'اس سال نقل مکانی کر کے آنے والے مہمان پرندوں کو پورا سندھ ہی جھیل نظر آیا': موسمیاتی تبدیلیاں اور پرندہ شماری

postImg

اشفاق لغاری

postImg

'اس سال نقل مکانی کر کے آنے والے مہمان پرندوں کو پورا سندھ ہی جھیل نظر آیا': موسمیاتی تبدیلیاں اور پرندہ شماری

اشفاق لغاری

کمال پالاری کینجھر جھیل کے ایک چھوٹے سے جزیرے میں آباد گاؤں نبی بخش پالاری میں رہتے ہیں۔ کسی زمانے میں وہ ٹھٹھہ، حیدرآباد اور جامشورو میں پھیلے وسیع علاقے میں اپنی پرندوں کے شکار میں مہارت کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔ 2008ء میں ان کی دوستی ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے ایک اہلکار سے ہو گئی جس نے ان کی پہچان کو یکسر تبدیل کر دیا۔

اب وہ اپنے گاؤں میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیےکمیونٹی ریزرو زون (محفوظ خطہ) کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

"پرندوں کا شکار کرنا تو دور کی بات ہے، اب تو یہاں ہوائی فائر کرنا بھی منع ہے"۔

کینجھر جھیل زیریں سندھ کی دیگر جھیلوں کی مانند شمال سے آنے والے مہمان پرندوں کی ایک آمجگاہ ہے۔

نقل مکانی کرنے والے یہ پرندے ہر سال سائیبریا اور وسطی ایشیا سے ہزاروں میل کی اڑان لے کر دسمبر سے جنوری کے مہینوں میں سندھ کی جھیلیوں میں بسیرا کرتے ہیں۔

انسانی سرگرمیوں اور موسمیاتی تغیر سے آبی ذخائر میں آنے والی تبدیلیاں ان مہمانوں کی تعداد، صحت اور بقا پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔

نیم، ببول اور دیوی کے درختوں کے بیچ بنی اپنی اوطاق (بیٹھک) میں بیٹھے 52 سالہ کمال پالاری نے اپنے کوہستانی لہجے میں لوک سجاگ کو بتایا کہ 2022ء کے سیلاب کے بعد کینجھر جھیل پر مہمان پرندے معمول سے کم آئے ہیں۔

ہارون پالاری ان کے خالہ زاد ہیں اور جنگلی حیات کی فوٹوگرافی کا شوق رکھتے ہیں۔ وہ بھی گذشتہ 12 سال سے کینجھر جھیل پر آنے والے پرندوں کو تحفظ فراہم کرنے اور انہیں گننے کا کام کرتے ہیں۔ ہارون، کمال سے متفق ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس بار وہ 52 جل کوے اور 12 گارگینی بطخیں گن سکے ہیں جبکہ پہلے ان کی تعداد سیکڑوں میں ہوتی تھی۔

<p>یہ پرندے ہر سال سائیبریا اور وسطی ایشیا سے اڑان لے کر دسمبر سے جنوری کے مہینوں میں سندھ کی جھیلیوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ فوٹو بشکریہ یاسر پیچوھو<br></p>

یہ پرندے ہر سال سائیبریا اور وسطی ایشیا سے اڑان لے کر دسمبر سے جنوری کے مہینوں میں سندھ کی جھیلیوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ فوٹو بشکریہ یاسر پیچوھو

 رشید احمد خان محمکہ جنگلی جیوت (حیات) سندھ کے ضلع ٹھٹھہ اور سجاول کے ڈپٹی سینچوری وارڈن ہیں۔ان کا دفتر ہالیجی جھیل پر ہے اور وہ 1984ء سے ہر سال پرندہ شماری کا کام رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دوربین سے پرندے گننے کے لیے بلاک میتھڈولوجی کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

رشید کے مطابق رواں سال 15 جنوری سے 15 فروری کے دوران کی جانے والی پرندہ شماری میں سندھ میں چھ لاکھ 13 ہزار پرندے گنے گئے جبکہ گذشتہ سال یہ تعداد چھ لاکھ 61 ہزار تھی۔

انہوں نے بتایا کہ رواں سال ہالیجی جھیل پر 16 ہزار پرندے آئے جبکہ پچھلے سال ان کی تعداد 45 ہزار تھی اور 2021ء اور 2020ء میں بالترتیب 66 ہزار اور 97 ہزار تھی۔

