شاہ محمود آؤٹ، جہانگیر ترین کی پہلی'انٹری' کئی ہائی وولٹیج مقابلے، کون بنے گا ملتان کا سلطان ؟

postImg

حسیب اعوان

postImg

شاہ محمود آؤٹ، جہانگیر ترین کی پہلی'انٹری' کئی ہائی وولٹیج مقابلے، کون بنے گا ملتان کا سلطان ؟

حسیب اعوان

ضلع ملتان میں آٹھ فروری کو چھ قومی اور 12 صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے جن میں کئی ہائی اہم حلقے شامل ہیں۔ یہاں کے سیاستدانوں کا ملکی سیاست میں ہمیشہ سے اہم کردار رہا ہے اور اب بھی متعدد قومی رہنما اس ضلعے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

تاہم اس بار سابق وزیر خارجہ اور بہاءالدین زکریا کے گدی نشین شاہ محمود قریشی یہاں سے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے۔ جبکہ ضلع تھرپارکر کی قومی نشست سے ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہو چکے ہیں مگر انہیں سائفر کیس میں 10سال قید کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔

اس ضلعے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 31 لاکھ 10 ہزار 191 ہے جن میں 16 لاکھ 40 ہزار 497 مرد اور 14 لاکھ 69 ہزار 694 خاتون ووٹرز ہیں۔

الیکشن کمیشن کی ترتیب کے لحاظ سے ضلع ملتان کا پہلا قومی اور سب سے زیادہ ہائی وولٹیج حلقہ این اے 148 ہے۔ جہاں روایتی حریف بوسن اور گیلانی خاندانوں کا کانٹے دار مقابلہ ہوتا تھا لیکن پھر احمد حسین ڈیہڑ یہاں سے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ذریعے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔

گزشتہ عام انتخابات میں اس نشست پر احمد حسین ڈیہڑ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سابق وفاقی وزیر سکندر بوسن اور یوسف رضا کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کو شکست دی تھی۔ لیکن پھر تحریک عدم اعتماد کے دوران عمران خان کا ساتھ دینے سے پیچھے ہٹ گئے اور اب ن لیگ میں شامل ہو چکے ہیں۔

اب کی بار اس حلقے سے یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی، احمد حسین ڈیہڑ ن لیگ، بیرسٹر تیمور احمد ملک تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اور ثاقب محمود مہے تحریک نوجواناں کے امیدوار ہیں۔

مقامی زمیندار سلیم اختر مہے بتاتے ہیں کہ اس حلقے سے جو امیدوار ایک مرتبہ کامیاب ہوتا ہے اگر وہ توقعات پر پورا نہ اترے تو اگلی بار یہاں لوگ دوسرے امیدوار کو موقع دیتے ہیں۔

معروف سماجی کارکن شہزاد حسین کا کہنا ہے کہ احمد حسین ڈیہڑ نے پہلے پیپلز پارٹی، پھر تحریک انصاف سے الیکشن لڑا اور اب ن لیگ کے امیدوار ہیں۔ وہ ہر بار پارٹی بدل لیتے ہیں اور عدم اعتماد کے دوران ان کے رویے پر لوگوں کو شکایت ہے اور انتخابی جلسوں میں ان سے سوالات بھی کیے گئے ہیں۔

تجزیہ کار شاکر حسین شاکر بتاتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی اسی حلقے سے وزیراعظم بنے تھے اور دس سال بعد یہاں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے مقابل احمد حسین ڈیہڑ پی ٹی آئی سے انحراف کے بعد اپنی ساکھ کھو چکے ہیں جبکہ بیرسٹر تیمور کی پہچان عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکیل کی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ بیرسٹر تیمور ملک پہلی مرتبہ الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ ان کی برادری یوسف رضاگیلانی کے ساتھ کھڑی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں۔

یہ آبائی نشست یوسف رضا گیلانی کے لیے آسان نہیں ہوگی تاہم وہ بڑے لیڈر ہیں اور حلقے میں لوگوں سے ان کے ذاتی تعلقات ہیں۔ یہاں گیلانی کے سابق حریف سکندر حیات بوسن کا بھی کافی اثر و رسوخ ہے جو خود تو الیکشن نہیں لڑ رہے لیکن ان کے بھائی صوبائی نشست پر ن لیگ کے امیدوار ہیں۔

