ننگر پارکر کے عظمت علی، مسکین جہان خان کھوسو گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول میں گیارہویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ لیکن وہ سکول نہیں جاتے بلکہ اپنے گاؤں کمبھار سے دو سو کلو میٹر دور عمر کوٹ کی ایک نجی اکیڈمی میں پڑھ رہے ہیں۔
اکیلے عظمت علی ہی نہیں بلکہ گیارہویں اور بارہویں جماعت کا کوئی بھی طالب علم باقاعدگی سے سکول نہیں جاتا کیونکہ تحصیل کے اس سب سے بڑے سکول میں انٹر کی کلاسیں پڑھانے کے لیے کوئی استاد ہی نہیں ہے۔ عظمت اور ان کے ساتھی صرف داخلہ فارم جمع کرانے یا امتحان دینے کے لیے ہی سکول آتے ہیں۔
عظمت علی ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایف ایس سی کی تیاری کے لیے انہیں عمرکوٹ میں دس ہزار روپے ماہانہ نجی ہاسٹل اور پانچ ہزار روپے اکیڈمی کو دینے پڑتے ہیں۔ اگر سکول میں باقاعدہ کلاسز ہوتیں تو انہیں دوسرے ضلعے جانا پڑتا نہ ہی ان کے والدین پر 15 ہزار ماہانہ کا اضافی بوجھ ہوتا۔
عظمت علی کے والد علی محمد اسی ہائر سیکنڈری سکول میں عربی کے استاد ہیں۔ وہ اپنے تین بیٹوں اور بیٹی کے تعلیمی اخراجات کے لیے پریشان ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے مظہر علی نے گریجوایشن کی ہے جبکہ دوسرا بیٹا کاشف علی بارہویں جماعت میں زیرتعلیم ہے۔
کاشف علی کا داخلہ تو اسی سکول میں ہے مگر کلاسیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ پڑھ نہیں پا رہے۔ ان کے والد بتاتے ہیں کہ تنخواہ کے سوا ان کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ وہ عظمت کی پڑھائی کے اخراجات مشکل سے پورے کر رہے ہیں اور اب انہیں اپنی بیٹی کشف کی تعلیم کی بھی فکر لاحق ہے۔
بھارتی سرحد پر واقع تحصیل ننگر پار، ضلع تھرپارکر کا وہ علاقہ ہے جہاں شرح خواندگی بہت ہی کم ہے۔ یہاں دو لاکھ 83 ہزار افراد کی آبادی کے لیے کوئی کالج نہیں ہے۔ چند سال پہلے حکومت نے یہاں ایک کالج قائم کرنے کی منظوری دی تھی مگر اس کی عمارت ابھی مکمل نہیں ہوئی۔
یہاں ایف اے/ایف ایس سی کی تعلیم کے لیے بچوں کو ننگر پارکر سے 110 کلومیٹر دور اسلام کوٹ یا 150 کلومیٹر دور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر مٹھی جانا پڑتا ہے۔ فاصلہ زیادہ ہونے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی کمیابی کے باعث کسی طالب علم کا روزانہ کالج آنا جانا تقریباً ناممکن ہے۔
اسی مسئلے کو دیکھتے ہوئے اس تحصیل میں تین ہائی سکول اپ گریڈ کیے گئے تھے جن میں سے مسکین جہان خان کھوسو ہائر سیکنڈری سکول ننگر پارکر شہر میں ہے اور باقی دو گاؤں ڈانو دھاندھل اور مٹھڑیو ہالیپوٹو میں واقع ہیں۔ ان سکولوں میں 2010ء میں انٹر کلاسز کا "اجراء" کیا گیا تھا تاہم 13 برس بعد بھی باقاعدہ کلاسیں شروع نہیں ہو سکیں۔
ننگرپارکر کے تینوں ہائر سیکنڈری سکولوں کو مخلوط رکھا گیا تاکہ بچیاں بھی یہاں تعلیم حاصل کر سکیں۔ مگر کلاسیں نہ ہونے کی وجہ سےانٹر کے طلبا و طالبات سکول ہی نہیں آتے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق مسکین جہان سکول میں گیارہویں اور بارہویں جماعت کے737 بچے داخل ہیں۔ ان میں 70 لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ ڈانو دھاندھل ہائر سکینڈری میں 75 طالبات سمیت انٹر کے 392 بچے اور مٹھڑیو ہالیپوٹو میں گیارہ لڑکیوں سمیت انٹر کے 107 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