ہالیجی پر محکمے کے اسٹاف انچارج اشرف بھرگڑی نے سجاگ کو بتایا کہ 2019ء سے جھیل پر پرندوں اور دیگر جنگلی جیوت کو دال، باجرہ، بھوسہ وغیرہ کا چارہ دیا جا رہا ہے جس سے یہاں اترنے والے پرندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔

رشید صاحب نے افسوس سے بتایا کہ وسائل کی کمی کے باعث 2022ء کے سیلاب کے بعد چارہ نہیں ڈالا جا سکا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پرندوں کی آمد میں کمی کی یہ ممکنہ وجہ ہے۔

رشید صاحب کے مطابق رواں سال ہجرت کرکے آنے والے پرندوں میں چیکو بطخ، سیخ پر، چارو بطخ، رن ہارو بطخ، لال سر، نیل سر، بوہیر بطخ، لنگو بطخ، پھارائو بطخ اور کرچیا بگلا شامل ہیں جبکہ مقامی پرندوں میں  ہنجر بطخ، چھوٹی چیکو بطخ، بالی ہنس شامل ہیں۔

ان کے مطابق 2023ء کی پرندہ شماری میں ہجرت کر کے آنے والے پرندوں میں جو بہت کم دکھائی دیے ان میں سفید سرخاب اور لال چونچ شامل ہیں۔

"شاید وہ نایاب ہو گئے ہیں"۔

<p>اس سال ہالیجی جھیل پر 16 ہزار پرندے آئے جبکہ پچھلے سال ان کی تعداد 45 ہزار تھی۔ فوٹو بشکریہ یاسر پیچوھو<br></p>

اس سال ہالیجی جھیل پر 16 ہزار پرندے آئے جبکہ پچھلے سال ان کی تعداد 45 ہزار تھی۔ فوٹو بشکریہ یاسر پیچوھو

وہ بتاتے ہیں کہ ہالیجی میں تو اس سال پرندے کم آئے لیکن بدین میں نریڑی جھیل اور ننگرپارکر میں رانپور ڈیم میں زیادہ پرندے گننے کو ملے جبکہ ماضی میں وہاں یہ بہت کم دکھائی دیتے تھے۔

زولوجیکل سروے آف پاکستان کے ریسرچ آفیسر عبدالرزاق خان اس صورت حال کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ پرندوں کی تعداد میں کمی کا اندازہ درست نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سال نقل مکانی کر کے آنے والے مہمان پرندوں کو پورا سندھ ہی جھیل نظر آیا، اس لیے وہ اپنے مخصوص روایتی ٹھکانوں کی بجائے جہاں خوراک اور امن میسر آیا وہیں اتر گئے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے اپنے مشاہدے میں رواں سال دسمبر اور جنوری میں سیلاب سے متاثرہ خیرپور میرس، دادو، جامشورو، بدین اور ٹھٹھہ میں معمول سے زیادہ پرندے دیکھنے میں آئے۔

آصف سندیلو امریکا کی یونیورسٹی آف جارجیا میں جنگلی حیات کے متعلق پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔

اس سے قبل انہوں نے پاکستان میں دس سال ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے ساتھ کام کیا ہے۔انہوں نے پرندوں کی ہجرت، عادات اور لائف سائیکل کا بھی باقاعدہ مطالعہ کر رکھا ہے۔

انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کے ہجرت کرنے والے پرندوں کی خوراک میں چھوٹی مچھلیاں، کیڑے مکوڑے اور اس طرح کے چھوٹے جانور شامل ہوتے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ سیلاب کے بعد ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کو جہاں بھی اپنی خوراک اور امن میسر ہوا ہو گا وہ اپنے پرانے ٹھکانوں کو بھلا کر وہیں براجمان ہو گئے ہوں گے۔ گویا یہ پرندے آبی ذخائر میں آنے والی تبدیلیوں کے مطابق اپنے مسکن تبدیل کر کے اپنے رہن سہن کو نئی صورت حال کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔

"کئی علاقوں میں تو اب تک پانی کھڑا ہے۔ منچھر جھیل کا رقبہ اتنا پھیل گیا ہے کہ اب دادو اور سیہون کے باسی بھی نہیں بتا سکتے کہ یہ کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم۔ ان تبدیلیوں کا اثر ہونا ہی تھا"۔