یہاں یوسف رضا گیلانی، احمد حسین ڈیہڑ اور بیرسٹر تیمور کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔

اس قومی نشست کے نیچے صوبائی نشست پی پی 213 میں قادر پور راں، مردان پور، جھوک وینس، درانہ لنگانہ و دیگر علاقے شامل ہیں جہاں سے پچھلی بار یوسف رضا کے بیٹے علی حیدر گیلانی پی پی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔

اس بار یہاں سابق ایم پی اے علی حیدر گیلانی پی پی، سابق ٹاؤن ناظم شوکت حیات بوسن ن لیگ اور خالد جاوید وڑائچ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں۔ علی حیدر گیلانی اور شوکت بوسن روایتی حریف خانوادوں میں سے ہیں جبکہ خالد وڑائچ کو پاپولر پارٹی ووٹ پر بھروسا ہے۔ اس نشست پر سہ طرفہ مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔

پی پی 214 میں قاسم بیلا، محمد پور گھوٹہ، شالیمار کالونی، نیل کوٹ، مظفر آباد، نواب پور روڈ، شیر شاہ روڈ، بندہ سندھیلہ وغیرہ اور ملتان کینٹ کا کچھ حصہ بھی آتا ہے۔ جہاں سے پچھلی بار پی ٹی آئی کے بیرسٹر وسیم خان جیتے تھے۔

اس بار یہاں سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ بیرسٹر وسیم خان، ن لیگ سے سابق ایم پی اے شہزاد مقبول بھٹہ، پیپلز پارٹی کے سید مدثر نقوی، سرائیکی پارٹی کی شازیہ بیگم، جماعت اسلامی کے صغیر احمد و دیگر امیدوار میدان میں ہیں۔

اس حلقے میں بیرسٹر وسیم خان کو پاپولر ووٹ اور حلقے میں اپنے ترقیاتی کاموں پر بھروسا ہے جبکہ شہزاد مقبول بھٹہ کو اپنی برادری اور پارٹی ووٹ سے توقعات ہیں۔ تاہم سید مدثر نقوی کو گیلانی خاندان کی حمایت حاصل ہے۔

دوسرا ہائی وولٹیج قومی حلقہ جہاں کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے وہ این اے 149 ہے جہاں گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے چیف وہپ ملک عامر ڈوگر منتخب ہوئے تھے۔ یہ مکمل شہری حلقہ ہے جس میں گھنٹہ گھر سے ڈیرہ اڈا چوک اور گلگشت، چونگی نمبر9 سے نشتر روڈ اور پل واصل وغیرہ تک شامل ہیں۔

2013ء کے انتخابات میں یہاں سے مخدوم جاوید ہاشمی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جیتے تھے لیکن پی ٹی آئی چھوڑنے پر انہوں نے یہ نشست چھوڑ دی تھی۔ جس پر عامر ڈوگر نے آزاد حیثیت میں پی ٹی آئی کی حمایت سے یہاں ضمنی الیکشن لڑا اور پہلی بار ممبر قومی اسمبلی بنے تھے۔ 2018ء میں بھی انہوں نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ن لیگ کے شیخ طارق رشید کو ہرایا تھا۔

اب کی بار یہاں استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر خان ترین نے انٹری دی ہے جن کا مقابلہ تحریک انصاف کے عامر ڈوگر، پیپلز پارٹی کے رضوان احمد ہانس، جماعت اسلامی کے ڈاکٹر صفدر ہاشمی و دیگر امیدواروں سے ہو گا۔

جہانگیر ترین لودھراں سے الیکشن لڑتے رہے لیکن ملتان سے پہلی بار میدان میں اترے ہیں جن کی یہاں انٹری نے لوگوں کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ جبکہ ن لیگ نے بھی ان سے ایڈجسٹمنٹ کے تحت اس حلقے میں اپنا امیدوار نامزد نہیں کیا اور شیخ طارق رشید کو صوبائی حلقے کا ٹکٹ دے کر راضی کر لیا ہے۔