ان تینوں ہائر سیکنڈری سکولوں میں سبجیکٹ سپیشلسٹ (ایس ایس) گریڈ 17کی نو، نو اور گریڈ 19( پرنسپل) کی ایک، ایک اسامی ہے۔سینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ/اسسٹنٹ پروفیسر گریڈ 18 (ایس ایس ایس) کی ننگر پارکر شہر کے سکول میں چار اور باقی دونوں سکولوں میں دو دو منظور شدہ اسامیاں ہیں۔
لیکن صورتحال یہ ہے کہ ہائر سیکنڈری سکول ننگر پارکر میں صرف ایک سبجیکٹ سپیشلسٹ اور ایک اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہیں۔ پرنسپل سمیت باقی تمام 13 اسامیاں خالی ہیں۔ ہائر سیکنڈری سکول ڈانو دھاندھل میں ایس ایس کی سات اور اسسٹنٹ پروفیسر کی دونوں سیٹیں خالی ہیں۔
ہائر سیکنڈری سکول مٹھڑیو ہالیپوٹو میں صرف دو ایس ایس اور پرنسپل تعینات ہیں۔ اسسٹنٹ پروفیسروں سمیت باقی تمام اسامیوں پر کوئی تعیناتی نہیں کی گئی۔
ڈانو دھاندھل سکول کے ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گیارہویں اور بارہویں جماعت کے 30 سے 40 طالب علم ہی سکول آتے ہیں۔ کوئی سبجیکٹ سپیشلسٹ استاد نہیں ہے اس لیے انٹر کی کلاوں کو پرائمری اور جونیئر ایلیمنٹری سکول ٹیچر پڑھاتے ہیں۔
مدن لعل میگھواڑ دس کلومیٹر دور گاؤں کھار سر سے ہائر سیکنڈری سکول ڈانو دھاندھل آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بارہویں کی روزانہ دو سے تین کلاسیں ہوتی ہیں۔کبھی انگریزی، کیمسٹری اور کبھی فزکس پڑھا دی جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات باٹنی کی کلاس بھی ہو جاتی ہے۔ انہیں چاروں سائنس مضامین اور انگریزی ہائی سکول ٹیچر یا ایک زیرتربیت استاد پڑھاتے ہیں۔ سکول میں گیارہویں اور بارہویں کے طلبا کا لیکچر ایک ہی کلاس روم میں ہوتا ہے۔
ہائر سیکنڈری سکول مٹھڑیو ہالیپوٹو کے پرنسپل گل حسن سوڈھو بتاتے ہیں کہ ان کے سکول میں فزکس اور باٹنی کے اساتذہ موجود ہیں۔ انگریزی کے لیے محکمہ تعلیم نے 60 ہزار روپے تنخواہ پر ایک زیرتربیت استاد مقرر کیا ہے جبکہ اکنامکس وہ خود پڑھاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
تھرپارکر کا گرلز کالج: یہاں صرف فزکس، زوآلوجی، انگریزی، ریاضی، اردو، اسلامیات، سندھی اور مطالعہ پاکستان کے استاد نہیں ہیں
ننگرپارکر سکول کے انچارج پرنسپل اجمل جئپال کہتے ہیں کہ پچھلے سال ان کے سکول میں تین عارضی اساتذہ تھے تو انٹر کی چند کلاسیں ہوتی رہیں۔ مگر مستقل نوکری ملنے پر انٹرنی استاد بھی چلے گئے۔ اس لیے رواں سال کلاسز چلانا ممکن نہیں تھا۔
پرنسپل نے انکشاف کیا کہ ننگرپارکر میں 1957ء سے قائم اس سکول میں میٹرک کی سائنس لیبارٹریاں ابھی تک غیر فعال ہیں۔ انٹر کے بچے مٹھی، عمرکوٹ و دیگر شہروں کے ٹیوشن سنٹرز یا اکیڈمیوں میں جا کر پڑھتے ہیں۔ یہاں صرف داخلے اور امتحان دینے کے لیے آتے ہیں۔
میرپور خاص ڈویژن کے ڈائریکٹر سکول ایجوکیشن مرزا ارشد بیگ نے اعتراف کیا کہ ننگر پارکر کے تینوں سکولوں میں ایس ایس کی اسامیاں خالی ہیں۔ مسکین جہان خان کھوسو سکول میں کیمسٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر پرنسپل ہیں۔ جیسے ہی ایس ایس کی تعیناتی ہو گی تو کلاسیں مستقل کر دی جائیں گی۔
انہوں نے سکولوں میں خالی اسامیوں کی وجہ عدالتی احکامات بتائی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایس ایس کی تعیناتی پبلک سروس کمیشن کے بغیر نہیں ہو سکتی اور پبلک سروس کمیشن عدالتی حکم پر کافی عرصے سے غیر فعال تھا، یہی وجہ ہے کہ اساتذہ کی تقرریاں نہیں ہو سکیں۔
"سندھ پبلک سروس کمیشن اب سبجیکٹ سپیشلسٹ کے لیے امیدواروں کے تحریری امتحان لے چکا ہے اور انٹرویو جاری ہیں۔ پورے صوبےکے لیے سبجیکٹ سپیشلسٹ کی ڈیڑھ سو خالی اسامیوں پر تعیناتیاں کی جائیں گی۔
تاریخ اشاعت 12 اکتوبر 2023