نواب خٹک پشاور کی جدید رہائشی آبادی حیات آباد میں رہتے ہیں اور دو دہائیوں سے جائیداد کی خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وہ ایک متحرک سماجی اور سیاسی شخصیت کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ وہ 2000 سے 2004 تک حیات آباد کے منتخب ناظم رہے اور کئی مرتبہ حیات آباد ریذیڈنٹس سوسائٹی (ایچ آر ایس) کی صدارت بھی کر چکے ہیں۔
تقریباً چار سال پہلے قومی احتساب بیورو (نیب) نے ان کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا جس کی وجہ سے انہیں کئی ہفتے قید میں گذارنا پڑے۔ ان کے بچے ان سے آج تک پوچھتے ہیں کہ آخر انہوں نے ایسا کون سا جرم کیا تھا جس پر انہیں جیل جانا پڑا تھا۔
ان کی اِبتلا کا آغاز اس وقت ہوا جب اگست 2015 میں پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) میں ایک نئے ڈائریکٹر جنرل متعین ہوئے۔ حالانکہ حیات آباد مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بسایا ہے لیکن اس میں جائیداد کی خرید و فروخت اور شہری سہولیات کی فراہمی کا بندوبست اور نگرانی پی ڈی اے کی ذمہ داری ہے۔
تاہم پی ڈی اے کے پاس یہ اختیار نہیں کہ ان فرائض کی انجام دہی کے لئے وہ یک طرفہ طور پر حیات آباد کے ماسٹر پلان میں کوئی تبدیلی کر سکے۔ جب کبھی پی ڈی اے کو ایسی کوئی تبدیلی کرنا ہوتی ہے تو اسے ایچ آر ایس کے نمائندوں کو باقاعدہ اعتماد میں لینا پڑتا ہے۔
لیکن نواب خٹک کے بقول نئے ڈائریکٹر جنرل نے بغیر مشاورت کے ہی ماسٹر پلان سے متعلق اہم فیصلے کرنا شروع کر دیے جس پر ایچ آر ایس نے احتجاج کیا۔ اسی دوران پی ڈی اے نے حیات آباد میں جائیداد کی خرید و فروخت اور شہری سہولیات کی فراہمی کی فیسوں میں دو سو فیصد تک اضافہ بھی کر دیا۔
ان معاملات پر بات چیت کے لئے جب حیات آباد کے رہائشیوں نے ڈائریکٹر جنرل سے ملنے کی کوشش کی تو انہوں نے ملاقات کا وقت دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اہلِ علاقہ نے انہیں فیس میں اضافے پر اپنے تحفظات سے تحریری طور پر بھی آگاہ کیا مگر انہوں نے ان کے مطالبات پر کوئی توجہ نہ دی۔
کچھ عرصہ بعد ڈائریکٹر جنرل نے سرکاری خرچ پر اپنے دفتر اور گھر کی ترئین و آرائش کے لئے کروڑوں روپے کے ٹھیکے دینے کا اعلان کیا تو ایچ آر ایس نے اس پر بھی اعتراض کیا۔ اس دوران پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان پشاور آئے تو ایچ آر ایسں نے ان سے ملاقات کی اور انہیں بھی اس معاملے سے آگاہ کیا تاکہ وہ اپنی پارٹی کی صوبائی حکومت کو ان کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کریں۔ لیکن اس تمام کوشش کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
نومبر 2016 میں ایچ آر ایس نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرنے کا پروگرام بنایا جس میں اعلان کیا جانا تھا کہ اس کے ارکان اپنے مطالبات کے حق میں عمران خان کی بنی گالہ میں واقع رہائشگاہ کے باہر دھرنا دیں گے۔ لیکن جیسے ہی سوشل میڈیا پر اس اعلان کے بارے میں خبریں آئیں تو پریس کانفرنس سے ایک دن پہلے ہی نیب کے اہلکاروں نے نواب خٹک کو پشاور میں واقع اپنے دفتر بلایا اور حوالات میں بند کر دیا۔
ایک دن بعد انہیں ایک مقامی احتساب عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان پر 'اختیارات کے غلط استعمال' کا الزام لگا کر ایک مقدمہ دائر کر دیا گیا۔ اس پیشی کے اختتام پر عدالت نے نیب کو اجازت دی کہ وہ انہیں ایک ہفتہ کے ریمانڈ پر قید میں رکھ سکتی ہے۔
نواب خٹک کا دعویٰ ہے کہ ان پر لگایا گیا الزام بالکل ناجائز تھا کیونکہ 'نہ تو میں نے کبھی سرکاری ملازمت کی، نہ کبھی کوئی سرکاری ٹھیکہ لیا اور نہ ہی کبھی کسی سرکاری نیلامی میں حصہ لیا۔ ایسے میں میرے اوپر اختیارات کے غلط استعمال کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے؟'۔
نواب خٹک کو لگ بھگ ڈھائی ماہ نیب کی قید میں گذارنا پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دوران انہیں کئی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ 'مجھے سونے کے لیے ایک پتلی سی چادر دی گئی۔ روزانہ رات گئے نیب اہلکار میرے پاس آتے اور مجھے ایک نیا سوالنامہ تھما دیتے جس کا مقصد میری نیند میں خلل ڈالنا اور پریشان کرنا ہوتا تھا'۔