اس حلقے میں قریشی، شیخ، راجپوت، ارائیں اور ریواڑی والے اہم برادریاں ہیں جو طویل عرصے سے ن لیگ کو ووٹ کرتی آرہی ہیں۔ لیکن اس بار ن لیگ کا امیدوار نہ ہونے سے ان میں تقسیم نظر آ رہی ہے۔

دونوں فرنٹ رنرز میں سے ملک عامر ڈوگر کا اس حلقے میں پرانا اثر و رسوخ ہے اور انہیں تحریک انصاف کے ووٹ سے بھی بھرپور توقعات ہیں۔ جبکہ جہانگیر ترین کا یہاں کی ایک خاص ایلیٹ سے تعلق رہا ہے تاہم فائنل ریس انہیں دو امیدواروں کے درمیان ہو گی۔

اس قومی نشست کے نیچے پی پی 215 میں ن لیگ سے شاہد محمود خان، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ معین ریاض قریشی، پیپلز پارٹی کے شکیل حسین لابر اور جماعت اسلامی کے آصف محمود اخوانی و دیگر میدان میں اترے ہیں۔

اس حلقے میں ن لیگ کا ایک بڑا ووٹ بینک ہے جس کا فائدہ یقیناً شاہد محمود کو ہو گا۔ جبکہ سابق ایم پی اے معین ریاض کے والد پیر ریاض قریشی ایم این اے رہے اور اب انہیں پاپولر ووٹ کی حمایت بھی حاصل ہے۔

پیپلز پارٹی کے شکیل حسین اگر یہاں سے لابر اور بھٹہ برادری کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کا میاب ہو گئے تو خاصے ووٹ لے جائیں گے۔ تاہم یہاں فائنل ریس شاہد محمود اور معین ریاض کے درمیان ہو گی۔

پی پی 216 سے بابر شاہ ن لیگ اور عامر ڈوگر کے بھائی ملک عدنان ڈوگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اور غلام مصطفیٰ گیلانی پیپلز پارٹی کے امید وار ہیں جبکہ جماعت اسلامی، تحریک لبیک سمیت دیگر امیدوار بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
تاہم اس نشست پر بابر شاہ اور عدنان ڈوگر کے درمیان مقابلہ دکھائی دے رہا ہے۔

این اے 150 بھی اہم حلقہ تصور کیا جا رہا ہے جہاں سے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی منتخب ہو ئے تھے اور انہوں نے ن لیگ کے عامر سعید انصاری کو شکست دی تھی لیکن اس بار یہاں الیکشن نہیں لڑ پائے۔

اس حلقے میں زیادہ شہر کا جنوب مشرقی حصہ شامل ہے جس میں بی سی جی چوک، غلہ منڈی، ممتاز آباد، گلشن مارکیٹ،چونگی نمبر 14 وغیرہ کے علاقے آتے ہیں۔

ان علاقوں میں انصاری، راجپوت اور بھٹہ تین بڑی برادریوں کی اکثریت ہے جن میں سے راجپوت اور انصاری برادری ماضی میں زیادہ تر ن لیگ جبکہ بھٹہ برادری کبھی پیپلز پارٹی تو کبھی ن لیگ کو سپورٹ کرتی رہی۔ لیکن 2013ء سے انصاری برادری پی ٹی آئی اور ن لیگ میں منقسم چلی آ رہی ہے۔

اس حلقے میں راجپوت برادری کی سربراہی رانا نور الحسن اور رائے منصب علی کرتے آئے ہیں تاہم دونوں خاندان ن لیگ میں رہے۔ لیکن پاٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں مسلسل نظر انداز کیے جانے اور اختلافات پر رانا نور الحسن کے بیٹے سینیٹر رانا محمودالحسن سمیت ن لیگ کے دو دھڑے پارٹی چھوڑ کر پیپلز پارٹی سے آن ملے۔

اب رانا محمود الحسن اس حلقے سے پیپلز پارٹی، شاہ محمود کے صاحبزادے مخدوم زین قریشی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں جبکہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر دو مرتبہ منتخب ہونے والے جاوید اختر انصاری اب ن لیگ سے میدان میں اترے ہیں۔