آصف کا اندازہ ہے کہ سیلاب نے پرندوں کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ کیا ہوگا کیونکہ اس سے انہیں وافر خوراک اور نئے مسکن دستیاب ہوئے ہوں گے۔

اس اندازے کے پیچھے ان کا 2010ء کے سیلاب کا تجربہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ نے 2011ء میں انڈس ڈولفن کا سروے کیا، یہ نایاب مچھلی گڈو اور سکھر بیراج کے درمیان پائی جاتی ہے اور اسی علاقے میں سروے کیا گیا، لیکن ڈولفن سکھر سے ساڑھے تین سو کلومیٹر دور کوٹری بیراج میں بھی دریافت ہوگئی جو ماہرین کے لیے اچنبھے کی بات تھی۔

انہوں نے ڈولفن کے مسکن میں اس اضافے کا ذمہ دار سیلاب کو ہی ٹھہرایا۔ ان کا خیال ہے کہ اس سال پرندہ شماری میں ان نئے ابھرنے والے عوامل کو نظرانداز کیا گیا جو درست نہیں۔

زولوجیکل سروے آف پاکستان کے عبدالرزاق تو محکمہ جنگلی جیوت کی پرندہ شماری کے طریقہ کار کو ناقص گردانتے ہوئے یکسر مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ محکمہ بس کینجھر، ہالیجی، حمل، منچھر، نریڑی اور چند اور جھیلوں پر ہی پرندہ شماری کرتے ہیں جو ناکافی ہے اور اس کے اعداد و شمار  نامکمل اور ناقص ہوتے ہیں۔

عبدالرزاق کہتے ہیں کہ محکمے کے پاس اتنا عملہ، گاڑیاں اور دیگر وسائل ہیں ہی نہیں کہ وہ پورے سندھ میں پرندہ شماری جیسا کام کر سکیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ طریقہ کار بین الاقومی طور پر قابل قبول سائینسی انداز کے مطابق نہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کسی کے جسم و جاں چھلنی کسی کے بال و پر ٹوٹے: 'مسافر پرندے ٹھٹہ میں لگی پون چکیوں سے ٹکرا کر اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں'۔

جاوید احمد مہر وسائل میں کمی کے علاوہ اس کی بڑی وجہ محکمے کے اہلکاروں کے علم اور تربیت میں کمی کو بھی قرار دیتے ہیں۔جاوید نے پاکستان فاریسٹ انسٹیٹوٹ سے جنگلات میں ماسٹرز کیا ہوا ہے اور وہ محکمہ جنگلی جیوت سندھ میں کنزرویٹر ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جنگلات اور ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے سندھ میں قانون سازی اچھی کی گئی ہے لیکن اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے عملے میں صلاحیت اور تربیت کی کمی ہے۔

"پرانے ملازموں میں زیادہ تر تو وہ ہیں جن کی بنیادی مہارت شکار کرنے اور کروانے کی ہے"۔

جاوید بتاتے ہیں کہ مہمان پرندوں کا سندھ میں پڑاؤ عارضی ہوتا ہے۔ اس بار  انہیں آب گاہیں زیادہ میسر تھیں، لہذا انہیں جہاں خوراک اور امن ملا انہوں نے وہیں پڑاؤ کر لیا۔

وہ اعتراف کرتے ہیں کہ پرندہ شماری سندھ کی صرف 30 فیصد آب گاہوں تک محدود ہوتی ہے جن میں اس سال نئی غیر روایتی آب گاہوں کو شامل نہیں کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ پرندہ شماری کو نہ صرف سائینسی بنیادوں پر استوار کرنا چاہیے بلکہ سیلاب کے بعد آب گاہوں میں آنے والی تبدیلیوں کے تناظر میں اس کا طریقہ کار تبدیل کیا جانا چاہیے۔

تاریخ اشاعت 1 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ارسا ترمیم 2024: مسئلے کا ایک حصہ: محمود نواز شاہ

ارسا (ترمیمی) آرڈیننس 2024 اور اس کے اثرات: نور کاتیار

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال سے فضائی آلودگی میں کتنی کمی آئے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

خیبر پختونخوا: نصاب میں نفرت پڑھا کر محبت نہیں سکھائی جا سکتی

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.