صوبے کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اس وقت ملک میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 12 کروڑ 11 لاکھ 99 ہزار نو سو 70 ہے جن میں سے چھ کروڑ 65 لاکھ چھ ہزار ایک سو 71 مرد اور پانچ کروڑ 46 لاکھ 93 ہزار سات سو 99 عورتیں ہیں۔ یعنی ہر سو ووٹوں میں مردوں کے ووٹ تقریباً 55 ہیں جبکہ عورتوں کے ووٹ محض 45 ہیں۔

یہ فرق بلوچستان میں سب سے نمایاں ہے جہاں ہر سو مرد ووٹروں کے مقابلے میں صرف 75.5 عورتیں ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے بعد خیبر پختونخوا کا نمبر آتا ہے جہاں سو مرد ووٹروں کے مقابلے میں 79.4 عورتوں کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں۔ تیسرے نمبر پر سندھ ہے۔ وہاں سو مرد ووٹروں کے مقابلے میں 82.2 ووٹر عورتیں رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے بعد پنجاب اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد آتے ہیں جہاں ووٹر عورتوں کا تناسب مردوں کی نسبت بالترتیب 83.5 فیصد اور 88.7 فیصد ہے۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ 18 سے 25 سال کی عمر کی خواتین کے لیے یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق اس عمر کے ایک کروڑ 48 لاکھ 60 ہزار تین سو 92 مرد ووٹروں کے مقابلے میں اس عمر کی صرف 87 لاکھ 29 ہزار ایک سو 18 عورتیں بطور ووٹر رجسٹرڈ ہیں، یعنی 100 مرد ووٹروں کے مقابلے میں محض 58.7 خواتین ووٹر۔

ان اعداد و شمار سے واضح ہے کہ بڑی عمر کی عورتوں کے ووٹ نسبتاً زیادہ تعداد میں رجسٹرڈ ہیں۔ درحقیقت سندھ میں 65 سال سے بڑی عمر کے لوگوں میں ہر 100 مرد ووٹروں کے مقابلے میں 105 خواتین بطور ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے خواتین کی عمر بڑھتی جاتی ہے انہیں اپنی ملازمت، شادی، بچوں کی پیدائش کی رجسٹریشن اور ان کی تعلیم کے لیے اپنا شناختی کارڈ بنوانا پڑتا ہے جس کے باعث ان کا ووٹ بھی خود بخود رجسٹرڈ ہو جاتا ہے۔ 

لیکن سندھ میں بڑی عمر کی خواتین میں ووٹ رجسٹریشن کے رجحان میں اضافے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے نقد امداد فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے مفلس خواتین کو اپنا شناختی کارڈ ضرور بنوانا پڑتا ہے.

پدر شاہی کا راج

نادرا کی ایک گاڑی 29 نومبر 2021 کی ایک گرد آلود دوپہر کو لاہور کے علاقے ہنجروال میں گلشن عباس نامی رہائشی سکیم میں ایک سڑک کے کنارے کھڑی ہے۔ اس کے گرد آس پاس کی گلیوں میں رہنے والی عورتوں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے۔ ان میں سے بیشتر پہلی بار اپنا شناختی کارڈ بنوا رہی ہیں جبکہ بعض اپنے شناختی کارڈ میں تبدیلی یا اس کی تجدید کرانے کے لیے آئی ہیں۔ 

لاہور میں خواتین کے ووٹوں کی رجسٹریشن بڑھانے کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم، سنگت فاؤنڈیشن، کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ نادرا ایسی گاڑیاں ان علاقوں میں بھیجتا ہے جہاں عورتوں کے شناختی کارڈ ان کی آبادی کے مقابلے میں بہت کم بنے ہوتے ہیں۔ ان اہل کاروں کے مطابق ان گاڑیوں سے شناختی کارڈ بنوانے والی خواتین میں سے 80 فیصد کی عمر 18 سے 36 سال کے درمیان ہوتی ہے کیونکہ اس عمر کی خواتین سماجی اور معاشی حدودوقیود کی وجہ سے اپنے گھروں سے دور واقع نادرا کے دفاتر میں نہیں جا سکتیں۔  

سنگت فاؤنڈیشن  کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ پورے پنجاب میں ہی عورتوں کے شناختی کارڈ اور ووٹ بنانے کے لیے ایسے خصوصی انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اعداد و شمار سے ان کی اس تجویز کی تائید ہوتی ہے۔ 

پنجاب کے سرکاری کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2017 کے آخر سے لے کر 2018 کے وسط تک صوبے میں ووٹر عورتوں کی تعداد دو کروڑ 45 لاکھ سے بڑھ کر دو کروڑ 70 لاکھ ہو گئی (یعنی صرف چھ ماہ میں 25 لاکھ نئی خواتین بطور ووٹر رجسٹرڈ ہوئیں)۔ اس کے باوجود کل ووٹروں میں عورتوں کا تناسب 44.5 فیصد سے نہ بڑھ سکا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

لاہور کا ضمنی انتخاب: کیا پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کی سیاست میں واپس آ گئی ہے؟

سنگت فاؤنڈیشن کے پروگرام منیجر شہزاد حیدر کے مطابق اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے "دیہات میں خواتین کے پاس شناختی کارڈ کا نہ ہونا معمول کی بات ہے"۔ ان کے مطابق "سماج میں رائج پدر شاہی ذہنیت کے نتیجے میں مرد وراثتی جائیداد کا زیادہ سے زیادہ حصہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اس لیے وہ اپنے خاندان کی خواتین کو شناختی کارڈ بنوانے کی اجازت نہیں دیتے تاکہ کہیں اسے استعمال کر کے وہ جائیداد میں اپنا حصہ لینے کا مطالبہ نہ کر دیں"۔ 

