مختار احمد اپنے گاؤں کے پہلے کسان ہیں جو لہسن کا روایتی بیج کاشت کرنے کے بجائے حکومت کا منظور شدہ ایک نیا بیج بو رہے ہیں۔
وہ چیچہ وطنی کے مضافات میں واقع گاؤں 9/14-L کے رہائشی ہیں جہاں کی کل آبادی چھ ہزار دو سو افراد پر مشتمل ہے جبکہ اس کی کل زرعی اراضی ایک ہزار ایکڑ ہے۔ اس لئے یہاں کے زیادہ تر زمینداروں کے پاس مختار احمد کی طرح تھوڑی تھوڑی زمین ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر یہ زمیندار لہسن اور شکر قندی کی فصلیں کاشت کرتے چلے آ رہے ہیں جن کے لئے یہ اپنے تیار کردہ بیج استعمال کرتے ہیں۔
مختار احمد نے پچھلے سال اس روایت کو توڑا اور لہسن کے ایک ایسے بیج کی کاشت کی جس سے ان کی فی ایکڑ پیداوار میں دو گنا اضافہ ہو گیا۔ ان کی دیکھا دیکھی اس سال ان کے گاؤں کے کچھ دیگر کاشت کار بھی یہ نیا بیج حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ ابھی تک ان میں سے صرف شکیل احمد نامی کاشت کار کو ہی اس سلسلے میں کامیابی ہوئی ہے اور انہوں نے 48 ہزار روپے خرچ کر کے 20 کلو گرام بیج حاصل کر لیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بیج کو وہ چار مرلہ (1089 مربع فٹ) زمین پر کاشت کریں گے جس سے انہیں 640 کلو گرام لہسن حاصل ہو گا جو موجودہ قیمتوں کے مطابق 15 لاکھ 36 ہزار روپے میں فروخت ہو گا اور ان کے لئے بھاری منافعے کا باعث بنے گا۔
پنجاب میں لہسن کے ہزاروں کاشت کار اسی طرح کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ضلع منڈی بہاؤالدین کے گاؤں بوسال کی رہنے والی سپنا کویتا اوبرائے بھی نیا بیج کاشت کرنا چاہتی ہیں تا کہ وہ لہسن کی فصل سے زیادہ زیادہ سے منافع کما سکیں لیکن کئی دوسرے کسانوں اور بیج بیچنے والے تاجروں سے مسلسل رابطہ کرنے کے باوجود انہیں یہ بیج نہیں مِل رہا۔
ان کے مطابق ان کے علاقے میں ویسے تو لہسن بہت کم مقدار میں کاشت ہوتا ہے لیکن نئے بیج کی پیداوار اور قیمت کو دیکھتے ہوئے بہت سے کاشت کار اس بار لہسن ہی لگانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے علاقے کے ایک کاشت کار نے خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے محدود مقدار میں نیا بیج 25 سو روپے فی کلو گرام کے حساب سے منگوایا ہے لیکن اب اس کی قیمت میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔
نئے بیج میں آخر ہے کیا؟
این اے آر سی جی ون نامی یہ بیج نیشنل ایگری کلچر ریسرچ کونسل (این اے آر سی) کے سائنس دانوں نے 2018 میں تیار کیا۔ دو سال اس کی آزمائشی کاشت ہوتی رہی جس کے بعد 2020 میں حکومت نے اس کی فروخت کی اجازت دے دی۔
این اے آر سی نے اس کی ابتدائی قیمت پانچ سو روپے فی کلو گرام رکھی اور اس کی ایک محدود مقدار تیار کر کے فروخت کے لئے پیش کر دی۔ پہلے سال تو اس کی قیمت میں کافی حد تک استحکام رہا لیکن جب رواں سال اپریل اور مئی میں اس کی فصل پک کر تیار ہوئی اور اس نے بہت اچھی فی ایکڑ پیداوار دی تو اس کے نرخ تیزی کے ساتھ اوپر جانے لگے۔ ان دنوں یہ بیج دو ہزار روپے فی کلو گرام سے لے کر تین ہزار روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے۔
اس کی قیمت میں اضافے کی ایک اہم وجہ بیج بنانے والے سائنسدان ڈاکٹر ہمایوں خان کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کی کاشت سے ایک ایکڑ سے 10 ہزار کلو گرام تک لہسن پیدا کیا جا سکتا ہے جو کاشت کاروں کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دیگر بیجوں کی زیادہ سے زیادہ فی ایکڑ پیداوار تین ہزار چھ سو کلو گرام ہی رہتی ہے۔
