گوجرانوالہ کے چاندنی چوک میں دودھ دہی بیچنے والے خالد گجر کو ان دنوں گاہکوں کی تند و تلخ باتیں سننا پڑ رہی ہیں کیونکہ انہوں نے دودھ کی قیمت ڈیڑھ سو روپے سے بڑھا کر دو سو کر دی ہے اور دھی کی دو سو 20۔
خالد کا کہنا ہے کہ پہلے انہیں دودھ 140 روپے فی لٹر ملتا تھا لیکن اب ان کی قیمت خرید ہی 190 روپے فی لٹر ہو گئی ہے۔ "دودھ سپلائی کرنے والوں نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ یکم مئی سے نئی قیمت پر دودھ ملے گا۔ جسے لینا ہے وہ لے اور جسے اعتراض ہے، وہ نہ لے"۔
گوجرانوالہ کی ضلعی انتظامیہ کے ترجمان حافظ عبدالوحید کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ڈیری فارم مالکان اور گوالوں کی تنظیم نے دودھ دہی کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا جس پر انہیں پابند کیا گیا تھا کہ وہ رمضان میں ایسا نہیں کریں گے۔ "اضافے کی بات چیت تو دو ماہ سے چل رہی تھی لیکن تاحال اس بارے کوئی سرکاری اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔"
دودھ فروخت کرنے والوں نے البتہ انتظامیہ کے حکم نامے کا انتظار نہیں کیا۔
محکمہ لائیو سٹاک کی ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر صائمہ ارم سید نے لوک سُجاگ کو بتایا کہ ضلع گوجرانوالہ میں گائے بھینسوں کی مجموعی تعداد آٹھ لاکھ کے قریب ہے جبکہ ضلعے میں دودھ کی روزانہ پیداوار ساڑھے 18 لاکھ لیٹر ہے۔ شہر کو کھلا دودھ مضافات میں قائم تقریباً دو ہزار باڑوں سے سپلائی کیا جاتا ہے۔
ثقلین شاہ گوجرانوالہ شہر سے تیس کلو میٹر دور قصبے کوٹ لدھا میں ایک باڑے کے مالک ہیں۔ یہ ان کا وراثتی پیشہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک سال پہلے جانوروں کی خوراک - ونڈہ - ڈھائی ہزار روپے من تھا جو اب چار ہزار روپے من تک پہنچ چکا ہے۔ بھوسہ پہلے ساڑھے تین ہزار روپے من تھا جو اب ساڑھے چھ ہزار روپے من سے کم پر فروخت نہیں ہو رہا۔ گھاس کی قیمت بھی چار سو روپے سے سات سو روپے من تک پہنچ گئی ہے۔
"آپ خود ہی بتائیں کہ ہم پرانی قیمت پر آپ کو خالص دودھ کیسے دیں؟ اگر ہم قیمتیں نہ بڑھائیں تو گوالے دودھ میں پانی ملانے پر مجبور ہو جائیں گے۔"
ان کے خیال میں ابھی بھی دودھ کی قیمتوں میں اضافہ جانوروں کی خوراک کی قیمتیوں میں اضافے کے تناسب سے نہیں ہوا۔
بلال ناصر چیمہ، ثقلین شاہ سے بالکل متفق ہیں۔ ان کا ڈیری فارم گوجرانوالہ سے 22 کلو میٹر دور قصبہ کلاسکے میں ہے جہاں انہوں نے ولایتی نسل کی پانچ سو گائیں رکھی ہوئی ہیں جو مقامی گایوں سے زیادہ دودھ دیتی ہیں۔
بلال کہتے ہیں کہ ڈیری فارم پر کئی طرح کی مشینیں چلانے کے لئے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے ہم کمرشل یونٹ کے حساب سے بل ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اب بجلی کی قیمت دو گنا ہو گئی ہے۔ دودھ کو مارکیٹ تک پہنچانے کے لئے گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں جنہیں اب پٹرول کی مد میں پہلے سے زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ بیشتر ڈیری فارم ٹھیکے کی زمینوں پر قائم ہیں جن کا فی ایکڑ کرایہ ایک سال میں 50 ہزار روپے سے بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ تک جا پہنچا ہے۔