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اکثر خواتین خود بھی شناختی کارڈ اور ووٹ بنوانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں کیونکہ "ان کی زندگیاں ان کے گھر تک محدود ہوتی ہیں"۔

لیکن سجاگ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں مردوں اور خواتین کے ووٹوں میں سب سے نمایاں فرق لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے-132 اور لاہور ہی کے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی-165 میں پایا جاتا ہے جہاں رہنے والی 18 سال سے بڑی عمر کی خواتین میں سے بالترتیب39.9 فیصد اور 38.95 فیصد ہی بطورِ ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ ان حلقوں میں جہاں کاہنہ اور گجومتہ جیسے دیہی اور نیم شہری علاقے شامل ہیں وہاں ان میں ماڈل ٹاؤن اور کنٹونمنٹ جیسے انتہائی ترقی یافتہ محلے بھی موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ نہ بنوانے کی کچھ ایسی وجوہات بھی ہیں جن کا تعلق دیہات کے روایتی رہن سہن سے نہیں۔ 

سنگت فاؤنڈیشن کی ٹیم کے ایک رکن ان میں سے ایک وجہ کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورتیں اکثر اس لیے بھی اپنے شناختی کارڈ اور ووٹ نہیں بنواتیں کہ وہ سرکاری اہل کاروں کو اس کام کے لیے درکار دستاویزات فراہم نہیں کر سکتیں۔ ان کے مطابق ایسی دستاویزات یا تو ان کے والدین اور بھائیوں کے پاس ہوتی ہیں یا شادی شدہ عورتوں کے شوہروں کے پاس۔ 

اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو

لاہور کے ایک نجی سکول کی انتظامیہ میں کام کرنے والی 23 سالہ عائشہ اقبال ہمیشہ سیاسی طور پر باخبر رہتی ہیں۔ 2018 کے انتخاب کے دوران وہ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کی سرگرمیوں سے خود کو ہر وقت آگاہ رکھتی تھیں لیکن، ان کے بقول، اس وقت وہ ووٹ ڈالنے کے لیے اپنا شناختی کارڈ نہ بنوا سکیں کیونکہ ان کے والدین کے خیال میں ان کا ووٹ ڈالنا ضروری نہیں تھا۔ اس کے برعکس، وہ کہتی ہیں، کہ "اگر اس وقت میری شادی ہو رہی ہوتی تو میرے والدین یقیناً جلد از جلد میرا شناختی کارڈ بنوا دیتے"۔ 

دوسری طرف کراچی کی رہنے والی رجا فاروق*  نے اگرچہ 19 سال کی عمر میں شناختی کارڈ بنوا لیا تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ "میری نقل و حرکت کا انحصار میرے خاندان پر ہے" اس لیے انہیں معلوم نہیں کہ وہ کبھی ووٹ ڈال سکیں گی یا نہیں۔

انہی کی طرح 28 سالہ فاطمہ سلیم*  نے بھی اسی وقت اپنا شناختی کارڈ بنوا لیا تھا جب وہ 18 سال کی ہوئی تھیں لیکن انہوں نے کبھی ووٹ نہیں ڈالا۔ وہ اپنےخاندانی کاروبار سے منسلک ہیں اور کراچی میں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ووٹ پنجاب میں رجسٹرڈ ہے اور"مجھے معلوم نہیں کہ میں اسے کراچی کیسے منتقل کراؤں"۔

لیکن وہ کہتی ہیں کہ اگر "مجھے اس کا طریقہ معلوم بھی ہو تو تب بھی میں نہیں چاہوں گی کہ اس کام کے لیے نادرا جیسے کسی سرکاری دفتر میں جاکر گھنٹوں قطار میں کھڑی رہوں"۔

کراچی میں کام کرنے والے ایک تحقیقی ادارے، کلیکٹو فار سوشل سائنس ریسرچ، کے ڈائریکٹر اور سینئر تحقیق کار حارث گزدر خواتین کے ووٹ ڈالنے میں اس طرح کے تمام مسائل کی نشان دہی اور ان کے حل کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو "سب سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ ہر بالغ شہری کے پاس شناختی کارڈ کی موجودگی لازمی ہونے کے باوجود آبادی کے بہت سے اہم حصوں، خاص طور پر عورتوں، میں اسکے حامل افراد کی تعداد اس قدر کم کیوں ہے"۔ اسی طرح، ان کے مطابق، عورتوں کے ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجوہات پر بھی خوب غور ہونا چاہیے۔ 

وہ تجویز کرتے ہیں کہ ان دونوں موضوعات سے جڑے تمام سوالوں کے جواب ڈھونڈ لینے کے بعد ان کی روشنی میں حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانی چاہئیں جن کے تحت "ووٹ دینے کے اہل تمام شہری جلد از جلد اور آسانی سے اپنا شناختی کارڈ حاصل کر سکیں اور بطور ووٹر رجسٹرڈ ہو سکیں"۔

٭فرضی نام

تاریخ اشاعت 22 دسمبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مہرین برنی نے انگریزی ادب میں بی اے آنرز کیا ہے۔ وہ سیاسی و انتخابی موضوعات پر کام کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.