تاجر محمد عمران کہتے ہیں کہ یہ رانا محمودالحسن کا آبائی حلقہ ہے اور یہاں سے ان کے والد رانا نورالحسن ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوتے رہے جبکہ ان کی ہمشیرہ ن لیگ خواتین ونگ کی عہدیدار رہیں۔اگرچہ رانا برادری متحد ہے تاہم پارٹی بدلنے پر انہیں حلقے میں مزاحمت کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جاوید اختر انصاری کو بھی تحریک انصاف سے ن لیگ میں شامل ہونے پر انصاری برادری میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

مقامی صحافی عمران نواز بتاتے ہیں کہ رانا محمود الحسن سے ن لیگ کی قیادت ناراض ہے جس کی وجہ انہیں پارٹی چھوڑنا پڑی۔ ایک تو انہوں نے چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں پارٹی کی منشا کے برعکس ووٹ دیا تھا اور دوسرے انہوں نے سینٹ میں سرائیکی صوبے کے حق میں تقریر کی تھی جو ن لیگ کی پالیسی کے برعکس تھی۔

اس قومی حلقے کے نیچے دو صوبائی نشستیں آتی ہیں جن میں سے پی پی 217 میں ن لیگ کے شیخ طارق رشید، پیپلز پارٹی کے ملک رضوان عابد تھیم اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ محمد ندیم قریشی و دیگر امیدوار ہیں۔

گزشتہ انتخابات میں یہاں سےتحریک انصاف کے ندیم قریشی نے ن لیگ کے حاجی احسان الدین قریشی کو ہرایا تھا۔ اس مرتبہ ن لیگ نے جہانگیر ترین کے لیے قومی نشست چھوڑنے پر شیخ طارق رشید کو یہاں ایڈجسٹ کیا ہے۔

جبکہ اس حلقے سے کئی بار جیتنے والے احسان الدین قریشی کو ٹکٹ نہیں ملا مگر وہ طارق رشید کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہاں ندیم قریشی اور طارق رشید کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

پی پی 218 میں ن لیگ کے سلمان نعیم اور پیپلز پارٹی کے رانا سجاد حسین اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ظہور بھٹہ کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کی توقع ہے۔ جبکہ کئی دیگر امیدوار بھی مقابلے میں موجود ہیں۔

گزشتہ الیکشن میں سلمان نعیم نے پی پی 217 سے آزاد حیثیت میں شاہ محمود قریشی کو شکست دی تھی تاہم ضمنی الیکشن میں شاہ محمود کے صاحبزادے زین حسین قریشی نے سلمان نعیم کو شکست سے دو چار کیا تھا۔اس بار سلمان نعیم کو حلقے میں تبدیلی کو نقصان ہو سکتا ہے۔

این اے 151 سے 2018ء میں زین قریشی کامیاب ہوئے تھے جہاں اسمبلی سے ان کے استعفے پر ضمنی انتخاب ہوا تھا اور یہ نشست یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی نے شاہ محمود کی بیٹی مہربانو سے چھین لی تھی۔

اس بار پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ مہربانو قریشی، پیپلزپارٹی کے علی موسیٰ گیلانی اور ن لیگ کے عبدالغفار ڈوگر کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ضمنی الیکشن میں ن لیگ نے اس نشست پر موسیٰ گیلانی کی حمایت کی تھی اور اب سہ طرفہ مقابلہ ہے جس کا مہر بانو کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

پی پی 219 میں ن لیگ نے ڈاکٹر اختر ملک اور پیپلز پارٹی نے ملک واصف مظہر راں کو میدان میں اتارا ہے۔ یہ دونوں امیدوار پچھلی بار تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے جو اب پارٹی چھوڑ کر ن لیگ اور پی پی میں شامل ہو چکے ہیں۔

یہاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ دلیر خان مہار سمیت 15 امیدوار میدان میں ہیں لیکن فائنل ریس دو سابق ایم پی ایز کے درمیان متوقع ہے۔

پی پی 220 میں پیپلز پارٹی نے ن لیگ سے آنے والے رانا اقبال سراج کو ٹکٹ جاری کیا ہے جن کا مقابلہ ن لیگ کے امیدوار رائے منصب اور جاوید ہاشمی کے داماد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ زاہد بہار ہاشمی سے ہو گا۔