ان کی قسمت اچھی تھی کہ جلد ہی احتساب عدالت نے ان کے خلاف مقدمہ ختم کر دیا۔ تاہم خیبر پختونخوا کے سابق چیف سیکرٹری خالد عزیز کی نیب کے ساتھی مڈھ بھیڑ اس سے کہیں پیچیدہ اور طویل ثابت ہوئی ۔
اکتوبر 1999 میں جب جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اس وقت خالد عزیز وزیر اعظم کے ایڈیشنل سیکرٹری برائے احتساب کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ ان کے پاس احتساب بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کا اضافی چارج بھی تھا۔ مشرف کے اقتدار میں آنے کے دو دن بعد ان کو گرفتار کر کے اٹک قلعے میں ڈال دیا گیا جہاں وہ تین ماہ قیدِ تنہائی میں رہے۔ ان کی گرفتاری اور قید مبینہ طور پر نوازشریف کے خلاف بیان نہ دینے کا نتیجہ تھی۔
اپریل 2000 میں نیب نے ان کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا جس میں ان پر اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزام لگایا گیا۔ اس ریفرنس کے نتیجے میں احتساب عدالت نے انہیں دو سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔اس مقدمے میں اپریل 2001 میں ان کی قید کی مدت ختم ہو گئی لیکن ان کی رہائی سے پہلے ہی انہیں ایک اور مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا جس میں ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی حیثیت سے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور محکمہ پرائمری تعلیم کو فرنیچر کی فراہمی کے لیے ڈیڑھ کروڑ روپے کا ٹھیکہ اپنی ہی کمپنی کو دے دیا جس نے ناقص معیار کا فرنیچر فراہم کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔
اس مقدمے میں بھی احتساب عدالت نے انہیں چار سال قید اور پانچ کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی جس کے خلاف انہوں نے پشاور ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں ان کی سزا چار سال سے کم کر کے دو سال کر دی گئی اور جرمانے کی رقم بھی گھٹا کر 38 لاکھ روپے مقرر کی گئی۔ لیکن خالد عزیز نے ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس نے اکتوبر 2010 میں عدم ثبوت کی بنا پر انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا۔
ایک اور سابق سرکاری ملازم، بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر، کو یہ موقع بھی نہیں ملا کہ وہ اپنی معصومیت ثابت کر سکیں۔
وہ پاکستان کے اہم ترین خفیہ اداروں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دے چکے تھے اور فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد کا شہری انتظام چلانے والے ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) میں ممبر اسٹیٹ کے طور پر کام کرنے لگے تھے۔ ٹیلی وژن پر انہیں ایک دفاعی تجزیہ کار کی حیثیت سے بھی جانا جاتا تھا۔
اپریل 2017 میں نیب نے ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے سی ڈی اے کے ممبر کی حیثیت سے 2008 میں زمین کے ایک پلاٹ کو رہائشی درجے سے نکال کر تجارتی درجے میں ڈال دیا تھا حالانکہ وہ اس تبدیلی کے مجاز نہیں تھے۔ ان کے خلاف مقدمہ سی ڈی اے کے آڈٹ میں آڈیٹر کی طرف سے لکھے گئے ایک پیرا کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا جس کی تفصیل انہوں نے اپنے آخری خط میں بھی بتائی ہے۔
اسد منیر دو سال تک اس سلسلے میں پیشیاں بھگتتے اور نیب کو اپنی بے گناہی کے ثبوت پیش کرتے رہے۔ اس دوران انہیں نیب اہلکاروں کی طرف سے متواتر ناروا سلوک کا سامنا رہا۔
جب بالآخر ان پر پابندی لگائی گئی کہ وہ پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے تو انہیں اس کا شدید رنج ہوا لیکن اس کا تذکرہ انہوں نے اپنی اہلیہ اور بیٹی کے سوا کسی سے نہیں کیا۔ انہیں یہ بھی خدشہ تھا کہ انہیں کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