قریبی قصبے راہوالی میں ایک باڑے کے مالک عامر گجر گائے بھینسوں کی خریدوفروخت کا کام بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان دنوں ساہیوال نسل کی گائے کی خوراک کا روزانہ کا خرچہ ایک ہزار روپے جبکہ آسٹریلین اور دوغلی نسل کی گائے کی خوراک کا خرچہ ڈیڑھ روپے تک ہے۔ گائے کی دیکھ بھال اور ملازمین کی تنخواہ یا یومیہ اجرت الگ ہے۔ جب گائے بھینسیں حاملہ ہوتی ہیں تو دو ماہ تک دودھ نہیں دیتیں اور چند سال کے بعد ان کی قیمت بھی کم ہو جاتی ہے۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ روزانہ تیس سے چالیس لیٹر دودھ دینے والی آسٹریلین نسل کی گائے کی قیمت ایک سال میں دو لاکھ روپے تک بڑھ چکی ہے۔ اب یہ لگ بھگ ساڑھے آٹھ لاکھ روپے میں مل رہی ہے۔
"دوغلی نسل کی گائے ایک سال قبل ڈھائی سے تین لاکھ روپے میں مل جاتی تھی لیکن اب وہ بھی ساڑھے تین سے چار لاکھ روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ یہ تقریباً پچیس کلو دودھ دیتی ہے۔ اسی طرح ساہیوال نسل کی گائے کی قیمت پچاس ہزار روپے اضافے کے بعد اب دو لاکھ ہے اور یہ روزانہ آٹھ لیٹر دودھ دیتی ہے۔ اس کا دودھ گاڑھا ہوتا ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ اسے زیادہ پسند کرتے ہیں"۔
بلال چیمہ کے خیال میں مہنگائی ڈالر کی قیمت میں اضافے کے حساب سے بڑھتی ہے۔ جب ڈالر سو روپے کا تھا تو دودھ 80 روپے کلو تھا، اب ڈالر تین سو کے قریب ہے تو اس کی قیمت ڈھائی سو ہونی چاہئیے۔ "یہ ہماری شرافت ہے کہ ہم اب بھی اسے دو سو پر بیچ رہے ہیں۔"
خالد گجر اور ان جیسے دیگر دکانداروں کا کہنا ہے کہ قیمتیں بڑھنے میں ان کا کوئی ذاتی کردار یا مفاد نہیں ہے۔ اگر دودھ انہیں سستا ملے تو وہ سستا ہی بیچیں گے۔ تاہم شہری اس بات پر نالاں ہیں۔
نعمانیہ روڈ کے وقاص بھٹہ کہتے ہیں کہ اگر دودھ دہی کی قیمتوں میں دس بیس روپے اضافہ کیا جاتا تو بات سمجھ میں آتی۔ لیکن یکدم پچاس سے ساٹھ روپے اضافہ عام آدمی پر ظلم کے مترادف ہے۔
مقامی صنعت کار عمران میر کے مطابق اگرچہ اس بات میں وزن ہے کہ دودھ کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے قیمتیں بڑھانا مجبوری تھی لیکن اچانک پچاس روپے کے اضافے میں دودھ فروشوں کی بدنیتی بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں
کیلے کی قیمتیں آسمان پر: سندھ میں کیلے کے باغوں پر کیا بیت رہی ہے؟
''دودھ فروشوں نے ملکی سیاسی صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ چونکہ حکمران سیاسی لڑائی میں مصروف ہیں اور ان کا انتظامی امور پر موثر کنٹرول نہیں ہے، اسی لئے انتظامیہ بھی چوکس نہیں رہی اور دودھ فروشوں نے من مرضی کی قیمتیں مقرر کر لی ہیں۔''
دودھ کی قیمتوں کے اضافے کے حق میں کسان اتحاد نے ایک احتجاجی ریلی نکالی جسے کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے بعد گوجرانوالا انتظامیہ نے دس روز میں دودھ کی نئی قیمتوں کے تعین کا وعدہ کیا ہے۔ ریلی کے شرکا نے قیمتوں میں اضافے کے علاوہ کیمیکل ملے دودھ پر پابندی لگانے اور کھاد کی بلیک میں فروخت کے خلاف اقدامات کرنے کے مطالبات بھی کئے تھے۔
کمشنر آفس کا کہنا ہے کہ نئی قیمتوں کے تعین سے قبل ملحقہ اضلاع اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں موجودہ قیمتوں کا جائزہ لیا جائے گا۔
بلال کہتے ہیں کہ مہنگائی ڈالر کی قیمت میں اضافے کے حساب سے بڑھتی ہے۔ جب ڈالر 100 روپے کا تھا تو دودھ 80 روپے کلو تھا، جب ڈالر 150 کا ہوا تو دودھ 120 کا ہو گیا۔ ڈالر 200 کا ہوا تو دودھ 150 میں مل رہا تھا، اب ڈالر 300 کے قریب ہے تو اس کی قیمت 250 ہونی چاہئیے لیکن یہ ہماری شرافت ہے کہ ہم اب بھی اسے 200 پر ہی بیچ رہے ہیں۔
تاریخ اشاعت 12 مئی 2023