مختار احمد اس دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پچھلے سال انہوں نے پانچ سو روپے فی کلو گرام کے حساب سے یہ بیج خرید کر اسے پانچ مرلہ (1361 مربع فٹ) اراضی پر کاشت کیا جس سے انہیں دو سو 28 کلو گرام لہسن حاصل ہوا۔ اس میں سے انہوں نے صرف 28 کلو گرام لہسن فروخت کیا جس سے انہوں نے 67 ہزار دو سو روپے کمائے۔
رحیم یار خان کے کاشت کار عمران فیروز اور میانوالی کے زمیندار عامر نواز خان نے بھی یہ بیج پچھلے سال ایک ایک ایکڑ اراضی پر کاشت کیا تھا جس سے انہوں نے بالترتیب 8000 کلوگرام اور 7600 کلو گرام لہسن حاصل کیا۔
ان کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ این اے آر سی جی ون کی پیداواری صلاحیت بہتر ہونے کی بنیادی وجہ اس کی گٹھیوں کا حجم ہے جو روایتی لہسن کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ان گٹھیوں کے اندر لہسن کے دانے بھی روایتی لہسن کی نسبت بہت بڑے ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا وزن ایک سو گرام یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔
تاہم کچھ کاشت کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ این اے آر سی جی ون کوئی نیا بیج نہیں بلکہ ہاتھی لہسن (elephant garlic) نامی بیج کی ہی ایک قسم ہے جس کے اجزا میں جمع تفریق کر کے پاکستانی سائنس دانوں نے اُسے ایک نیا نام دے دیا ہے۔
ہاتھی لہسن امریکہ کے ایک مالی جم نکولس نے 1941 میں دریافت کیا۔ اگلے 12 سال وہ اپنے باغیچے میں اس پر مزید محنت کرتا رہا اور بالآخر 1953 میں اس نے اسے فروخت کرنا شروع کیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس کی کاشت سے لہسن کی فصل بہت زیادہ منافع بخش ہو جائے گی کیونکہ اس سے پیدا ہونے والی گٹھیوں کا سائز عام لہسن کی گٹھیوں سے چھ گنا بڑا ہوتا ہے۔
لیکن این اے آر سی جی ون بیج تیار کرنے والے سائنسدانوں کے گروپ کے رکن ڈاکٹر ہدایت اللہ اپنے بیج کو ہاتھی لہسن کی قسم تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی دریافت پاکستانی سائنسدانوں کی کئی سالوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔
لہسن کی پیداوار میں خود کفالت
پاکستان کے سرکاری تحقیقی اداروں نے پچھلے سال تک پنجاب کے لیے لہسن کا ایک بھی نیا بیج نہیں بنایا تھا۔ اگرچہ فیصل آباد میں واقع ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے کا دعویٰ ہے کہ اس نے لہسن گلابی نامی ایک قسم 1976 میں تیار کی تھی لیکن بیجوں کی دریافت اور فروخت کی نگرانی کرنے والے فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن نامی سرکاری ادارے کے ریکارڈ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
اسی طرح 1996 اور 2018 میں دو نئے بیج، Aglioblanco اور Pakhal Giant، متعارف کرائے گئے لیکن یہ دونوں بیج پنجاب میں نہیں لگائے جاتے بلکہ ان کی کاشت صرف خیبر پختونخوا تک محدود ہے۔
سرکاری طور پر تیار کردہ بیج کی عدم موجودگی میں پنجاب کے کاشت کار کچھ غیر منظور شدہ اقسام کاشت کر رہے ہیں جن میں دیسی سفید، گولڈن فارمی، چائنہ لہسن، ایرانی لہسن اور اٹالین لہسن شامل ہیں۔لیکن ان بیجوں کے استعمال سے پیدا ہونے والا لہسن کبھی بھی پاکستان کی ضروریات کے لئے کافی نہیں رہا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے کچھ برسوں سے پاکستان کو اپنی ضرورت کا 40 فیصد سے 50 فیصد لہسن دوسرے ممالک سے منگوانا پڑتا ہے جن میں چین اور ہندوستان بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادراہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق 2019 میں پاکستان نے 75 ہزار تین سو 43 ٹن لہسن خود پیدا کیا اور 58 ہزار 40 ٹن لہسن درآمد کیا جس پر نو ارب سات کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2014 کے بعد سے پاکستان میں لہسن کے استعمال اور درآمد دونوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