لیکن وہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگیں، ان سے بدتمیزی کی جائے اور لوگ ان کا تماشہ دیکھیں۔لہٰذا 15 مارچ 2019 کو انہوں ںے اسلام آباد میں واقع اپنے گھر کے اندر اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)کے سابق ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ کی کہانی بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
انہیں فروری 2018 میں ایک سرکاری رہائشی منصوبے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں بد عنوانی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد ان پر آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے اور ایل ڈی اے سٹی نامی رہائشی منصوبے میں کروڑوں روپے کی کرپشن کرنے کے مقدمے بھی بنائے گئے۔ ان مقدمات میں احد چیمہ کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ کو بھی نیب حکام کی جانب سے ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔ نیب نے ان کے کزن اور برادر نسبتی کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے مگر یہ کبھی واضح نہیں کیا کہ آیا وہ احد چیمہ کے مبینہ جرائم میں ان کے ساتھی ہیں یا احد چیمہ نے ان کے نام پر جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔
نیب نے احد چیمہ کی 70 سالہ والدہ، بہنوں، اہلیہ اور بہنوئی کی طلبی کے وارنٹ بھی جاری کیے۔ ان کی اہلیہ ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز ہیں لیکن جب وہ ان سے ملاقات کے لیے نیب کے دفتر آئیں تو انہیں بھی حراست میں لے کر ایک تحقیقاتی ٹیم کے روبرو پیش کیا گیا۔
اسی طرح نیب نے ایل ڈی اے کے چیف انجینئر اسرار سعید اور صوبائی حکومت کے سٹریٹیجک پالیسی یونٹ کے افسر بلال قدوائی کو بھی گرفتار کر کے تین ہفتوں تک حراست میں رکھا جہاں انہوں نے بیان دیا کہ احد چیمہ نے ایل ڈی اے سٹی منصوبے میں نقائص کو نظر انداز کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا تھا-
لیکن ستمبر 2020 میں ایک احتساب عدالت نے احد چیمہ کو اس مقدمے میں بری کر دیا جس سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ ان کے خلاف بیان دباؤ ڈال کر حاصل کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود وہ ناصرف ابھی تک نیب کی حراست میں ہیں بلکہ اس کی قید میں طویل ترین عرصہ گزارنے والے قیدیوں میں شامل ہو چکے ہیں۔
اگر نیوز میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو ایسی بے شمار اور مثالیں مل سکتی ہیں جن میں نیب نے دعوے تو بہت کیے لیکن ان کو ثابت کرنے میں ناکام رہی حالانکہ اس دوران متاثرہ فریق کی مبینہ بدعنوانی کے قصے اخبارات اور ٹیلیوژن کے ذریعے چار دانگِ عالم میں پھیل گئے۔ اس کی ایک نمایاں مثال سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ 2008 سے 2012 کے درمیان وزیر برائے پانی و بجلی کی حیثیت سے انہوں نے گوجرانوالا الیکٹرک پاور کمپنی (گیپکو) میں غیر قانونی بھرتیاں کی تھیں لیکن فروری 2020 میں احتساب عدالت نے انہیں اس الزام سے بری کر دیا۔
اسی مہینے احتساب عدالت نے بینک آف پنجاب میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے ریفرنس میں بینک کے سابق سربراہ نعیم الدین کو بری کیا۔ ان پر حصص کی غیر قانونی خرید و فروخت سے بینک کو بھاری مالی نقصان پہنچانے کا الزام تھا جو بے بنیاد ثابت ہوا۔
اسی طرح مئی 2019 میں احتساب عدالت نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے سابق ممبر قومی اسمبلی انجم عقیل خان کو ایک آٹھ سال پرانے مقدمے میں بری کر دیا۔ ان پر پولیس فاؤنڈیشن کے لیے زمین کی خریداری میں بدعنوانی کرنے کا الزام تھا جو ثابت نہ ہو سکا۔
ان تمام مثالوں میں ملزموں نے لمبے عرصے تک گرفتاری، تفتیش اور ذہنی کوفت کا سامنا کیا اور عدالتوں میں لا تعداد پیشیاں بھگتیں اور وہ بھی ایسے الزامات پر جو استغاثہ بالآخر ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
جولائی 2020 میں سپریم کورٹ نے انہی بنیادوں پر نیب کو اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بنایا جب عدالتِ عالیہ نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو لاہور کے ایک نِجی رہائشی منصوبے، پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی، میں بد عنوانی کے ایک مقدمے میں ضمانت پر رہا کیا۔
