ملتان کے علاقے باقر آباد میں ایک دو منزلہ عمارت پر کسی بھوت بنگلے کا گمان ہوتا ہے۔ اس کے دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، اندھیرے کمروں کی شکستہ دیواریں اور چھتیں مکڑی کے جالوں سے اٹی ہیں۔
آوارہ کتوں اور نشے کے عادی افراد کے علاوہ کوئی اس عمارت میں آتا جاتا دکھائی نہیں دیتا۔
پچھلے سولہ سال سے اسی حالت میں نظر آنے والی یہ عمارت دراصل ایک مدرسے کی ہے جہاں ایک ماڈل مدرسہ قائم کیا جانا تھا۔
یہ منصوبہ وفاقی حکومت نے 07-2006ء میں شروع کیا تھا جس کے تحت ملتان، بہاولپور، پاکپتن، لاہور اور گوجرانوالہ میں پانچ ماڈل مدرسوں کی تعمیر کے لیے آٹھ کروڑ 45 لاکھ روپے مختص کیے گئے۔ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں تب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک اور دہشت گردوں کے حملوں کا شکار تھا۔
اس منصوبے کا مقصد مدارس کے طلبہ کو دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ سائنسی اور مذہبی تعلیم فراہم کرنا اور انہیں یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے قابل بنانا تھا۔
تین کنال 15 مرلے پر ماڈل مدرسے کی تعمیر کے لیے ایک کروڑ 66 لاکھ روپے مختص کیے گئے۔
عمارت تو وقت پر بن گئی مگر اسی دوران حکومت چلی گئی جس کے بعد منصوبے کے لیے مزید فنڈ جاری نہ ہو سکے۔
اس عمارت میں 22 کلاس روم، پرنسپل کا دفتر آفس اور اساتذہ کے لیے کمرے بنائے گئے تھے۔
مدرسے کے قریبی علاقے شاہ رکن عالم میں رہنے والے محمد زاہد خالد بتاتے ہیں کہ تعمیر کے تقریباً سات سال بعد 2014ء میں یہاں تدریسی سلسلہ شروع ہوا جو ایک تنازعے کے باعث چند روز بعد ہی ختم ہو گیا۔
یہ معاملہ کچھ یوں تھا کہ 2014ء میں ماڈل مدرسے کے قریب بچیوں کے ایک مدرسے کی انتظامیہ نے اس کے احاطے کو کچھ دن استعمال کے لیے حاصل کیا لیکن مقررہ وقت پر خالی نہ کیا۔
اس وقت عدالتوں میں محکمہ اوقاف کی نمائندگی کرنے والے وکیل محمد شہزاد حسین جعفری نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ماڈل مدرسے کی عمارت پر قبضہ کر کے درس گاہ بنا لی گئی۔
"جب محکمہ اوقاف نے اسے خالی کرانے کی کوشش کی تو بچیوں کے مدرسے کی انتظامیہ نے مبینہ طور پر بااثر لوگوں کی سرپرستی میں مزاحمت کی۔ لیکن بالاآخر محکمہ اسےخالی کرانے میں کامیاب ہو گیا"۔
محکمہ اوقاف کے ریکارڈ کے مطابق 2014ء میں خالی عمارت کو طبی یا تعلیمی مقاصد کے لیے بذریعہ نیلامی لیز پر دینے کا فیصلہ ہوا۔ اس کے لیے محکمے نے 50 لاکھ روپے کی ناقابل واپسی گُڈ وِل رقم ادا کرنے اور ایک لاکھ روپے ماہانہ کرایہ دینے کی شرط رکھی۔ تاہم مقامی شہری اور علاقہ مکینوں کی تنظیم کے عہدیدار راؤ محمد عمر حیات نے نیلامی کے معاملے پر عدالت سےسٹے آرڈر لے لیا۔
انہوں نے اسی برس لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ میں درخواست دی کہ یہ جگہ باقر آباد عید گاہ کے نام ہے جسے محکمہ اوقاف نے ماڈل مدرسے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اب اسے لیز کے لیے نیلام کیا جا رہا ہے جو غیر قانونی ہے۔
تاہم دو سال کی عدالتی لڑائی کے بعد 15 دسمبر 2016ء کو پیٹشنر نے یہ کیس واپس لے لیا۔
رواں برس محکمہ اوقاف ملتان نے ڈائریکٹر سٹیٹ اوقاف کو ایک سمری بھجوائی جس میں اس عمارت کی زبوں حالی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس میں تجویز دی گئی ہے کہ طبی اور تعلیمی سرگرمیوں کی اجازت دے کر اس عمارت کو فعال کیا جا سکتا جس کے لیے اسے لیز پر دے دیا جائے۔
لیز کی نیلامی کے لیے ناقابل واپسی رقم کو گھٹا کر 20 لاکھ روپے جبکہ کرایہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے ماہانہ تجویز کیا گیا ہے۔
سمری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمارت کو لیز پر لینے والا فریق اس کی مرمت بھی کروائے گا۔ اس میں اعتراف کیا گیا ہے مدرسہ چلانے کے لیے محکمے کے پاس مطلوبہ مالی وسائل موجود نہیں ہیں۔
محکمہ اوقاف کے ڈسٹرکٹ منیجر سید ایاز الحسن گیلانی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں ںے اس عمارت کو ہسپتال یا تعلیمی سرگرمیوں کے لیےاستعمال کرنے کی درخواست اعلیٰ حکام کو دی گئی تھی لیکن جواب ملا کہ اسے بطور ماڈل مدرسہ ہی بحال کیا جائے گا۔
"مسئلہ یہ ہے کہ اگر اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بعض شہریوں کو اعتراض ہوتا ہے۔ پہلے بھی یہ کیس عدالت میں زیر سماعت رہا۔عمارت فعال نہ ہونے سے قومی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسے بحال کر کے عوامی بھلائی کے لیے کام میں لایا جائے۔"
یہ بھی پڑھیں
محکمہ تعلیم یا اساتذہ: چاغی میں بند پڑے سکولوں کا ذمہ دار کون ہے؟
راؤ محمد عمر حیات کے وکیل مہر محمد رمضان سیال کہتے ہیں کہ بھاری اخراجات سے تیار ہونے والی یہ عمارت محکمہ اوقاف کی جھولی میں ڈال دی گئی ہے جس کی نااہلی کے باعث عمارت کھنڈر بنتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عمارت جس مقصد کے لیے بنائی گئی تھی اسے اسی کے تحت فعال کرنا چاہیے۔
نیو ملتان کے محمد شیراز افضل اس صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں بیٹوں کو جدید اور دینی تعلیم ایک ساتھ دینے کے لیے اس ماڈل مدرسے میں داخل کرانا چاہتے تھے مگر ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ مدرسہ بن جاتا تو اس سے دینی مدارس کو وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید خطوط پر استوار کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی تھی۔
تاریخ اشاعت 25 جولائی 2023