ضلع میانوالی کے گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج کالاباغ میں پچھلے چند سال سے سائنس کے مضامین کا ایک بھی لیکچرار تعینات نہیں حالانکہ کالج میں طلبہ کی تقریباً 70 فیصد تعداد ایف ایس سی میں پڑھتی ہے اور آدھا سیشن گزر چکا ہے۔ اساتذہ کی عدم موجودگی کے کا یہ نتیجہ نکلا ہےکہ بہت سے طلبہ نے کالج آنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
یہ کالج ضلعی صدر مقام میانوالی سے لگ بھگ 50 کلومیٹر دور تحصیل عیسیٰ خیل میں ایک پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ فی الوقت کالج میں زیرِ تعلیم طلبا کی تعداد تقریباً 250 اور مستقل اساتذہ کی تعداد صرف آٹھ ہے۔ ان میں فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، ریاضی اور کمپیوٹر سائنس کا ایک بھی استاد شامل نہیں ہے۔ اس وقت کالج میں فرسٹ ایئر سے فورتھ ایئر تک کی کلاسز چل رہی ہیں۔
سیکنڈ ایئر کے طالب علم محمد جنید خان بتاتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ان سمیت بہت سے طلبہ کا تعلیمی نقصان ہو رہا ہے۔
"ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ شہر کے کالج میں داخلہ لیں اور ہاسٹل میں رہیں۔ نہ ہی حالات کسی پرائیویٹ کالج میں پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ہمیں مجبوراً اپنے قریبی کالج میں داخلہ لینا پڑا۔ فرسٹ ایئر کے پہلے تین ماہ صرف آرٹس کے مضامین کی کلاسز ہوتی رہیں۔ چونکہ کالج میں سائنس کا کوئی ٹیچر موجود نہیں تھا، اس لیے انگریزی، اردو اور اسلامیات کے پیریڈز کے بعد ہماری چھٹی ہو جاتی تھی۔ تین ماہ بعد کالج میں عارضی ٹیچر بھرتی کیے گئے، جس کے بعد کلاسز شروع ہوئیں، لیکن اس سے ہمارا نقصان پورا نہیں ہو سکتا۔"
کالج کے پرنسپل اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ضیا اللہ خان نے بتایا کہ اساتذہ کی کمی کو عارضی طور پر پورا کرنے کے لیے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کو ہر سال سی ٹی آئی (کالج ٹیچنگ انٹرن) تعینات کرنے کی درخواست دی جاتی ہے۔ البتہ ڈیپارٹمنٹ سیشن شروع ہونے کے کئی ماہ بعدٹیچر فراہم کرتا ہے جس سے طلبا کا کافی نقصان ہوتا ہے۔
"دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر خالی نشست کے مطابق سی ٹی آئی کے بجائے صرف چند مضامین کے عارضی ٹیچر فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس سے کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک مضمون کے استاد سے دوسرا مضمون پڑھانے کو کہا جاتا ہے۔ مثلاً کیمسٹری کے ٹیچر سے بائیولوجی یا کمپیوٹر سائنس پڑھانے کی درخواست کرنا۔ چند اساتذہ اسے قبول کر لیتے ہیں جبکہ بیشتر دوسرے مضامین پر گرفت نہ ہونے کے سبب معذرت کر لیتے ہیں کیونکہ ان کا کنٹریکٹ انہیں دوسرا مضمون پڑھانے کا پابند نہیں کرتا۔"
انہوں نے مزید بتایا کہ اساتذہ کی عدم دستیابی پر مقامی آبادی میں سے کسی رضا کار کی خدمات بھی لی جاتی ہیں۔ البتہ کالج پسماندہ علاقے میں ہونے کے باعث تدریس کا تجربہ رکھنے والے رضا کار شاذو نادر ہی ملتے ہیں۔"
تحصیل عیسیٰ خیل کے دیگر سرکاری کالجوں کی صورت حال بھی سی کالج جیسی ہے۔ چار لاکھ کے قریب نفوس پر مشتمل تحصیل میں تعلیمی سہولیات کی کمی بڑی تعداد میں لوگوں کو شہروں کا رخ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج فار ویمن کمر مشانی میں طالبات کی تعداد چھ سو ہے جہاں اساتذہ کی کل اسامیاں 22 ہیں۔ان میں سے صرف آٹھ پر مستقل اساتذہ تعینات ہیں۔ کالج میں فزکس، کیمسٹری، باٹنی اور سائیکالوجی کے مضامین کا کوئی استاد نہیں۔
گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج فار ویمن عیسیٰ خیل میں کل 17 اسامیوں میں سے صرف آٹھ پر مستقل اساتذہ تعینات ہیں۔ اس کالج میں تقریباً آٹھ سو طالبات زیر تعلیم ہیں۔کالج میں کیمسٹری اور فزیکل ایجوکیشن کی اساتذہ نہیں ہیں۔
گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج فار بوائز عیسیٰ خیل کی 23 اسامیوں میں سے 15 خالی ہیں جن میں کمپیوٹر سائنس اور کیمسٹری جیسے اہم مضامین بھی شامل ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز میانوالی عزیز اللہ خان نے بتایا کہ اس وقت ضلع میں سرکاری کالجوں کی تعداد 18 ہے جن میں سے پانچ طلبا اور 13 طالبات کے لیے ہیں۔ پسماندگی کے باعث ضلع کے نوجوان مقابلہ جاتی امتحانات میں باقی اضلاع کے طلبا کی نسبت کم تعداد میں منتخب ہوتے ہیں اس لیے کالجوں میں لیکچرار کی نشستیں سال ہا سال سے خالی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
'ٹرانسفر ایپ' نے اٹک میں میٹرک پاس کرنے والے ہزاروں طلبہ کا تعلیمی مستقبل تاریک کر دیا
"ہمارے دفتر کی طرف سے ہر سال باقاعدگی سے محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کے اعلیٰ حکام سے بروقت سی ٹی آئی بھرتی کرنے کی درخواست کی جاتی ہے لیکن اربابِ اختیار فیصلہ سازی کرتے کرتے آدھا سیشن گزار دیتے ہیں۔"
گورنمنٹ گریجوایٹ کالج میانوالی کے شعبہ فزکس کے پروفیسر اور اساتذہ کی تنظیم پپلا (پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن) کے ضلعی صدر محمد حیات خان کا کہنا ہے کہ بلا شبہ اس مسئلہ کا مستقل حل خالی اسامیوں پر مستقل اساتذہ کی بھرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس مسئلے سےعارضی طور پر بھی نمٹا جا سکتا ہے۔
"حکام بالا کو تمام کالجز میں ہر مضمون کا کم از کم ایک لیکچرار تعینات کرنے کی پالیسی اپنانی چاہیے۔ شہر کے قریبی کالجز جہاں ضرورت سے زیادہ اساتذہ ہیں انہیں وہاں ٹرانسفر کرنا چاہیے جہاں اس مضمون کا کوئی استاد نہ ہو۔ علاوہ ازیں عارضی اساتذہ کی بروقت فراہمی سے بھی دور دراز اور پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو بہتر تعلیم دی جا سکتی ہے۔"
تاریخ اشاعت 18 اگست 2023