'حقوق کی پامالی کی کلاسیکی مثال'
خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کو ضمانت پر رہا کرتے ہوئے ججوں نے اپنے فیصلے میں نیب کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال، اس کے طریقہِ کار میں پائی جانے والی سنگین خامیوں، اس کے اہلکاروں کے غیرمنصفانہ طرزِ عمل اور ان کی طرف سے ملزموں کے قانونی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی تمام خرابیوں کی تفصیلی نشان دہی کی۔
عدالتِ عالیہ کا کہنا تھا کہ 'یہ مقدمہ بنیادی حقوق کی پامالی، آزادی کے خاتمے اور انسانی وقار کی توہین کی کلاسیکی مثال ہے۔ نیب سیاسی تقسیم کے ایک طرف کے لوگوں کے خلاف بڑی مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کے باوجود کارروائی کرنے سے ہچکچا رہی ہے جبکہ دوسری طرف کے افراد کو بغیر کسی وجہ کے مہینوں اور سالوں کے لیے قید کیا جا رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ قانون جلد از جلد تفتیش ختم کرنے اور تیس دن کے اندر مقدمے کی سماعت کا حکم دیتا ہے۔ نیب کی تحقیقات عموماً کئی مہینوں بعد بھی مکمل نہیں ہوتیں اور مقدمات سالوں تک التوا کا شکار رہتے ہیں۔ پیشہ وارانہ صلاحیت اور خلوص کے فقدان کی وجہ سے ہی نیب کے کیسز میں سزاؤں کی شرح بہت کم ہے'۔
نیب کے ناقص طریقہِ کار پر روشنی ڈالتے ہوئی سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ:
1۔ اگر ملزموں کے خلاف کیس عوامی شکایات یا میڈیا کی خبروں کی بنیاد پر بنایا گیا تو یہ واضح نہیں ہوتا کہ ان کے خلاف اصل الزامات کیا ہیں اور ایسی کون سی معلومات ہیں جن کی بنیاد پر ان کے خلاف کارروائی کی گئی ۔
2۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ چیئرمین نیب نے اس کیس کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کن بنیادوں پر کیا۔
3۔ نیب کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں تھے جو ملزموں کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا سبب بن سکتے ہوں۔
4۔ ریفرنس میں جو الزمات عائد کیے گئے ان کے بارے میں ملزموں سے کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔
5۔ نیب رقم کے لین دین میں کسی طرح کی قانونی خلاف ورزی ثابت نہیں کر سکا اور نہ ہی یہ ثابت ہو سکا ہے کہ ملزموں نے بد دیانتی اور غیر قانونی طریقے سے اپنے اثاثوں میں اضافہ کیا۔
6۔ ملزموں کے خلاف مقدمہ نجی لین دین کے معاملے پر بنایا گیا جس سے عوام اور حکومت کا مفاد متاثر نہیں ہوا۔
7۔ درخواست گزاروں کے خلاف تحقیقات، ان کی گرفتاری اور پندرہ ماہ تک انہیں حراست میں رکھنا احتساب آرڈیننس کی روح سے مطابقت نہیں رکھتے۔
میگا کرپشن کیسز
دسمبر 2019 میں وفاقی کابینہ نے احتساب کے قانون میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کرنے کی منظوری دی جس کے تحت نیب کو اب صرف ایسے مقدمات کی تحقیقات کا اختیار ہے جن میں ملزموں پر 50 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کی بد عنوانی کا الزام ہو۔ ایسے کیسز کو میگا کرپشن کیسز کا نام دیا گیا ہے۔
تاہم اس تبدیلی سے بہت پہلے مئی 2015 میں نیب نے میگا کرپشن کے 179 مقدموں کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس پر عدالتِ عالیہ نے اسے ہدایت کی تھی کہ وہ ان مقدمات میں تحقیق، تفتیش اور سماعت کا عمل 30 جون 2020 تک مکمل کرے۔ تاہم 13 جولائی 2020 تک ان میں سے صرف 56 مقدمات ہی نمٹائے جا سکے۔
اس ضمن میں سب سے اہم بات شاید یہ ہے کہ ان میں سے سیاست دانوں کے خلاف بنائے گئے مقدمات نیوز میڈیا میں سب سے زیادہ تشہیر پاتے ہیں لیکن اگر اس فہرست کو غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں مبینہ طور پر ملوث لوگوں میں سیاست دانوں کی تعداد صرف 20 فیصد ہے جبکہ سب سے زیادہ میگا مقدمے سرکاری حکام کے خلاف بنائے گئے جن کی تعداد 84 ہے۔
نیب میں کون سی اصلاحات ہونی چاہئیں؟
