رانا عبدالرحمن ، لاہور سے محض 25 کلو میٹر کے فاصلے پر و اقع سرحدی گاؤں ڈیال کے رہائشی ہیں لیکن وہ یہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے اتنے تنگ ہیں کہ انہوں نے اپنے کم سن بچوں کو شہر میں ان کے ننھیال بھیج دیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ گاؤں میں مجموعی طور پر روزانہ 10 سے 12 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے اور جب بجلی آتی ہے اس وقت بھی اکثر وولٹیج کم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مہینے میں دو، تین مرتبہ علاقے کا کوئی نہ کوئی ٹرانسفارمر خراب ہو جاتا ہے۔
وہ تصدیق کرتے ہیں کہ بارڈر ایریا کے تقریباً تمام دیہات میں بہت زیادہ بجلی چوری کی جارہی ہے۔ تاہم ان سمیت بڑی تعداد میں ایسے صارفین بھی ہیں جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں اور بجلی چوری کو جرم سمجھتے ہیں۔
''میرے پانچ اور تین سال کی عمر کے دو بچے ہیں جن کے لیے میں نے یوپی ایس لگوایا ہے تاکہ گھر میں پنکھا چلتا رہے مگر طویل لوڈ شیڈنگ میں وہ بھی جواب دے جاتا ہے۔"
عبدالرحمن بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں لوگوں بڑی تعداد میں مویشی پال رکھے ہیں۔ گھنٹوں بعد جب بجلی آتی ہے تو تمام لوگ چارہ کاٹنے کی مشینیں اور پانی کے پمپ ایک ساتھ چلا لیتے ہیں جس سے ٹرانسفارمر پر لوڈ زیادہ پڑتا ہے اور وہ خراب ہوجاتا ہے۔
سرحدی علاقوں میں ہی نہیں، لاہور اندرون شہر کے کئی علاقوں میں بھی چار سے چھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ تاہم چند علاقے ایسے ہیں جہاں ایک منٹ کی لوڈ شیڈنگ بھی نہیں ہوتی۔
دوسری طرف لیسکو حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں بجلی کی پیداوار اس وقت طلب کےمقابلے میں زیادہ ہے جبکہ لوڈ شیڈنگ صرف ان فیڈرز پر کی جارہی ہے جہاں لائن لاسز اور بجلی چوری زیادہ ہے۔
"بعض اوقات تکنیکی خرابی یا مرمت کی وجہ سے بھی بجلی بند کرنا پڑتی ہے۔ ایسی صورت میں متعلقہ گرڈ کو فیڈرز کی بندش کا شیڈول دیا جاتا ہے جس کے مطابق پاور سپلائی معطل کی جاتی ہے۔"
نیپرا کی طرف سے گزشتہ سال یعنی 2023ء میں جاری ہونے والی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کی کارکردگی رپورٹ بتاتی ہے کہ ڈسکوز لائن لاسز کم اور ریکوری بہتر کرنے کی بجائے جان بوجھ کر لوڈ شیڈنگ کرتی ہیں۔ 22-2021ء میں مختلف ڈسکوز نے دو سے 10 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کی تھی۔
"آئیسکو، گیپکو، فیسکو نے دو سے تین گھنٹے، لیسکو نے تین سے چار، میپکو نے چارسے پانچ، کیسکو، سیپکو اور حیسکو نے 10، گھنٹے جبکہ کے الیکٹرک نے چھ گھنٹے تک روزانہ لوڈشیڈنگ کی تھی۔"
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ حقیقت میں ڈسکوز کی طرف سے فراہم کردہ اعداد وشمار سے زیادہ لوڈشیڈنگ کی گئی تھی جو نیپرا قوانین کی خلاف ورزی تھی اور اس اقدام پر ڈسکوز کے خلاف کارروائی بھی کی گئی۔
سرکاری اعدادوشمار تصدیق کرتے ہیں کہ ملک میں مجموعی طلب سے زیادہ بجلی کی پیداوار ہونے کے باوجود لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔
پاکستان اکنامک سروے 2024ءکے مطابق ملک میں بجلی کی پیدا واری صلاحیت (انسٹالڈ کپیسٹی) 42 ہزار131 میگا واٹ ہے۔ جولائی 2023ء سے مارچ 2024ءکے دوران ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار 92 ہزار گیگا واٹ آور سے زیادہ تھی جبکہ طلب محض ساڑھے 68 ہزار گیگا واٹ آور کے قریب رہی۔
نیپرا نے ڈسکوز کو ایگری گیٹ ٹیکنیکل اینڈ کمرشل (اے ٹی اینڈ سی ) لاسز کے مطابق لوڈ شیڈنگ کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس پالیسی کے تحت 10 فیصد لاسز والے فیڈرز کو اے کیٹگری میں رکھا گیا ہے جہاں کوئی لوڈشیڈنگ نہیں کی جائےگی۔ اسی طرح 10.1 سے 20 فیصد لاسز والے فیڈرز پر بھی لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کو ترجیح دی گئی ہے۔
