لیاقت پور شہر سے 17 کلومیٹر دور کے ایک گاؤں سے بشیر احمد اپنی ضعیف والدہ اور بیوی بچوں کے ہمراہ جنرل بس سٹینڈ پہنچے۔ انہیں بہاول نگر جانے والی بس کا شدید گرمی میں انتظار کرنا پڑا۔ سائے کے لیے بنائے گئے شیڈ کے نیچے حجام اور مرغی فروش براجمان تھے۔
بشیر احمد نے قریبی دکانوں کے سامنے بنے چھپروں کے نیچے سایہ تلاش کیا اور اپنے خاندان کو وہاں بٹھا کر بس کا انتظار کرنے لگے۔ اسی دوران ذیابیطس میں مبتلا ان کی ضعیف والدہ کو بیت الخلا جانے کی ضرورت ہوئی۔ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ اس جگہ کوئی بیت الخلا نہیں ہے۔ وہاں ایک ہاکر نے ان کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے معمر خاتون کو بس سٹینڈ کے قریب اپنے گھر بھجوایا تاہم ان کی واپسی تک بشیر احمد کی بس چھوٹ چکی تھی۔
کچی منڈی میں برلب شاہی روڈ شہر کی قیمتی اراضی پر واقع اس بس سٹینڈ کے مسافر خانے کی کھڑکیاں اور دروازے غائب ہو چکے ہیں اور چھت کا بڑا حصہ گر گیا ہے۔ اب یہ بس سٹینڈ نہیں رہا بلکہ کچرا ڈالنے کا مقام بن چکا ہے۔
بسیں اور ویگنیں اب یہاں نہیں آتیں۔ تمام ٹرانسپورٹ لاری اڈے کے باہر سڑک پر کھڑی ہوتی ہے جبکہ صبح اور شام کے اوقات میں اس کا پڑاؤ اللہ والا چوک ہوتا ہے جس سے ٹریفک کی روانی متاثر رہتی ہے۔
لالا محمد اقبال بلوچ گزشتہ 20 سال سے لیاقت پور میں منی کوچز کی ایک کمپنی کے اڈا مینجر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جنرل بس سٹینڈ 1980ء کی دہائی میں بنایا گیا تھا تاہم یہ گزشتہ کئی برس سے پوری طرح فعال نہیں ہے۔
میونسپل کمیٹی ہر سال بس سٹینڈ کا ٹھیکہ دیتی ہے۔ ٹھیکیدار باہر سڑک یا اللہ والا چوک پر آنے والی ہر بس اور اے سی کوچ سے 100 روپے جبکہ منی کوچ اور ویگنوں سے 50 روپے وصول کرتا ہے۔ رواں سال کے لیے ٹھیکہ 45 لاکھ روپے ہے۔
اقبال بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر حکومت چاہے تو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بھی جنرل بس سٹینڈ بنایا جا سکتا ہے جہاں ورکشاپس، سپیئر پارٹس کی دکانیں، ٹک شاپس اور دیگر مارکیٹیں تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ ان کے مطابق سڑکوں پر بنے تمام اڈے ختم کر کے بس سٹینڈ میں منتقل ہونے چاہئیں۔
سابق رکن صوبائی اسمبلی چوہدری محمود احمد نے بتایا کہ انہوں نے دو بار جنرل بس سٹینڈ کا تفصیلی دورہ کیا ہے۔ یہ جگہ بس سٹینڈ کی ضروریات پوری نہیں کرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2019ء میں میونسپل کمیٹی لیاقت پور سے اس بس سٹینڈ کا مکمل ڈیٹا مانگا تھا جو ابھی تک فراہم نہیں کیا گیا تاہم یہاں میونسپل کمیٹی کے اہل کاروں کی آشیرباد سے قبضے ضرور ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی آئندہ ترجیحات میں جنرل بس اسٹینڈ کو چنی گوٹھ روڈ پر واقع زیر تکمیل سبزی منڈی کے ساتھ منتقل کرنا شامل ہے جس میں جدید تقاضوں کے ہم آہنگ تمام ضروری سہولیات موجود ہوں گی۔
چوہدری محمود احمدنے بتایاکہ موجودہ بس سٹینڈ کی جگہ پر کچی منڈی کے عوام کے لیے کمیونٹی ہال بنانے کی تجویز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر نئے بس سٹینڈ کے لیے سرکاری جگہ کم پڑی تو نجی اراضی بھی خریدی جا سکتی ہے۔
میونسپل کمیٹی لیاقت پور کے سابق چیئرمین اور صدر مرکزی انجمن تاجران لیاقت پور راشد رفیق چوہدری نے بتایا کہ یہ جنرل بس سٹینڈ تقریباًچار عشرے قبل منظور ہوا تھا۔ اس کی اراضی پر سکول، عیدگاہ اور ریسکیو دفاتر بننے سے رقبہ کم ہو گیا جس کے بعد سے اس کی تجدید نہ ہو سکی۔ راشد رفیق کے مطابق انہوں نے بطور چیئرمین میونسپل کمیٹی لیاقت پور سیکرٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی رحیم یار خان سے ملاقات کر کے بس سٹینڈ لائسنس کی تجدید کا کہا تھا مگر سیکریٹری نے واضح کیا تھا کہ حکومتی پالیسی ہے کہ سی کلاس بس سٹینڈ کے لیے کم از کم 28 کنال اراضی ہونا ضروری ہے۔ راشد رفیق نے بتایا کہ فی الوقت کہا جا سکتا ہے کہ جنرل بس سٹینڈ لیاقت پور منظور شدہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میونسپل کمیٹی "بس سٹینڈ فیس" کی بجائے "پارکنگ فیس" کے نام سے وصولی کرتی ہے۔
سیکرٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی رحیم یار خان ریاست علی نے جنرل بس سٹینڈ کی حیثیت کے بارے میں بتایا کہ لیاقت پور میں سرکاری طور پر کوئی بس سٹینڈ وجود نہیں رکھتا۔
حاجی محمد اکرم وسیر یونین کونسل سٹی لیاقت پور کے نائب ناظم اور کچی منڈی سے کئی بار منتخب ہونے والے کونسلر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاری اڈے کی جگہ پر ریاست بہاولپور کے عباسی نوابوں کا ریسٹ ہاؤس ہوا کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ متروک ہوتا گیا۔ موضع چوہدری میں واقع مذکورہ اراضی 1980ء کی دہائی میں اس وقت کے کمشنر بہاولپور نے جنرل بس سٹینڈ کے لیے مختص کر دی۔ تب یہ رقبہ 15 ایکڑ سے زیادہ تھا مگر بعد میں اسی اراضی پر مسجد، عید گاہ، گرلز ایلیمنٹری سکول (اب سیکنڈری سکول)، بوائز پرائمری سکول، محکمہ پبلک ہیلتھ اور ریسکیو 1122 کے دفاتر قائم کر دیے گئے۔
"بلدیہ لیاقت پور کے ایک سابق چیئرمین نے اپنے من پسند لوگوں کو بھی خاصی اراضی الاٹ کر دی قریبی رہائشوں نے بھی بس سٹینڈ کی کچھ اراضی پر قبضہ کر لیا۔ اب یہ جگہ 10 یا 12 کنال سے زیادہ نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ یہ بس سٹینڈ محکمہ ٹرانسپورٹ کی سی کلاس درجہ بندی پر بھی پورا نہیں اترتا۔"
انجمن تاجران کے جنرل سیکرٹری ممتاز حسین بلوچ اللہ والا چوک کی قریب ہی کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چوک کے دکان دار بسوں اور ویگنوں کے یہاں رکنے کو اپنے کاروبار میں اضافہ کا باعث سمجھتے ہیں۔ تاہم چوک پر سواریوں کے لیے آنے والے رکشوں، موٹرسائیکلوں اور سامان کی نقل و حرکت کے لیے گدھا ریڑھیوں اور لوڈر رکشوں کے مسلسل کھڑا رہنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
بیٹھنے کی جگہ ہے نہ بیت الخلا: میانوالی کا ادھورا بس اڈا مسافروں کے لیے زحمت بن گیا
خالد محمود خان بلوچ اللہ والا چوک کے رہائشی اور میونسپل کمیٹی لیاقت پور کے سابق کونسلر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ والا چوک کے اطراف کے رہائشی غیر قانونی ٹرانسپورٹ اڈوں کی وجہ سے شدید اذیت میں مبتلا ہیں۔ یہاں کھڑی ہونے والی کوچز، بسوں اور ویگنوں کے ڈرائیور بلاجواز اور مسلسل پریشر ہارن بجاتے رہتے ہیں۔ اس سے بہرہ کر دینے والی شدید صوتی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔
پارکنگ ٹھیکیدار شاہد اکبر چوہدری کا کہنا ہے کہ بھاری رقم کی ادائیگی کے باوجود بس سٹینڈ پر مسافروں، ٹرانسپورٹروں اور وصولی کرنے والے ٹھیکیدار کے ملازمین کے لیے سہولیات نہیں۔ بس سٹینڈ کا منظور شدہ نہ ہونا بھی مقامی اور ضلعی انتظامیہ کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے۔ بس سٹینڈ کی اراضی پر ناجائز قبضوں کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہئیں۔
ٹریفک پولیس انچارج عبدالغفور کمبوہ کے مطابق "پولیس کے عملے نے سابق اسسٹنٹ کمشنر صاحبان سے متعدد ملاقاتوں میں گزارش کی تھی کہ جنرل بس سٹینڈ میں تجاوزات ختم کر کے یہاں سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ شاہی روڈ اور اللہ والا چوک پر ٹریفک جام سے بچا جا سکے مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔"
محمد شکیب سرور حال ہی میں اسسٹنٹ کمشنر لیاقت پور تعینات ہوئے ہیں۔ ان کے پاس میونسپل کمیٹی لیاقت پور کے ایڈمنسٹریٹر کا چارج بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنرل بس سٹینڈ لیاقت پور کی جگہ بہت کم ہے۔ میونسپل کمیٹی لیاقت پور کی آئندہ منصوبہ بندی بس سٹینڈ کو شہر سے باہر مناسب جگہ منتقل کرنا شامل ہے۔
تاریخ اشاعت 7 اگست 2023