اس نشست پر مقابلہ دلچسپ ہو چکا ہے کیوں کہ اس حلقے میں راجپوت اکثریتی برادری ہے مگر اب ووٹ تقسیم ہونے کا امکان ہے۔ جس کا فائدہ زاہد بہار ہاشمی کو ہوگا اور انہیں پاپولر پارٹی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

این اے 152 میں تحصیل شجاع آباد، بستی ملوک، لاڑ وغیرہ شامل ہیں جہاں گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کے ابراہیم خان نے سید یوسف رضا گیلانی کو شکست دی تھی۔لیکن اس مرتبہ ابراہیم خان الیکش نہیں لڑ رہے۔

اب یہاں سے ن لیگ کے جاوید علی شاہ، پیپلز پارٹی سے یوسف رضا کے بیٹے عبدالقادر گیلانی اور تحریک لبیک کے عطا اللہ بخاری اور جماعت اسلامی کے عاشق علی نمایاں امیدوار ہیں۔ یہاں رانا اعجاز نون نے بھی کا غذات نامزدگی جمع کرا رکھے ہیں۔

 اس حلقے کی اہم برادریوں میں سید، نون، ملیزئی اور راجپوت شامل ہیں جو بیشتر اوقات سیاسی حمایت کے معاملے پر تقسیم رہتی ہیں۔ اس نشست پر جاوید علی شاہ اور عبدالقادر گیلانی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ضلع بھکر: با اثر سیاسی خاندانوں کی قلابازیاں اور جوڑ توڑ، کس علاقے میں کیا تبدیلی آئی ہے

پی پی 221 میں ن لیگ نے پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے میاں طارق عبد اللہ کو میدان میں اتارا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے کامران عبد اللہ مڑل، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ مخدوم عامر شاہ کے علاوہ دیگر امیدوار بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔

تاہم اس حلقے میں طارق عبد اللہ، کامران عبد اللہ مڑل اور مخدوم عامر شاہ میں مقابلہ نظر آ رہا ہے۔

پی پی 222 شجاع آباد میں ن لیگ کے رانا اعجاز نون، پیپلز پارٹی کے رانا طاہر شبیر اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار میاں ایاز بودلہ کے درمیان مقابلہ متوقع ہے جبکہ دیگر امیدوار بھی میدان میں ہیں۔

این اے 153 تحصیل جلالپور پیر والا کے زیادہ تر علاقوں پر مشتمل ہے جہاں سے پچھلی مرتبہ پی ٹی آئی کے رانا قاسم نون جیتے تھے جو بعدازاں پارٹی سے انحراف کر گئے تھے۔

اب کی بار رانا قاسم نون ن لیگ سے الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے حامد خان اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ڈاکٹر ریاض لانگ ان کے مقابل ہیں۔

اس حلقے میں نون، سید، کنہوں، لانگ، ارائیں اور لنگاہ ا کثریتی برادریاں ہیں جن میں سے صرف نون برادری اپنے امیدوار رانا قاسم کو سپورٹ کرتی ہے۔ جبکہ دیگر برادریوں کے ووٹ اکثر اوقات تقسیم ہوتے ہیں۔

 پی پی 223 میں مسلم لیگ ن سے ملک نازک کریم، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ رانا طفیل نون، پیپلز پارٹی سے آصف علی وڑائچ، مہدی عباس لنگاہ آزاد، شازیہ عباس کھاکھی آزاد و دیگر امیدوار ہیں۔ لیکن اس نشست پر ملک نازک کریم، رانا طفیل نون اور مہدی عباس لنگاہ فرنٹ رنر ہیں۔

 پی پی 224 جلالپور پیروالہ میں ن لیگ سے ملک لعل محمد جوئیہ، پیپلز پارٹی سے عمر فاروق کھاکھی، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ملک ارشد وقاص، دیوان محمد عباس بخاری آزاد اور ملک محمد اکرم کنہوں آزاد و دیگر امیدوار قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔

تاہم اس نشست پر فائنل ریس دو آزاد امیدواروں دیوان عباس بخاری اور ملک اکرم کنہوں کے درمیان ہو گی۔

تاریخ اشاعت 5 فروری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

حسیب اعوان ملتان کے نوجوان صحافی ہیں۔ گزشتہ چھ برسوں سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کام کر رہے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور چینلوں سے منسلک رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.