" 20.1 فیصد سے 30 فیصد لاسز والے فیڈرز پر دو گھنٹے، 30.1 سے 40 فیصد لاسز والے فیڈرز پر چار گھنٹے ، 40.1 فیصد سے 60 فیصد والے فیڈرز پر آٹھ گھنٹے، 60.1 سے 80 فیصد لاسز والے فیڈر پر 12 گھنٹے اور اس سے زیادہ لاسز والے فیڈرز پر 16 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی اجازت ہے۔ تاہم ڈسکوز طے شدہ پالیسی سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کرتی ہیں۔
وفاقی وزیر توانائی کہتے ہیں کہ بجلی چوری سے 600 ارب روپے سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔اس وقت سسٹم میں ضرورت سے زائد بجلی موجود ہے لیکن اگر طلب کے مطابق سپلائی دیتے ہیں تو دو سے ڈھائی ارب روپے کا مزید نقصان ہو گا۔
"بعض فیڈرز پر کنڈے استعمال ہوتے ہیں اگر ان کو بجلی فراہم کریں گے تو یہ بوجھ بھی بل دینے والے صارفین پر جائے گا۔"
اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) نے حال ہی میں اپنے علاقوں اے ایم آئی (ایڈونس میٹرنگ انفرا سٹرکچر) میٹر لگانا شروع کیے ہیں۔ اس وقت کے آئیسکو چیف ڈاکٹر محمد امجد کا دعویٰ تھا کہ اے ایم آئی میٹر سے بجلی چوری کا خاتمہ، درست ریڈنگ اور لائن لاسز میں کمی ہوگی۔
لیکن شہری نہ صرف لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پریشان ہیں بلکہ بجلی کے بھاری بلوں نے بھی ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔
آئیسکو اپنے کئی علاقوں میں پانچ جولائی تک 40 ہزار سے زائد پرانے میٹروں کی جگہ اے ایم آئی میٹرز لگا چکی ہے۔ یوں لائن لاسز اور بجلی چوری روکنے کا حل تو شاید نکل آئے مگر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو روکنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔
سابق نگران وفاقی وزیر ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بجلی کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
" 2015ء میں بجلی کی روزانہ کھپت 13 ہزار میگاواٹ تھی جس میں تبدیلی نہیں آئی لیکن صارفین سے 10 گنا زیادہ کیپسٹی چارجز لیے جا رہے ہیں۔"
سوشل میڈیا پر ان کے دعوے کے مطابق پیداواری صلاحیت (انسٹالڈ کپیسٹی) 43 ہزار 400 میگاواٹ ہونے کے باوجود کھپت وہیں کھڑی ہے مگر آئی پی پیز کو بجلی کی جزوی یا صفر پیداوار پر دو ٹریلین روپے ادا کیے جا رہے ہیں۔ ایسے آئی پی پی معاہدوں سے ملک کیسے چلے گا؟
انرجی سیکٹر کے ماہر سید اختر علی پلاننگ کمیشن کے ممبر توانائی بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت نئے منصوبے کی وجہ سے ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت بہت بڑھی ہے اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
"جب بجلی استعمال ہوتی ہے تو اس کی ادائیگی صارفین کرتے ہیں لیکن اگر اس پیداوار کی کھپت نہ ہو تو پھر اس کی ادائیگی حکومت کو کرنا پڑتی ہے جسے کپیسٹی چارجز کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ دو ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔"
یہ بھی پڑھیں
بےقابو لائن لاسز یا بجلی چوری کی سزا بل ادا کرنے والے کیوں بھگت رہے ہیں؟
وہ بتاتے ہیں کہ اب کوئلے، گیس اور جوہری ایندھن سے بجلی پیدا کرنے والے جو مزید پلانٹس لگائے جارہے ہیں ان کو بھی کپیسٹی چارجز دینا پڑیں گے۔ سولر کی وجہ سے بجلی کی کھپت میں مزید کمی ہوگی جس سے گردشی قرضہ بڑھتا جائےگا۔
اقتصادی تجزیہ کار جواد ملک کہتے ہیں کہ ڈسکوز کے لیے واجبات کی عدم وصولی اور لائن لائسز بڑے مسائل ہیں جن پر قابو پانے کے لیے ایسے فیڈرز پر لوڈشیڈنگ کا سہارا لیا جاتا ہے۔
"تاہم ملک میں بجلی کی تقسیم اور ترسیل کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی جا رہی جس کے سبب گرڈ سے صارف تک پہنچنے میں بجلی کا ضیاع ہوتا ہے اور اس کا خمیازہ بھی صارف کو بھگتنا پڑتا ہے۔"
بقول ان کے ایک اندازے کے مطابق صارفین 18 فیصد تک لائن لاسز کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں۔
ادھر پاور ڈویژن نے حال ہی میں گھریلو صارفین کے لیے بجلی کے ٹیرف میں مز ید اضافہ اور فکسڈ چارجز لاگو کر دیے ہیں۔
تاریخ اشاعت 26 جولائی 2024