گورنمنٹ صادق فقیر ڈگری کالج مٹھی میں زیر تعلیم روی شنکر نواحی گاؤں وہار کے رہائشی ہیں۔برسوں قبل اپنے شہر میں وسیع و عریض کیڈٹ کالج بنتا دیکھا تو انہوں نے بھی فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے خواب سجا لیے تھے۔
وہ اب ایف ایس سی میں پہنچ گئے ہیں مگر کیڈٹ کالج تا حال زیرتعمیر ہے۔
روی کے والد کھیت مزدور ہیں اور فصل کی کٹائی سیزن کے بعد آس پاس دیہات میں جوتوں کی مرمت کا کام کر تے ہیں۔مشکل سے بیوی اور تین بچوں کا کا گذارہ ہوتا ہے۔
سترہ لاکھ سے زائد آبادی کے ضلع تھر پارکر میں 2017 ء کی مردم شماری کے مطابق 43.39 فیصد ہندو رہائش پذیر ہیں۔ یہاں خواندگی کی شرح 20 فیصد سے کم اور لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے 2011 ء میں یہاں معیاری تعلیم کے لیے 'مٹھی کیڈٹ کالج 'بنانے کا اعلان کیا تھا۔چند ماہ بعد ہی سندھ کابینہ نے ادارے کے قیام اور اس کے لیے رقم کی باضابطہ منظوری دی تھی۔
حکومت نے کالج کے لیے مٹھی شہر سے دو کلومیٹر شمال میں 89 ایکڑ سرکاری اراضی دی۔ یوں 2012 ء میں بائی پاس چیلہار موڑ کے قریب منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تاہم 11 سال بعد بھی یہ کالج مکمل نہیں ہو سکا۔
اسسٹنٹ انجنیئر ایجوکیشن ورکس تھرپارکر فراز عثمان کہتے ہیں کہ شروع میں اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 49 کروڑ روپے تھا۔اس رقم سے کالج کا اکیڈمک "بلاک، ہاسٹلز اور اندرونی رابطہ سڑکیں تعمیر کی جانا تھیں۔
وقت کے ساتھ لاگت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور 2016 ء میں تخمینہ 99 کروڑ 29 لاکھ کے قریب پہنچ چکا تھا"۔
وہ بتاتے ہیں کہ منصوبے پر اب تک 23 کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔یہ رقم کالج کی باؤنڈری وال، عمارت کے سٹرکچر اور مٹھی روڈ بائی پاس سے کالج تک رابطہ سڑک کی تعمیر پر خرچ کی گئی ہے۔
اسسٹنٹ انجنیئر نے بتایا کہ اس کام کا ٹھیکہ شوکت میمن کو دیا گیا اور بشیر میمن کی کمپنی کو کنسلٹنٹ مقرر کیا گیا۔ منصوبہ2019 ء میں مکمل کرنے کا ہدف تھا۔
کالج کی تعمیر میں تاخیر پر مٹھی کے رہائشی سماجی کارکن اکبر درس نے 2022ء میں وزیر اعظم کے سٹیزن پورٹل پر شکایت کی تھی۔جس پر ایگزیکٹو انجینئر(ایکسیئن) نے ایجوکیشن ورکس سے ملے جواب کی روشنی میں سپرنٹنڈنٹنگ انجینئر کو بتایا تھا کہ منصوبے کے کنسلٹنٹ اور کنٹریکٹر کے جھگڑے کے باعث کام بند پڑا ہے۔
اس سلسلے میں کنسلٹنٹ اور ٹھیکیدار دونوں موقف دینے سے انکاری ہیں ۔
محکمہ ایجوکیشن ورکس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا ہے کہ سابقہ کنسلٹنٹ اور ٹھیکیدار آپس میں رشتہ دار ہیں۔ان کے درمیان پہلے ہی سے کوئی اختلاف تھا۔بعد ازاں منصوبے میں تاخیر اور مٹیریل کی کوالٹی پر دونوں میں تلخ کلامی ہو گئی تھی۔
اہلکار کا کہنا ہے کہ " چوںکہ دونوں ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے تھے اس لیے ان کے بڑے بیچ میں آ گئے اور معاملہ محکمانہ کاروائی تک نہیں پہنچا۔ بعد ازاں کنسلٹنٹ نے اپنامعاہدہ ختم کر دیا ۔"
اسسٹنٹ انجنیئر نے بتایا کہ منصوبے کی تکمیل پر کالج میں 300 کیڈٹس کا داخلہ ہونا تھا لیکن کام رک گیا۔
"رواں بجٹ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں یہ منصوبہ بھی شامل ہے۔نیا کنسلٹنٹ مقرر ہوتے ہی کام شروع کر دیا جائے گا"۔
تھرپارکر میں 10 سال سے کوالٹی ایجوکیشن کے لیے کام کرنے والے 35 سالہ امتیاز نور کنبھار ینگ سوشل ریفارمز فائونڈیشن کے نائب صدر اور ماسٹر ٹرینر ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ تھرپارکر میں کیڈٹ کالج جیسا ادارہ بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارے گا اور یہاں معیاری تعلیم ملے گی۔اس کالج سے تھرپارکر کے بچے فورسز سمیت مختلف اداروں میں جا سکیں گے۔
امتیاز نور کے مطابق تھرپارکر کے لوگ باہر کے شہروں میں بچوں کو پڑھانے کی حیثیت نہیں رکھتے ہیں یہاں کالج ہوگا تو داخلے میں مقامی بچوں کا کوٹا بھی زیادہ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع واشک کا پہلا انٹرکالج: سات سال سے زیر تعمیر عمارت اور اس میں زیر تعلیم طلبا کی کہانی
تھر پارکر سے منتخب جی ڈی اے کے رکن صوبائی اسمبلی رزاق راہموں کہتے ہیں کہ کیڈٹ کالج تھرپارکر کے لیے بڑا منصوبہ ہے مگر محکمے کی لاپروائی کے باعث مکمل نہیں ہو سکا۔ امید ہے کہ محکمہ اس کو جلد مکمل کرے گا۔
سندھی شاگرد تحریک کے رہنما کبیر بھیل کہتے ہیں کہ سندھ میں تعلیم اور سکولوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ حکومت پرائمری سکولوں کو بھی عمارتیں مہیا نہیں کر پائی، کیڈٹ کالج تو تھر والوں کے لیے ایک خواب جیسا ہے۔ یہ منصوبہ جلد مکمل نہ ہوا تو بھرپور احتجاج کریں گے۔
مقامی ایم۔پی اے ارباب لطف اللہ اور سریندر ولاسائی سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
کیڈٹ کالج منصوبے میں تعطل کے بعد روی شنکر نے فوج میں جانے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔ وہ اب ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔
"کیڈٹ کالج کے قیام کا سن کر بہت خوشی ہوئی تھی۔ خواہش تھی کہ میں بھی یہاں پڑھوں۔ تھرپارکر کے بچوں کو بڑے بڑے خواب دکھائے گئے لیکن ان کی تکمیل کا کسی نے نہیں سوچا۔ "
تاریخ اشاعت 15 جولائی 2023