این اے آر سی جی ون بیج بنانے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس بیج کی وجہ سے پاکستان میں لہسن کی پیداوار دگنی ہو جائے گی جس سے ہمارا ملک اس فصل میں خود کفیل ہو جائے گا۔
برائلر لہسن
تاہم کاشت کاروں کو این اے آر سی جی ون کے بارے میں کچھ شکایات بھی ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ جہاں ایک ایکڑ لہسن کاشت کرنے کے لئے 320 کلو گرام سے 400 کلو گرام روایتی بیج درکار ہوتا ہے وہاں اتنی ہی زمین کے لئے نئے بیج کے 800 کلو گرام چاہئیں جن کی قیمت آج کل کے حساب سے 16 لاکھ روپے سے 20 لاکھ روپے بنتی ہے جو اکثر چھوٹے زمینداروں کی استطاعت سے باہر ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بیج سے کاشت کی جانے والی فصل میں روایتی بیجوں کی فصل کے مقابلے میں دوگنا زیادہ مصنوعی اور قدرتی کھاد ڈالنا پڑتی ہے اور اس کی فصل پکنے میں بھی روایتی بیجوں کی فصل سے دو سے تین ماہ زیادہ لیتی ہے۔
اسی طرح ان کا خیال ہے کہ اس بیج سے ان کی فی ایکڑ پیداوار تو بڑھ جائے گی لیکن نئے لہسن کو کھانا بنانے میں استعمال نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ ایک تو اس کا ذائقہ دیسی لہسن اور چائنہ لہسن سے بہت مختلف ہے اور دوسرے یہ کہ جب اسے ہنڈیا میں ڈالا جاتا ہے تو یہ بہت زیادہ جھاگ چھوڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ لہسن اصل میں پیاز کی ہی ایک قسم ہے جسے سلاد کے طور پر تو کھایا جا سکتا ہے لیکن سالن میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ ایک کاشت کار عمران فیروز کو اسی لئے خدشہ ہے کہ پاکستانی صارفین اسے قبول نہیں کریں گے جس کے باعث اس کے مارکیٹ میں آنے کے بعد اس کی قیمت گر جائے گی اور ابھی جو کاشت کار اسے بڑے شوق سے اگا رہے ہیں انہیں خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
این اے آر سی کے سائنسدان ڈاکٹر ہدایت اللہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس لہسن کو فوری طور پر کھانوں میں استعمال کرنا مناسب نہیں ہو گا لیکن وہ چاہتے ہیں کہ حکومت لہسن سے مختلف چیزیں تیار کرنے والی کمپنیوں سے رابطہ کر کے اسے ملک سے باہر بھیجے اور زرِ مبادلہ کمائے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس بیج کو مارکیٹ میں لانے سے پہلے لیبارٹری میں اس کا مکمل تجزیہ کیا گیا جس سے پتہ چلا کہ اس کے اجزا دیسی لہسن اور چائنہ لہسن جیسے ہی ہیں۔ان کے بقول "اس کے ذائقے میں فرق اس میں شامل پانی کی زیادہ مقدار کی وجہ سے ہے"۔
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ آہستہ آہستہ لوگ اس کے ذائقے کے بھی عادی ہو جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ "یہ دیسی مرغی اور برائلر کے درمیان فرق کی طرح ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ اس لہسن کو اسی طرح قبول کر لیں گے جس طرح انہوں نے برائلر کو قبول کر لیا ہے"۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 1 جولائی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 15 جنوری 2022