نیب مقدمات میں ملزموں کے انسانی اور قانونی حقوق کی خلاف ورزی پر سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عام شہریوں کے علاوہ غیر ملکی ادارے بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ (جو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے) نے چھ اگست 2020 کو نیب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس کے ذریعے حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کررہی ہے- اس تنظیم نے پاکستانی پارلیمان سے مطالبہ کیا کہ وہ نیب میں فوری طور پر اصلاحات کا عمل شروع کرے مگر اس کے ساتھ حکومتِ پاکستان ان نیب افسروں کو ان کے جرم کے مطابق سزا دے جنہوں نے کرپشن کے ملزموں کو غیر قانونی حراست میں رکھا اور ان پر جبر و تشدد کیا۔
رواں سال فروری میں یورپین کمیشن نے بھی 33 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں 2019 میں نیب کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق نیب نے زیادہ تر تحقیق اور تفتیش اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے خلاف کی ہے جبکہ حکمران جماعت کے سیاست دانوں اور وزرا کے خلاف محض چند مقدمات دائر کیے گئے ہیں جن سے نیب کی جانب داری عیاں ہوتی ہے۔
اسی طرح جولائی 2020 میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے بھی نیب کے افسروں کی نااہلی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ تحقیقات کیسے کی جاتی ہیں۔ چیئرمین نیب کی جانب سے بد عنوانی کے مقدمات میں تاخیر سے فیصلے آنے کی وجوہات کے بارے میں سپریم کورٹ کو پیش کی گئی ایک رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس گلزار احمد نے کہا: 'قانون کی رو سے نیب کو تیس یوم میں کیس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے مگر ریفرنس کو حتمی شکل دینے سے قبل نیب کے پاس مناسب معاون مواد ہی موجود نہیں ہوتا'۔
قانونی اور سیاسی حلقے بھی ہمیشہ نیب کے رویے اور طریقہِ کار کے خلاف بات کرتے آئے ہیں۔ معروف قانون دان اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی کے مطابق احتساب آرڈیننس ایک ڈریکولائی قانون ہے جسے سیاسی انجینئرنگ کے لیے بنایا گیا ہے۔ان کے بقول 'اس قانون میں بہت سی دفعات بنیادی انسانی حقوق اور ملکی قانون سے متضاد ہیں'۔
سجاگ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گمنام درخواستوں پر کارروائی، ناکافی شواہد کی بنیاد پر گرفتاریاں، تفتیش کاروں کا نا مناسب رویہ، زیرِ حراست ملزموں سے ناروا سلوک اور احتساب آرڈیننس کے تحت نیب اور اس کے چیئرمین کو حاصل لا محدود صوابدیدی اختیارات سے واضح ہوتا ہے کہ اس قانون کو صرف اور صرف سیاسی جوڑ توڑ اور انتقامی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے: 'نیب کا ہدف سیاسی شخصیات ہیں جبکہ بیورو کرویٹس اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کو پوچھنے والا کوئی نہیں'۔
دوسری طرف نیب کے ترجمان نوازش علی کا کہنا ہے کہ 'نیب صرف ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر ہی ریفرنس دائر کرتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ نیب مقدمات میں سزاؤں کی شرح 68.8 فیصد ہے۔ سجاگ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا: 'یہ شرح اس حقیقت کا اظہار بھی ہے کہ نیب کی کارکردگی پاکستان میں احتساب کے لیے کام کرنے والے دیگر تمام اداروں سے بہتر ہے'۔
نوازش علی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجلسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) اور مشعل جیسے اداروں نے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے نیب کی کوششوں کی تعریف کی ہے۔'ایک گیلپ سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ 59 فیصد پاکستانی نیب کی کارکردگی سے مطمئن ہیں'۔
نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں لاہور سے تنویر احمد، پشاور سے غلام دستگیر اور اسلام آباد سے قاسم عباسی نے حصہ لیا۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 29 ستمبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 10 جون 2022